اہلبیت کی تعظیم کے انعامات

 کتاب خطبات محرم میں لکھاہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں فرمایا یحیٰ ابن سعیدانصاری عبیدبن حنین سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت امام حسین ابن علی نے رضی اﷲ عنہما نے بیان کیا کہ میں حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کے پاس گیا۔ وہ منبرپر خطبہ دے رہے تھے ۔میں منبرپرچڑھ گیا اورکہا میرے باپ کے منبرسے اتریے اوراپنے باپ کے منبرپرجایئے ۔حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا میرے باپ کامنبرنہیں تھا اورمجھے اپنے پاس بٹھالیا میں اپنے پاس پڑی ہوئی کنکریوں سے کھیلتارہا ۔جب آپ منبرسے اترے تومجھے گھرلے گئے پھرمجھ سے فرمایا کتنااچھاہو اگر آپ کبھی کبھی تشریف لاتے رہیں۔ اورحضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں ان کے پاس گیا آپ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ سے تنہائی میں باتیں کررہے تھے اورعبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما دروازے پرکھڑے تھے۔ ابن عمرواپس ہوئے تومیں بھی ان کے ساتھ واپس ہوگیا۔بعد میں جب حضرت عمررضی اﷲ عنہ سے ملاقات ہوئی توانہوں نے فرمایا کیا بات ہے میں نے آپ کونہیں دیکھا ۔میں نے کہا امیرالمومنین میں آیاتھا آپ حضرت معاویہ سے گفتگوفرمارہے تھے تومیں عبداﷲ ابن عمرکے ساتھ واپس آ گیا ۔ فرمایا آپ ابن عمرسے زیادہ حق دارہیں ہمارے سروں کے بال اﷲ تعالیٰ نے آپ کی برکت سے اگائے ہیں۔ابوالفرح اصفہانی عبیداﷲ بن قواریری سے روایت کرتے ہیں کہ ہم سے روایت کرتے ہیں کہ ہم سے یحیٰ بن سعیدنے سعیدبن ابان قرشی سے روایت کی کہ حضرت عبداﷲ بن حسن رضی اﷲ عنہما حضرت عمربن عبدالعزیزرضی اﷲ عنہ کے پاس تشریف لے گئے ۔وہ نوعمرتھے اوران کی بڑی بڑی زلفیں تھیں۔ حضرت عمربن عبدالعزیزنے انہیں اونچی جگہ بٹھایا ان کی طرف متوجہ ہوئے اوران کی ضرورتیں پوری کیں ۔جب وہ تشریف لے گئے توحضرت عمربن عبدالعزیزکی قوم نے ان کی ملامت کی اورکہا کہ آپ نے ایک نوعمربچے کے ساتھ ایسا سلوک کیا ۔ انہوں نے فرمایا مجھ سے معتبرآدمی نے بیان کیا گویاکہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے سن رہاہوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ میری لخت جگرہیں ان کی خوشی کاسبب میری خوشی کاباعث ہے اورمیں جانتاہوں کہ اگرحضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ عنہا تشریف فرماہوتیں تومیں نے جوکچھ ان کے بیٹے کے ساتھ کیاہے اس سے ضرورخوش ہوتیں ۔شیخ اکبرسیدی محی الدین ابن عربی رضی اﷲ عنہ اپنی تصنیف ’’مسامرات الاخیار ‘‘ میں اپنی سند متصل سے حضرت عبداﷲ بن مبارک سے روایت کرتے ہیں کہ بعض متقدمین کو حج کی بڑی آرزوتھی۔انہوں نے فرمایا مجھے ایک سال بتایا گیا کہ حاجیوں کا ایک قافلہ بغدادشریف میں آیاہے۔ میں نے ان کے ساتھ حج کے لیے جانے کاارادہ کیا۔ پانچ سودینارلے کرمیں بازارکی طرف نکلا تاکہ حج کی ضروریات خرید لاؤں۔ میں ایک راستے پرجارہاتھا کہ ایک عورت میرے سامنے آئی۔ اس نے کہا اﷲ تعالیٰ تم پررحم فرمائے میں سیدزادی ہوں میری بچیوں کے لیے تن ڈھانپنے کاکپڑانہیں ہے۔ اورآج چوتھادن ہے کہ میں نے کچھ نہیں کھایاہے۔اس کی گفتگومیرے دل میں اترگئی۔ میں نے وہ پانچ سودیناراس کے دامن میں ڈال دیئے اوران سے کہا کہ آپ اپنے گھرجائیں اوران دیناروں سے اپنی ضروریات پوری کریں۔میں نے اﷲ تعالیٰ کاشکراداکیا کہ اس نے مجھ کوایک سیدزادی کی امدادکی توفیق عطافرمائی اورواپس آگیا۔میں کئی سال حج کرچکاتھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس بار حج پرجانے کاشوق میرے دل سے نکال دیا۔دوسرے لوگ چلے گئے حج کیا اورواپس چلے آئے۔میں نے سوچاکہ دوستوں سے ملاقات کرآؤں اورا نہیں مبارک بادپیش کردوں۔چنانچہ میں گیا جس دوست سے ملتااوراسے سلام کرتا اورکہتا اﷲ تعالیٰ تمہاراحج قبول فرمائے اورتمہاری کوشش کی بہترین جزا عطا فرمائے۔ تووہ مجھ سے کہتا کہ اﷲ تعالیٰ تمہارابھی حج قبول فرمائے ۔کئی دوستوں نے اسی طرح کہا۔جب رات کوسویا تونبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگ تمہیں حج کی جومبارک باد پیش کررہے ہیں اس پرتعجب نہ کرو ۔تم نے میری ایک کمزور اورضرورت مندبیٹی کی امدادکی تومیں نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی اس نے ہوبہو تجھ جیسا فرشتہ پیدا فرمایا جوہرسال تمہاری طرف سے حج کرتا رہے گا۔شیخ عدوی نے اپنی کتاب ’’ مشارق الانوار ‘‘ میں ابن جوزی کی تصنیف سے نقل کیاکہ بلخ میں ایک علوی قیام پذیر تھا۔ اس کی بیوی اورچندبیٹیاں تھیں۔قضائے الٰہی سے وہ شخص فوت ہوگیا۔ان کی بیوی کہتی ہیں میں شماتت اعداء کے خوف سے سمرقندچلی گئی۔ میں وہاں سخت سردی میں پہنچی ۔ میں نے اپنی بیٹیوں کومسجدمیں لے جاکربٹھادیا اورخود خوراک کی تلاش میں نکل پڑی۔ میں نے دیکھا کہ لوگ ایک شخص کے گردجمع ہیں۔ میں نے اس کے بارے دریافت کیاتولوگوں نے بتایا کہ یہ ریئس شہرہے میں اس کے پاس پہنچی اوراپناحال زاربیان کیا۔اس نے کہا اپنے علوی ہونے پرگواہ پیش کرو۔اس نے میری طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ میں مسجدکی طرف واپس چل پڑی ۔میں نے راستے میں بلندجگہ پرایک بوڑھابیٹھاہوادیکھا جس کے گردکچھ لوگ جمع تھے ۔میں نے پوچھایہ کون ہے لوگوں نے کہایہ محافظ شہرہے اورمجوسی ہے۔ میں نے سوچاممکن ہے اس سے کچھ فائدہ حاصل ہوجائے چنانچہ میں اس کے پاس پہنچی۔ اپنی سرگزشت بیان کی اوررئیس شہرکے ساتھ جوواقعہ پیش آیاتھا اسے بھی بیان کیااوراسے بتایا کہ میری بچیاں مسجدمیں ہیں۔ اوران کے کھانے پینے کے لیے کوئی چیزنہیں ہے۔اس نے اپنے غلام کوبلایا اورکہا اپنی مالکہ یعنی میری بیوی سے کہہ دو کہ وہ کپڑے پہن کرتیارہوکرآجائے چنانچہ وہ آگئی اوراس کے ساتھ چندکنیزیں بھی تھیں۔بوڑھے نے اپنی بیوی سے کہا اس عورت کے ساتھ فلاں مسجدمیں چلی جااوراس کی بیٹیوں کواپنے گھرلے آ۔وہ میرے ساتھ گئی اوربچیوں کواپنے گھر لے آئی۔ شیخ نے اپنے گھرمیں ہمارے لیے الگ رہائش گاہ مقررکی غسل کاانتظام کیاہمیں بہترین کپڑے پہنائے اورطرح طرح کے کھانے کھلائے۔جب آدھی رات ہوئی تورئیس شہرنے خواب دیکھا کہ قیامت قائم ہوگئی ہے اورلواء الحمد رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سرانورپرلہرارہاہے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس رئیس سے فرمایا ۔