ایم کیو ایم کے تحفظات کے باوجود
سندہ میں کمشنری نظام کی بحالی ....کیا اشارہ دے رہے ہیں....؟؟
ترجمان ایوانِ صدر فرحت اللہ بابر کے مطابق کراچی میں تیزی سے بگڑی ہوئی
صورت حال اور چار روز کے دوران پُر تشدد واقعات میں سو سے زائد افرا د کی
ہلاکت اور درجنوں افراد کے زخمی ہونے سے پیداہونے والے حالات واقعات پر غور
کرنے کے لئے صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت ایوان صدر اسلام آباد میں
ہونے والے اپنی نوعیت کے ایک اہم اجلاس میں صدر آصف علی زرداری نے حکومت
سندھ کو صوبے میں کمشنری نظام بحال کرنے کا حکم دے دیااور اِس کے ساتھ ہی
سندھ کابینہ میں ردوبدل کا بھی فیصلہ کیا گیاجبکہ اُنہوں نے اِ س موقع پر
اِس کا بھی اظہار کیا کہ اِس اجلاس میں ہونے والے فیصلو ں کی روشنی میں
وزیر ورکس اینڈ سروسز منظوروسان کو وزارتِ داخلہ کا قلمدان سونپے جانے اور
ڈاکٹر ذوالفقار مرزاکو ورکس اینڈ سروسز کا محکمہ دیئے جانے کابھی امکان ہے
اپنی نوعیت کے ہونے والے اِس اہم ترین اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک
،وزیر اعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ ،ذوالفقار مرزاسمیت پیر مظہر الحق نے بھی
خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کو شہر میں جاری چار روز سے خون خرابے
کو کنٹرول کرنے کا خیال جب آیا تب کراچی شہر کی گھمبیر ہوتی صورت حال کے
دوران شہر کراچی کو دہشت گردوں نے مکمل طور پر یرغمال بنالیاتھااور اِن
دہشت گردوں نے اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کے نتیجے میں سوسے زائد افراد کو
ہلاک اور درجنوں کو زخمی بھی کردیاتھا یوں شہرکراچی میں پیش آنے والے اِن
حالات واقعات کے بعد شورش زدہ علاقوں میں لوگوں کی جان ومال اور عزت
وآبروکی حفاظت اور شہرمیں ترجیحی بنیادوں پر دائمی امن وامان برقرار رکھنے
کے خاطراسلام آباد میں جو اجلاس صدرمملکت آصف علی زرداری کی زیر صدارت
منعقدہوا اور اِس اجلاس میں کراچی کے حالات پر فوری طورپر قابوپانے کے لئے
جتنے بھی اقدامات کئے گئے یقینا اِن کے کچھ نہ کچھ مثبت اثرات کراچی کی
بگڑی ہوئی صورت حالات کو سنبھالنے اور بہتر بنانے کے لئے جلد ہی نظرآئیں گے
۔
مگراس سے قطع نظر یہ کہ اِس اجلاس میں جہاں اوربہت سے اہم فیصلے کئے گئے وہ
اپنی جگہ کسی حد تک ضرورت درست ثابت ہوسکتے ہیں مگر اِس کے ساتھ ہی یہاں
ہمیں حکومت سے ذراسا اختلاف بھی ضرورہے اوروہ یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب
حکومت یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جب حکومتی
اتحادمیں شامل تھی یہ تب بھی سندھ میں ہمیشہ سے کمشنری نظام کی بحالی کے
حوالے سے اپنے شدید نوعیت کے تحفظات رکھتی تھی اور اِس نے ہر موقع پر ملک
کی دیگر صوبوں کی طرح سندھ (اور خصوصی طور پر شہرکراچی )میں کمشنری نظام کی
بحالی کی کھل کرمحالفت بھی کی تھی مگر اِس کے باوجود بھی یہ بات ہماری سمجھ
سے بالاتر ہے کہ ایک طرف حکومت سندھ کے حالات سُدھارنے کے لئے سندھ کی تمام
