گھڑی کے ہر کانٹا اپنی متعینہ رفتار سے گھومتا ہے لیکن
وقت کا پہیےکی بات مختلف ہے ۔ اس کی رفتار یکساں نہیں رہتی بلکہ گردش زمانہ
کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ عام طور پر کال چکر دریا کی روانی کے مانند بہت
دھیمے گھومتا ہے اور اس کے سبب ہونے والی تبدیلیاں نظروں سے اوجھل ہرجاتی
ہیں لیکن کبھی کبھار اس میں طغیانی بھی آتی ہے ۔ اس کی تازہ مثال
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی ہے۔ طالبان اگر ایسا نہ کرتے تو امریکہ
ساری دنیا سے کہتا کہ ہم نے خیرات میں انہیں اقتدار سونپ دیا لیکن اس غلط
فہمی کی بیخ کنی کردی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے امریکہ بہادر طالبان سے
اپنے سفارتکاروں کے تحفظ کی بھیک مانگ رہا ہے۔ ایک دن پہلے تک جس افغانی
حکومت کی پشت پناہی کی جارہی تھی اب اس کو استعفیٰ دینے کا مشورہ دےرہا ہے۔
کل تک طالبان کو افغانی حکومت منہ نہیں لگاتی تھی مگر آج اقتدار میں
اشتراک کی پیشکش کررہی ہے۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں ایک دن قبل جس طالبان
کو دہشت گرد کہہ کر پکارا جارہا تھا وہ راتوں رات جنگجو کے لقب سے نواز
دئیے گئے ہیں ۔ یہ دیکھ کر مظہر لکھنوی کا شعر معمولی ترمیم کے ساتھ یاد
آتا ہے؎
یہ سیاست کا فسانہ بھی بدل جائے گا
وقت کے ساتھ زمانہ بھی بدل جائے گا
طالبان کی اس کامیابی کا اندازہ لگانے میں یوروپ پوری طرح ناکام رہا یہی
وجہ ہے کہ دودن قبل یوروپی یونین نے یہ دھمکی دے دی کہ اگر طالبان نے تشدد
سے اقتدار حاصل کیا تو اسے بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ کر دیا جائے
گا۔ یوروپی یونین کو یہ بتانا پڑے گا کہ ناٹو کے فوجی کیا افغانستان میں
جھک مارنے کے لیے گئے تھے۔ یوروپی یونین میں خارجی امور کے سربراہ یوسیپ
بوریل نے ایک بیان جاری کرکے کہا تھا ، ’اگر طاقت سے اقتدار حاصل کیا جاتا
ہے اور ایک اسلامی ریاست کا قیام ہوتا ہو تو طالبان کو عالمی منظوری نہیں
ملے گی اور اسے بین الاقوامی سطح پر عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس
طرح کے احمقانہ بیان دینے والے یوروپی حکمرانوں کو اپنے گریبان میں جھانک
کر دیکھنا چاہیے کہ تعاون کے نام پر ان لوگوں نے پچھلے چالیس سالوں میں
افغانستان کو کیا دیا ؟ اس بیان کے ایک دن بعد طالبان 34 صوبائی
دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ یعنی مغربی ماہرین نے
کابل پر قبضے کے لیے جو نوے دن کا وقت دیا تھا وہ اچانک سمٹ کر تیس دن پر
آگیا اوربعید نہیں صرف نو گھنٹے میں ان کے حواریوں کی بساط لپٹ جائے۔
14؍ اگست کی صبح یہ خبر آئی کہ طالبان نے افغانستان کےبیشتر ریاستوں پر
اپنا پرچم لہرانے کے بعد فوجی اور ہوائی اڈوں کو اپنے قبضے میں لینا شروع
کر دیا ہے۔ اس دوران طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایران کی سرحد پر
ایک ملٹری ڈرون کو مار گرانے کا دعویٰ کردیا۔ اس کے قبل طالبان کے جنگجو
قندوز ہوائی اڈے پر ہندوستان کی طرف سے افغان فضائیہ کو دیئے گئے ایم
آئی-24 وی ہیلی کاپٹر کو بھی ضبط کرچکے تھے۔ اس کے ساتھ طالبان کے ترجمان
سہیل شاہین نے ہندوستان کو افغانستان کے اندر فوجی موجودگی سے بچنے کا
مشورہ دے دیا ۔ انہوں نےہندوستان کے ذریعہ افغانستان کی ترقی کے لیے تعمیر
کردہ ڈیم، نیشنل پروجیکٹس، انفرا اسٹرکچر اور معاشی خوشحالی کے لئے کئے
جانے والے کاموں کو سراہا۔اس کے باوجود حکومت ہند نے اپنے شہریوں کو جلد از