اس نے عرض کیا حضور! آپ مجھ سے اعراض فرمارہے ہیں حالانکہ میں مسلمان ہوں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے مسلمان ہونے پرگواہ پیش کرو۔ وہ شخص حیرت زدہ رہ گیا ۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تونے اس علوی عورت سے جوکچھ کہاتھا سے بھول گیا۔یہ محل جو تمہاری نگاہوں کے سامنے ہے یہ اس شیخ کاہے جس کے گھرمیں اس وقت عورت ہے۔رئیس بیدارہوا تورورہاتھا اپنے منہ پرطمانچے ماررہاتھا اس نے اپنے غلاموں کواس عورت کی تلاش میں بھیجا اورخود بھی تلاش میں نکلا ۔ اسے بتایاگیاوہ عورت مجوسی کے گھرمیں قیام پذیرہے۔یہ رئیس اس مجوسی کے پاس گیا اورکہا وہ علوی عورت کہاں ہے۔ اس نے کہا میرے گھرمیں ہے۔ رئیس نے کہا اسے میرے ساتھ بھیج دو۔ شیخ نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ۔رئیس نے کہامجھ سے یہ ہزاردینارلے لواوراسے میرے یہاں بھیج دو۔شیخ نے کہاخداکی قسم ایسانہیں ہوسکتا۔ اگرچہ تم لاکھ دیناربھی دو۔جب رئیس نے زیادہ اصرارکیاتوشیخ نے اس سے کہا جوخواب تم نے دیکھاہے وہ میں نے بھی دیکھاہے اورجومحل تم نے دیکھا ہے وہ واقعی میراہے۔تم اس لیے مجھ پرفخرکررہے ہو کہ تم مسلمان ہو۔ بخدا وہ علوی خاتون جیسے ہی ہمارے گھرآئیں ہم سب ان کے ہاتھ پرمسلمان ہوگئے ۔ان کی برکتیں ہمیں حاصل ہوچکی ہیں۔ مجھے خواب میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی توآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا چونکہ تم نے اس علوی خاتون کی تعظیم وتکریم کی ہے اس لیے یہ محل تمہارے لیے اورتمہارے گھروالوں کے لیے ہے اورتم جنتی ہو۔

اس تحریر میں لکھے گئے واقعات سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ آل رسول کی تعظیم اورمددکرنے پراﷲ تعالیٰ انعامات سے نوازتاہے۔ جیسا کہ آپ اس تحریرمیں پڑھ چکے ہیں کہ جوشخص حج پرجانے کے لیے ضروری سامان خریدنے کے لیے بازارگیا اس کوایک سیدزادی ملی اس نے اپنی حالت زاربیان کی تواس شخص نے اپنے ساتھ لائے ہوئے پانچ سودیناراس سیدزادی کودے دیئے اورحج پرجانے کاارادہ منسوخ کردیا۔ اس شخص کواﷲ تعالیٰ نے اس انعام سے نوازاکہ اس کی شکل کا ایک فرشتہ پیدافرمایا جوہرسال اس شخص کی طرف سے حج کیاکرے گا۔آپ اس تحریرمیں یہ بھی پڑھ چکے ہیں کہ علوی خاتون کی تعظیم اورمہمان نوازی کرنے کے انعام میں اﷲ تعالیٰ نے مجوسی کوایمان کی دولت سے نوازااوررسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسے جنت میں اس کااوراس کے گھروالوں کامحل دکھایا۔رئیس شہرجوخود کومسلمان کہتاتھا علوی خاتون سے علوی ہونے کاثبوت مانگنے پرنبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس مسلمان سے ناراض ہوگئے اوراس سے مسلمان ہونے کاثبوت مانگا۔ہم بھی آل رسول کی تعظیم کرکے دنیا وآخرت میں اﷲ تعالیٰ کے انعامات سے مستفیدہوسکتے ہیں۔
 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351422 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.