بڑی چھوٹی (بشمول ایم کیو ایم ) کے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اِن سے اپنے
اختلافات کے باوجود بھی ملک میں جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے خاطر اِنہیں
جمہوری طریقے سے اپنے ساتھ لے کر چلنے کی دعویدار ہے تو دوسری طرف یہ کیا
بات ہوئی کہ.....؟؟
گزشتہ دنوں کراچی کے حالات کے حوالے سے اسلام آباد میں صدر زرداری کی
زیرصدارت میں ہونے والے اجلاس میں صدر نے بنفسِ نفیس خود سندھ میں کمشنری
نظام کی بحالی کی منظوری دے دی ...اَب یہاںیہ سوال ضرورپیداہوتاہے کہ
اُنہوںنے دیدہ ودانستہ طور پر سندھ میں کمشنری نظام کی بحالی کا حکم کیوں
دیاہے .....؟جبکہ کیاوہ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ سندھ میں کمشنری نظام کی
بحالی کی سب سے بڑی مخالف جماعت ماضی کی اِن کے اتحادی ایم کیو ایم ہے جو
اَب تو حکومت سے علیحدگی اختیار کرجانے کے بعد کسی بھی طور پر سندھ میں
کمشنری نظام کی بحالی کے حوالے سے مفاہمت کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوگی جیسا
کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ارکان سندھ اسمبلی کے چار رکنی وفد نے
رضاہارون کی قیاد ت میں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جام مددعلی سے اِن کی
رہائشگاہ پر ملاقات جس میں اِس بات پر واضح اور دوٹوک الفاظ میں اتفاق
کیاگیاکہ سندھ کے اہم ایشوز پر ایم کیو ایم اورمسلم لیگ فنگشنل سندھ اسمبلی
میں مل کر آوازاٹھائیں گیااور کراچی میں کمشنری نظام کی مخالفت کریں گے۔
اِس منظر اور پس منظر میں ہماراخیال یہ ہے کہ حکومت اور خاص طور پر
صدرمملکت جناب محترم عزت مآب آصف علی زرداری کی زیرصدارت ایک اجلاس میں
سندھ میں کمشنری نظام کی بحالی کا فیصلہ ہونااور ساتھ ہی اِس پر فوری طورپر
عملدرآمد کرانے کا حکم جاری کیاجاناکیا صدر کا یہ حکم نامہ سندھ میں کسی
نئے سیاسی محاذ کو کھولے جانے کا کوئی ایساخاص اشارہ تو نہیں دے رہاہے جس
کی وجہ سے سندھ کے اربن علاقوں سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی جماعت متحدہ
قومی موومنٹ پر حکومت اپنا دباؤ بڑھاناچاہے گی جبکہ حکومت کو یہ یقین بھی
ہے کہ متحدہ اِس کی ہر سطح پر کھل کر مخالفت بھی کرے گی تو اِس سے سندھ کی
اِسموتھ سیاست میں ہلچل پیداہوگی اور حکومت یہ سمجھتی ہے کہ شائدجس کا
فائدہ حکمران جماعت کو ہی ہوگا۔
یہاں ہماراخیال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب گزشتہ دنوں شہرکراچی میں
ہونے والی دہشت گردوں کی قتل وغارت گری کی وارداتوں کے بعد بالخصوص حکومت
سمیت سندھ سے تعلق رکھنے والی باقی دو جماعتوں ایم کیو ایم اور اے این پی
بھی یہ بات تسلیم کرچکی ہے کہ شہرکراچی کو آگ اور خون میں نہلانے والے
کراچی کے مقامی افراد نہیں ہیں بلکہ وہ افراد ہیں جو کراچی میں باہر سے آکر
گزشتہ سالوںمیں اِن متاثرہ علاقوںمیں آباد ہوئے ہیں جس کا اظہار وفاقی
