اِک بھیڑ سی لگی ہے کفن کی دکان پر ۔ ۔ ۔ ۔

ولیکا اسپتال سائٹ کاوہ منظر بڑا ہی دلخراش تھا،میاں گل اپنی پانچ سالہ اکلوتی بیٹی لائبہ کی لاش گود میں اٹھائے ہوئے مسلسل آنسو بہا رہا تھا،جب بچی کا کوئی عزیز خون آلود کپڑوں میں ملبوس بچی کی لاش کو لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھاتا تو وہ دیوانہ وار اُس کا ہاتھ جھٹک دیتا،دہشت گردوں کی اندھی گولی نے شادی کے سات سال بعد منتوں اور مرادوں سے پیدا ہونے والی ننھی منی لائبہ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سلادیا تھا،میاں گل کی دنیا لٹ چکی تھی،بچی کے موت کے صدمے نے اُسے دیوانہ کردیا تھا،ماں صدمے سے نڈھال سکتے کی حالت میں ایک کونے میں بے سدھ بیٹھی تھی،میاں گل کی آہ و بکا اور دل ہلادینے والی چیخوں نے اسپتال میں موجود لوگ اور اسٹاف کو افسردگی میں مبتلا کردیا تھا،ہر دل دکھی اورہر آنکھ اشکبار تھی۔

میاں گل قصبہ کالونی مسلم آباد میں پہاڑی پر قائم آبادی کے ایک مکان میں رہائش پزیر ہے،اُس کا گھرانہ تین افراد پر مشتمل تھا، بارہ برس قبل اُس کی شادی ہوئی تھی،میاں گل کو اولاد کی شدید خواہش تھی مگر شادی کے ابتدائی سات سالوں میں اُس کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی،اُس نے بہت علاج کروایا،بزرگوں کے مزارات پر حاضریاں دیں،نیازیں اورمرادیں مانگیں،منتیں رکھیں،بالآخر شادی کے سات سالوں کے بعد لائبہ کی شکل میں اُس کی مراد پوری ہوئی،لائبہ کے وجود نے میاں گل کے گھر کو خوشیوں اور قہقہوں سے بھردیا،لائبہ میاں گل اور اُس کی اہلیہ کی ہی نہیں پورے خاندان کی آنکھ کا تارا تھی،اپنی اکلوتی بیٹی کی ہر خواہش پوری کرنے کیلئے میاں گل دن رات محنت مزدوری کرتا،بچی جب بڑی ہوئی تو میاں گل نے اُسے اسکول کے علاوہ دینی تعلیم کیلئے گھر سے قریب ایک مدرسے میں بھی داخل کروادیا ۔

جہاں لائبہ اسکول سے فارغ ہونے کے بعد روزانہ جایا کرتی تھی،7جولائی کو لائبہ مدرسے سے پڑھنے کے بعد اپنی سہلییوں کے ساتھ سپارہ اٹھائے ہنستی مسکراتی گھر آرہی تھی،جب وہ اپنے گھر کے دروازے کے قریب پہنچی تو دہشت گردوں کی جانب سے چلائی گئی گولیاں اُس کے سینے اور بازو میں پیوست ہوگئیں، اُسے چیخنے کا بھی موقع نہ مل سکا،خون کا فوارہ بہہ نکلا،گولیوں کے جھٹکے سے ننھی منی لائبہ دیوار سے ٹکراکر زمین پر آگری،ہاتھ میں تھاما ہوا سپارہ چھوٹ کر دور جاگرا،یہ منظر دیکھ کر قریب میں موجود افراد نے اُس کے والد میاں گل کو اطلاع دی،اُس پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی،میاں بیوی بچی کو لے کر فوری طور پر قریب میں واقع ولیکا اسپتال پہنچے،مگر دیر ہوچکی تھی اورننھی لائبہ بھی چار دنوں میں دہشت گردوں کی گولیوں سے ہلاک ہونے والے سو سے زائدفراد میں شامل ہوچکی تھی ۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ 5جولائی سے 8جولائی تک کراچی میں لسانی بنیادوں پر جاری پرتشدد واقعات میں اکثریت ایسے لوگوں کی نشانہ بنی جن کا متعلقہ فریقین سے کوئی تعلق نہیں تھا،متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان اردو یونیورسٹی گلشن اقبال میں مسلح تصادم سے جنم لینی والی دہشت گردی کی لہر کراچی کے مختلف علاقوں پرانی سبزی منڈی،عیسیٰ نگری، اورنگی ٹاؤن،قصبہ کالونی،کٹی پہاڑی اور سرجانی تک پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اورنگی ٹاؤن سے پھوٹنے والے پرتشدد ہنگاموں نے کراچی غربی کے علاوہ شہر کے کئی علاقوں سمیت علی گڑھ کالونی،اسلامیہ کالونی،ہریانہ کالونی،مومن آباد،بنارس،نارتھ ناظم آباد،ناظم آباد،بلدیہ ٹاؤن،اولڈ سٹی ایریا،کھارادر،بھیم پورہ،سائٹ،حسن اسکوائر،نیوکراچی، سولجر بازار،ماڈل کالونی،شیرشاہ اور دیگر آبادیاں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا،یہ سلسلہ 8 جولائی کی شب تک جاری رہا،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو وسیع اختیارات دینے اوربڑی تعداد میں تعیناتی کے باوجوددہشت گرد پورے شہر میں دندناتے رہے،وہ مسافر بسوں اور ویگنوں پر فائرنگ کرتے رہے،گھروں کو آگ لگاتے رہے،مخالف آبادیوں کو راکٹوں اور دستی بموں سے بھی نشانہ بناتے رہے،شہر سنسان رہا،کاروباری مراکز بند رہے،پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہی،لوگ جان بچانے کیلئے نقل مکانی کرتے رہے ۔