جلد افغانستان سے نکلنے کی تلقین کر دی ۔طالبان نے ہندو اور سکھ برادری کے
تحفظ اور پکتیہ صوبہ میں گرودوارہ کی بابت وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سکھ
برادری نے خود جھنڈا ہٹایا تھا۔ اس کے بعدطالبان کےسیکورٹی اہلکاروں نے
گرودوارہ پہنچ کر سکھوں کی تشویش دور کردی۔
13؍ اگست کی شب یہ خبر آچکی تھی کہ افغانستان میں طالبان حملوں کے پیش نظر
ناٹو کے جنرل سکریٹری جے اسٹول ٹینبرگ اور 30 سفیروں کی برسیلز میں نشست
ہوئی ۔ اس کی بابت یہ اطلاع دی گئی کہ ناٹو سیکورٹی صورتحال کا بہت باریکی
سے نگرانی کر رہا ہے نیز افغان افسران اور دیگر عالمی برادری کے ساتھ رابطہ
میں ہے۔ اس کا مقصد حکومت کو مستحکم کرنا، مقامی سیکورٹی اہلکاروں کو مضبوط
کرنا ہے۔ ناٹو نے طالبان سے حملے بند کرنے کے لئے کہا مگر اس نے حملے جاری
رکھے اوردارالحکومت سے محض 80 کلو میٹر کی دوری پر آگیا ۔ دوحہ کی مصالحتی
بات چیت میں طالبان نے اشرف غنی کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری کی تجویز کو
مسترد کرتے ہوئےیاد دلایا کہ اسی حکومت نے ثالثی کے اصولوں کو مسترد کر دیا
تھا۔ افغانستان میں جنگ بندی کے لئے جو نیا فارمولا زیر غور ہے اس کے تحت
اشرف غنی انتظامیہ کو پیچھے ہٹنا ہوگااور خود ان کی اقتدار سے بے دخلی
ہوجائے گی ۔ طالبان، فوجی افسران اور دیگرنمائندوں کے ساتھ عبوری حکومت کا
قیام زیر غور ہے۔
طالبان بین الاقوامی برادری کو زمینی حقائق کا حقیقت پسندانہ اندازہ قائم
کرنے کا مشورہ دیا اور اس کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا ۔ امریکی ذرائع کے
مطابق اس نے افغان صدر اشرف غنی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا ۔ اس
مقصد کے لیے امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن اور وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے
افغان صدر اشرف غنی کو فون کرکے سمجھایا۔ان لوگوں کے نزدیک جنگ بندی کے لیے
اشرف غنی کا اقتدار سے الگ ہو نا اور عبوری حکومت کا قیام ضروری ہے ۔ اشرف
غنی کے لیے ایک ساتھ کئی بری خبریں آئیں پہلی تو ’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے
ہوا دینے لگے‘۔ دوسرے ان کا نائب صدر امراللہ صالح رات کی تاریکی میں کابل
سے تاجکستان فرار ہوگیا ۔ اس کےعلاوہ طالبان نے اشرف غنی کے آبائی وطن
صوبہ لوگر کے دارالحکومت پلِ علم پر بھی اپنی فتح کا پرچم لہرا دیا ۔ اب
بیچارے صدر کے لیے امریکی سفارتکاروں کے ساتھ سات سمندر پار نکل جانے کے
سوا کوئی چارۂ کار نہیں بچا۔
افغانستان کے اندر بیس سال قبل طاقت کے زعم میں مبتلا ہوکر دندناتے ہوئے
داخل ہونے والے امریکہ کو گردشِ زمانہ نے طالبان سے اپیل کرنے پر مجبور
کردیا ۔ اس نے طالبان سے گہار لگائی ہے کہ اگر وہ ملک کا کنٹرول سنبھال
لیتے ہیں تو امریکی سفارتخانے پر حملہ نہ کریں۔ امریکہ کے مشہور اخبار
نیویارک ٹائمز نے یہ خبر دی ہے کہ امریکی مذاکرات کار طالبان سے یقین دہانی
چاہتے ہیں کہ وہ دارالحکومت کابل میں موجود امریکی سفارتخانے کو نشانہ نہیں
بنائیں گے ۔اس صورت میں امریکی امداد جاری رہے گی ۔ ویسے اگر امریکہ تعاون
نہ کرے تب بھی طالبان سفارتکاروں کو پریشان نہیں کریں گے۔ اس سے پہلے دوران
جنگ بھی انہوں نے ایسانہیں کیا۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سفارتخانے پر
تعینات 1400 فوجیوں کو وطن واپس بلانے کا اعلان کیا ہےاور اپنے شہریوں کو