وزیرداخلہ رحمن ملک نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران دوٹوک الفاظ میں کچھ یوں
کیاہے کہ کراچی میں طالبان موجود ہیں اور کٹی پہاڑی پر اِن کی موجودگی کی
اطلاعات ملی ہیں اُنہوں نے ہی کراچی میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا
ہواہے اور اَب جن کے قلع قمع کے لئے سندھ انتظامیہ پولیس ، رینجرزاور ایف
سی کے بہادر نوجوانوں کے ساتھ اِن علاقوں میں آپریشن شروع کرنے کا ارادہ
رکھتی ہے تو اِس صورت حال میں یہ بات کسی بھی لحاظ سے ٹھیک معلوم نہیں دے
رہی ہے کہ حکومت سندھ میں کمشنری نظام کی بحالی کی بات کرکے ماضی کی اپنی
بڑی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو ناراض کرے بلکہ اَب تو اِن حالات
میں حکومت پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شہر کراچی کو دہشت
گردوں سے پاک کرانے کے لئے سندھ اور بالخصوص اربن علاقوں سے تعلق رکھنے
والی متحدہ سمیت تمام بڑی چھوٹی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لے
کر اُن متاثرہ علاقوں میں پولیس،رینجرزاور ایف سی کے جوانوں سے فوری طور پر
آیریشن کرائے اور اُن دہشت گردوں کا جلد ازجلد شہر سے خاتمہ کرے جنہوںنے
گزشتہ کئی دنوں ،ہفتوں ، ماہ اور سالوں سے شہر کراچی میں اپنی وحشیانہ دہشت
گردی کرکے قتل وغارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم کررکھاہے۔
اور اِسی کے ساتھ ہی ہم ایک بار پھر اپنے حاکم الوقت صدرمملکت آصف علی
زرداری سمیت سندھ سے تعلق رکھنے والے اہم حکومتی ارکین اور ذمہ داروں سے
بھی یہی کہیں گے کہ وہ اپنی حکومت کے باقی سال خیروعافیت سے گزار جائیں اور
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو منانے اور اِن کے ہر اُن تحفظات کا احترام
ضرور کریں جن کا اظہار یہ اُن کی اتحادی بن کر بھی کیاکرتی تھی یہاں ہم یہ
سمجھتے ہیں کہ جب اَب تک ملک کے دیگر صوبوں میں کمشنری نظام کی بحالی کے
باوجود سندھ اور خصوصاََ کراچی میں کمشنری نظام بحا ل نہیں کیاجاسکاتو
پھرحکومت کو اِس نظام کی بحالی کا خیال آب کیوں یکدم سے آگیاہے یہاں
ہماراحکومت کو مشورہ یہ ہے کہ کراچی کے حالات کو درست کرنے کے لئے کمشنری
نظام کے علاوہ بھی تو وہ نظام ہے جس سے ابھی تک شہرکراچی کا نظام چل رہاتھا
اِسے ہی ٹھیک کیا جائے اور بہتراور جدید تقاضوںسے ہم آہنگ کرکے فعال انداز
سے قابل استعمال بنایاجائے بہرحال ہماراحکومت کو یہ بھی کہناہے کہ اَب
چونکہ حکومت اپنی مدت کے پچھلے تین ، ساڑھے تین جو یہ جیسے تیسے گزار چکی
ہے اَب باقی کی مدت گزارنے کے لئے اِسے کوئی بھی کام ہرگز ایسا نہیں
کرناچاہئے جس سے صوبوں اور سارے ملک میں نفاق آرائی، فسادآرائی اور
محاذآرائی کے راستے نکلتے ہوں کیوں کہ یہ راستے کسی بھی لحاظ سے نہ تو ملک
کے لئے اور نہ حکومت اور عوام کے لئے اچھے نہیں ہوسکتے ہیں۔
نفاق آرائی کی باتیں کبھی اچھی نہیں ہوتیں
فسادآرائی کا جَادہ کبھی اچھا نہیں ہوتا
بھٹک جاتاہے انساں اسمیں اکثراپنی منزل سے
محاذآرائی کا رستہ کبھی اچھانہیں ہوتا |