لیکن حسب معمول قانون نافذ کرنے والے ادارے اور امن و امان قائم کرنے کے ذمہ دار سیکورٹی اہلکار یا تو غائب تھے یا پھربے بسی کی تصویر بنے قتل و غارت گری کے اِن واقعات پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے،کہیں بھی حکومت اور انتظامیہ کی رِٹ نظر ہی نہیں آئی،بے گناہ انسانوں کے خون سے شہر کے در و دیوار رنگین تھے،فضا سوگوار اور خوف و ہراس میں لپٹی ہوئی تھی، کراچی کا کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جو بدامنی اور انتشار پسند عناصر کی سفاکی کی لپیٹ میں نہ آیا ہو،لوگ اپنے پیاروں کی سلامتی کےلئے دعا گو اور فکرمند تھے مگر سیاسی قیادتوں کا حال یہ تھا کہ ایک دوسرے پر الزام دھرنے کے سوا انہیں کوئی کام نہیں تھا ۔

منگل کی شام سے لاقانونیت،قتل و غارت گری،ٹاگٹ کلنگ اور معصوم و بے گناہ شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا شروع ہونے والا سلسلہ جمعہ کی شب تک جاری رہا،اِن پر تشدد واقعات میں 100سے زائدافراد جاں بحق اور 200سے زائدزخمی ہوئے،جن میں خواتین،بچے،بوڑھے اور نوجوان سبھی شامل تھے،آج ملک کے سب سے بڑے معاشی شہر کراچی کاحال یہ ہے کہ کوئی بھی شہری خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا،دفاتر اور گھروں میں بھی کسی کی زندگی کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی جاسکتی،جبکہ سڑکوں اور بازاروں میں تو وحشت و بربریت رقص کرتی نظر آتی ہے،کوئی بھی انسان راہ چلتے اندھی گولی کا نشانہ بن سکتا ہے، لوگوں کا گھروں سے نکل کر بازاروں،دفاتر،تعلیمی اداروں اور دوسرے پبلک مقامات پر جانا خطرے سے خالی نہیں رہا،بدامنی اورانارکی کے باعث حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے،مایوسی اور بے بسی اپنی انتہا ءکو پہنچ چکی ہے،نہ صرف انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں بلکہ نجی اور سرکاری املاک بھی شرپسند عناصر کی جنونی کاروائیوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہے،لوگوں کا کاروبار تباہ ہو رہا ہے،سرمایہ کار تیزی سے اپنا سرمایہ سمیٹ رہا ہے اور کراچی کی بدامنی کے اثرات ملک کی معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں ۔

کراچی جل رہا ہے،یہاں سے اٹھنے والے آگ کے شعلے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتے نظر آئے،مگر ہمارے صوبائی و وفاقی حکمران چین کی بانسری بجاتے رہے،وزیر داخلہ صاحب دعویٰ کرتے رہے کہ اُن کے پاس سٹیلائٹ سے حاصل کی ہوئی تصویریں موجود ہیں جو اِس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ قاتلوں کے گروہوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے،مگر افسوس کہ وہی دھاک کے تین پاٹ،نہ قاتل پکڑے گئے اور نہ ہی اُن کے سرکاری سرپرست عوام کے سامنے لائے گئے،سینکڑوں بے گناہ بچے،بوڑھے اور جوان دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہے،جبکہ سیاسی جماعتیں ایکدوسرے پر الزامات لگاتی رہیں،ایکدوسرے کولتاڑتی رہیں اور خونزیزی کا ذمہ دار ٹھہراتی رہیں،اصل قصور وار کون ہے اورقتل و غارت گری کے پیچھے پس پردہ قوتیں کونسی ہیں،کون ہے جو کراچی کے امن کو تباہ کرکے پاکستان کی معیشت کو برباد کرنے کے بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کررہاہے ۔

انہیں بے نقاب کرنا تو حکومت کی ذمہ داری ہے،کراچی سمیت ملک کے تمام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور قیام امن کی ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے،مگر حکومت یہ ذمہ داری پوری کرنے میں نہ صرف ناکام ثابت ہوئی ہے،نہ ہی آج تک ہماری وزارت داخلہ کو یہ کہنے کی زحمت ہوئی کہ وہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے میں ناکام رہی ہے،نہ کسی کے ماتھے پر احساس ندامت ہے،نہ چہرے پر آثار شرمندگی،معافی مانگنا اور استعفیٰ دینا تو بہت دور کی بات ہے،بلکہ حکومت نے تو کراچی کے بے بس شہریوں کو موت برسانے والے عفریتوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیا ہے،شہر انسانی مقتل گاہ بن چکا ہے،آج کراچی کے شہریوں کو سیاسی اختلافات اور قومی و لسانی تعصبات کی وہ قیمت چکانی پڑی کہ سینکڑوں گھر ماتم کدہ بن چکے ہیں،

اِک بھیڑ سی لگی ہے کفن کی دکان پر
وحشتوں کے شہر میں ہے خون ارزاں بہت

قارئین محترم ۔ ۔ ۔! ایسا پہلی یا آخری بار تو نہیں ہوا،نہ جانے یہ سلسلہ کب تک چلے گا،کب تک بے رحم قاتل بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہیں،کب تک کراچی کے بے گناہ شہری لہوکا خراج ادا کرتے رہیں،موت کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے،کب تک میاں گل جیسے باپ لائبہ جیسے اپنے اکلوتے بچوں کا جنازہ اٹھاتے رہیں گے اور کب تک ہم خون آدم کو اِس قدر بے قدری سے بہانے والوں کے ہاتھ کاٹنے کا اختیار رکھنے کے باوجود خاموش تماشائی بنے رہیں ۔ ۔ ۔ ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357913 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More