فوری طور پر افغانستان چھوڑنے کی درخواست کی ہے۔ اس کے جواب میں طالبان کا
عالمی برادی سے مطالبہ ہے کہ انہیں افغانستان کا جائز سرپرست تسلیم کیا
جائے ۔ معاشی امداد کےلیے وہ چین اور روس سمیت عالمی طاقتوں سے تعلقات
استوار کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ بہادر نے تو افغانستان کے حالات کا درست اندازہ لگا لیا اور وہ کوئی
غیر معقول شرط نہیں لگا رہا لیکن یوروپ ہنوز خواب غفلت میں مبتلا ہے۔ گزرے
وقتوں کی عالمی طاقت اور فی زمانہ امریکہ کے باجگذار برطانیہ نےافغانستان
سے امریکی افواج کے انخلا پر شدید تنقید کی ہے۔برطانیہ نے افغانستان سے
امریکی فوج کے انخلا کو غلطی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ طالبان کے
دوبارہ سر اٹھانے سے یہ ملک شدت پسندوں کی افزائش گاہ بن جائے گا اور اس سے
دنیا کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ سچ بات تو یہ ہے امن عالم کو حقیقی خطرہ
یوروپ اور امریکہ کی جارحیت سے ہے۔ ان لوگوں نے ساری دنیا میں تباہی مچا
رکھی ہے۔ اس کے باعث انہیں ناکامی و رسوائی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن
وہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ طالبان کے خلاف اوٹ پٹانگ بدعنوانیاں
پھیلانے والوں کو انہوں نے اپنی کشادہ دلی سے خاموش کردیا ۔ طالبان سخت
ناقد اور شیر ہرات کے نام سے مشہور کمانڈر محمد اسماعیل خان کوہرات فتح
کرنے کے بعد حراست میں لینے کے بعد رہا کر دیا کیونکہ اب وہ طالبان خیمے
میں شامل ہوگئے ۔ اس کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی ۔ایک زمانے
میں اسماعیل خان نے طالبان کے خلاف آخر دم تک لڑنے کا عزم کیا تھا لیکن اب
وہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام چاہتے ہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دوچار دن پہلے تک امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا کی دیگر
طاقتوں نے طالبان کو خبردار کیا تھا کہ اگرطاقت کے زور پر افغانستان پر
قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو عالمی امداد نہیں ملے گی لیکن طالبان نے ا س
تجویز کو ٹھوکر سے اڑا دیا ۔ جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس نے تو یہاں تک
کہا تھا کہ اگر طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد شرعی
قوانین نافذ کیے تو وہ انہیں امداد نہیں دیں گے۔ جرمنی کون ہوتا کسی خود
مختار ملک سے یہ کہنے والا کہ وہاں کون سے قوانین نافذ ہونے چاہئیں ؟ ویسے
بھی افغانی کسی امداد کی خاطر اپنے ایمان کا سودہ نہیں کرتے اور کسی طاقت
کے آگے نہیں جھکتے ہیں ۔ ان کی چالیس سالہ عظیم مزاحمت اس حقیقت پر شاہد
ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی سبق سیکھنا نہیں چاہتا تو یہ اس کی اپنی ہٹ
دھرمی اور خام خیالی ہے ۔ طالبان کی عظیم کامیابی اس دور کا ایک بہت بڑا
معجزہ ہے ۔ یہ اس آیت کی واضح ترین تفسیر ہے کہ :’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ
ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے
والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ اپنی کھلی آنکھوں سے جو اس کو سچائی دیکھنے میں
ناکام ہوں ایسے خواب غفلت میں مبتلا لوگوں کے لیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا
ہے؎
کھڑا سرہانے یہ کہہ رہا تھا سروش شانے ہلا ہلاکر
اٹھ اے قیامت کے سونے والے میں تھک گیا ہوں جگا جگاکر
|