آج بھارت میں74ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔آزادی کے تعلق
سے بھارت میں جو اُمیدیں بھارت کے ہر خاص وعام کو تھی وہ اُمیدیں بر نہیں
آئیں،کیونکہ اس ملک کو چلانے والے سیاستدانوں نے ملک کی ترقی سے زیادہ
اپنے آپ کو ترقی میں لانے کی مہم چلائی ہے۔اس پورے دورانیہ میں اگر کسی کو
سب سے زیادہ نقصان ہواہے تو وہ نقصان بھارت کے مسلمانوں کو ہواہے،کیونکہ
بھارتی مسلمانوں کے پاس نہ تو آزادی کے بعد سیاسی طاقت بنی ہے نہ ہی ملّی
قیادت ابھری ہے اور نہ ہی دینی طو رپر مسلمان پارسا ہوئے ہیں نہ ہی تعلیمی
اعتبار سے مضبوط ہوئے ہیں،پوری طرح سے مسلمانوں میں کمزوریاں دیکھی جاسکتی
ہیں۔اب بات کرتے ہیں مسلمانوںکی تعلیمی حیثیت کو جو بے حدضروری ہے۔مسلمانوں
نے آزادی کے بعد سےتعلیمی شعبہ میں کوئی ایساخاص کارنامہ انجام نہیں دیاجس
سے وہ اپنی نسلوں کو تعلیم کے شعبہ میں کامیاب قرار دے سکیں،حالانکہ چند
ایک شعبوں میں مسلمانوں نے تعلیمی اعتبار سے کامیابی حاصل کی ہے،لیکن
آبادی کے تناسب اور اجداد کی صلاحیتوں کی بنیاد پر موازانہ کیاجائے تو یہ
سلسلہ ناکامی کی طرف ہی جاتاہے۔مسلمانوں کی تعلیمی ناکامیوں کی بات کا اگر
سب سے اہم نکتہ تلاش کیاجائےتو وہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے جس طرح سے
اپنےقائدین پراعتبارنہیں کیاتھا،اُسی طرح سے انہوں نے اپنے تعلیمی اداروں
اور درسگاہوں پر بھی اعتبارنہیں کیا۔چاہے وہ دینی درسگاہیں ہو ں یا پھر
عصری تعلیم مراکز،مسلمان اپنے تعلیمی اداروں سے ہمیشہ بدظن رہے ،انہوں نے
ان اداروں پراعتبارنہیں کیااورنہ ہی ان اداروں کو بڑھنے و پنپنے کاموقع
دیاہے۔مسلمانوں کی نگاہ میں ہمیشہ سے ہی غیر مسلم قیادت بااعتبار رہی ہے
اور ہمیشہ سےہی غیروں کے اداروں پر ان کا اعتماد ہواہے۔حالانکہ نہ سیاسی
طور پر غیر مسلمانوں کے ہوئے اورنہ ہی تعلیمی طو رپر غیروں کے ادارے
مسلمانوں کواچھی تعلیم دینے کیلئے اخلاص کےساتھ کام کرتے ہوئے دکھائی
دئیے،دونوں ہی جانب مفاد پرستی ہی دکھائی دی ہے۔بات اعلی گڑھ یونیورسٹی کی
ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہویاپھر گلی میں مسلمانوں کی طرف سے قائم کردہ
نرسری اسکول ہویا پھر پی یو یا ڈگری کالج۔ان پر مسلمانوں کا اعتبار کم ہی
رہتاہے،کیونکہ مسلمانوں میں یہ تصورہے کہ مسلم تعلیمی اداروں میں تعلیم
حاصل کرنے سے ان کے بچے آگے بڑھ نہیں سکتے،ان کے بچے ترقی کی راہوں پر
گامزن نہیں ہوسکتے۔یہی سوچ مسلمانوں کو ان کے تعلیمی اداروں سے بدظن کررہی
ہے،لیکن ہمارا ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو مسلمان اپنے بچوں کو عیسائی
مشنریوں،برہمنوں کی کالجوں میں ،لنگایتوں کی تعلیمی اداروں میں تعلیم
دلواچکے ہیں،اُن میں سے کتنے بچے آج ملک میں آئی اے ایس کرچکے ہیں؟،کتنے
بچے آج ملک کی قیادت میں کام کررہے ہیں؟،کتنے بچے ڈاکٹر ،فلاسفر،سائنسدان،ماہر
معاشیات،صحافی بن کر ابھرے ہیں؟۔اکثر نوجوان تو ان تمام شعبوں کی بنیادی
تعلیم حاصل کرکے روزی روٹی کی تلاش میں مہاجروں کی زندگی گذاررہے ہیں،ان
شناخت ان کی گلی میں پوچھی جائے تو تب بھی کوئی شناخت بتانے والانہیں
ہے،ہمیں ایسی گمنامی کی زندگی گذارانا پڑرہاہے۔وہیں مختلف قومیں اپنی نسلوں
کو اپنی ہی قوم کے ذریعے قائم شدہ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلواتی ہیں،جس
سے بنیاد سے ہی ان کی قوم کاجذبہ ان میں ابھرتاہے،ان کی قوم کی اہمیت،ان کی
قوم کی تعلیمی اداروں کو بڑھاوادینے کی سمت میں سوچ پیدا ہوتی ہے۔کرناٹک کے
لنگایت سماج کے تعلیمی اداروں کی ہی مثال لیں۔یہاں کے گوڈاسماج کے لوگوں کی
تعلیمی اداروں کی مثال لیں کہ کس طرح سے وہ باہمی تال میل سے اپنے تعلیمی
اداروں کو بڑھاوادے رہے ہیں،ان اونچی ذاتوں کو چھوڑئیے،محدود ایس سی ایس ٹی
اپنے تعلیمی اداروں کے فروغ کیلئے کیسے محنت کررہے ہیں،مگر ہم ہیں کہ اپنے
تعلیمی اداروں سے نااُمید ہیں،اپنے تعلیمی اداروں کوڈی گریڈ کرنا،اپنی قوم
کو ڈی گریڈ کرنا ہمارا شیوہ بن گیاہے۔
|