یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صرف وہی ممالک ترقی کی دوڑ میں
آگے ہیں جنہوں نے اپنی زبان کو زریعہ تعلیم بنایا ہے۔ فن لینڈ،ناروے، جرمنی،
روس،جاپان،چین سمیت کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ذریعہ اظہار کے لئے
اپنی زبان کو ترجیح دی۔برصغیر کی یہ بدقسمتی رہی کہ یہاں پر انگریزی زبان
کا غلبہ رہا حالانکہ یہاں پر فارسی بطور دفتری زبان رائج تھی۔1857 کے بعد
انگریز حکومت فارسی کے بجاے انگریزی نافذ کی اور یہ محاورہ بنا دیا۔
پڑھو فارسی بیچو تیل
لیکن اس کے باوجود ہندوستان میں عمومی طور پر اردو ہی پسند یدہ ترین زبان
کے درجے پر فائز رہی۔سلطنت دکن میں اردو سرکاری زبان کے طور پر رائج
رہی۔1833 میں جے پور کشن گڑھ ریاست کے حاکم راجہ رام سنگھ نے اردو کو
سرکاری زبان کا درجہ دہا۔1865میں ریاست ٹونک کے نواب محمد علی نے اپنی
ریاست میں اردو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کی۔1854میں لیہ ڈویژن میں اردو
کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل رہا 1857 کے بعد اگرچہ اردو کو برصغیر سے دیس
نکالا دینے کی کوشش کی گئی لیکن جس زبان میں غالب،میر،امیر مینائی،اور
اقبال جیسے عظیم شعرا نے شاعری کی ہو اس کو برصغیر سے کیسے ختم کیا جا سکتا
تھا اور استاد داغ دہلوی نیتو یہ بھی کہہ دیا تھا
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ۔
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔
سیاسی اتار چڑھاؤ کے باوجود اردو نے اپنی جڑیں مضبوط رکھیں۔رابطے کی واحد
زبان اردو رہی۔یہاں تک کہ تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کی ایک
مضبوط دلیل کے طور پر بھی اردو زبان پیش کی گئی۔1947میں قیام پاکستان کے
بعد قائد اعظم محمد علی جناح چٹاگانگ تشریف لے گئے جہاں آپ نے واضح طور پر
اعلان کیا اردو ہی پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی۔اتنے واضح اعلانات کے
باوجود ذہنی غلام افسر شاہی نے نفاذ اردو کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا
شروع کی۔لیکن اردو کا سفر جاری رہا۔2 دسمبر 1949 کو مجلس دفتری زبان پنجاب
کا قیام عمل میں لایا گیا اس کی ایک کمیٹی بنی جس کے سربراہ جسٹس ایس اے
رحمان تھے۔جنہوں نے اردو زبان کو بطور دفتری زبان نافذ کرنے کے لیے ٹھوس
اقدامات تجویز کیے۔جولائی 1950 مجلس مترجمین یعنی Bord of translation کا
قیام عمل میں لایا گیا۔ستمبر 1950 میں ایک مجلس استناد قائم کی گء۔جس میں
ڈاکٹر سید عبداﷲ،صوفی غلام مصطفی تبسم،سید وقار عظیم،اور جناب نذیر نیازی
جیسے اردو کے جید ماہرین بطور اراکین شامل تھے فروری 1951 میں تمام خطوط
اردو میں ٹائپ کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔مجلس دفتری زبان نے 1971 میں
گیارہ کتابیں شائع کیں جس میں دفتری اصلاحات کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ
کیا گیا۔1973 میں پاکستان کا متفقہ آئین منظور ہوا۔جس کی دفعہ 251 کی زیلی
شق 3 کے تحت اردو زبان بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کی ہدایات دی گئی۔اور اس
کے لئے سرکاری طور پر 15 سال کی مہلت دی گء۔یہ آئینی مدت 1988 میں پوری
ہوئی لیکن اس اہم ترین دستوری تقاضوں سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا جاتا
رہا۔1976 میں اردو لغت شائع ہوئی جس میں 35 ہزار اصطلاحات کا اردو میں
ترجمہ کیا گیا۔اور اس کے دوسرے ایڈیشن میں چار ہزار اصلاحات کا اضافہ بھی
کیا گیا۔جنرل محمد ضیا الحق کے دور میں 1979 میں مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ
قائم ہوا۔اسی عرصہ کے دوران جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن نے ایک رپورٹ مرتب کی
جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام عدالتی فیصلے بھی اردو زبان میں
تحریر کئے جائیں۔میری معلومات کے مطابق اس دور میں جسٹس پیر محمد کرم شاہ
الازہری نے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں اپنے تمام فیصلے اردو زبان
میں تحریر کیے۔1981 میں تمام دفاتر اور عدالتوں میں اردو زبان استعمال کرنے
کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔1984 میں تمام سرکاری خط و کتابت اردو زبان میں کرنے
کا حکم ہوا۔لیکن افسر شاہی نے اپنے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے
مندرجہ بالا تمام کوششیں ناکام بنا دیں۔ اور اردو زبان کو وہ مقام حاصل نہ
ہو سکا جس کی یہ حقدار تھی 8 ستمبر 2015 کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے
تحریری حکم میں حکومت پاکستان کو یہ عدالتی آرڈر جاری کیا کے دفتروں میں
اردو زبان کو رائج کیا جائے۔لیکن ابھی تک وہی ڈھاک کے تین پات۔مذکورہ بالا
حقائق کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک اردو کو قومی زبان کا
درجہ مل چکا ہوتا اور تمام دفتری اور سرکاری معاملات اسی زبان کے ذریعے
سرانجام پا رہے ہوتے،لیکن
اے بسا کہ آرزو خاک شدہ
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے دلیرانہ قدم اٹھاتے ہوئے 16ریاستوں میں مقامی
زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جنمیں تامل اور میرٹھی زبان بھی شامل
ہے۔
دیر ائد درست آید کے مصداق تحریک انصاف کی حکومت نے بھی کچھ اقدامات اٹھانے
کی ہمت کی۔اگرچہ عمران حکومت کے اقدامات کی کامیاب تکمیل ہمیشہ مشکوک رہتی
ہے۔کیونکہ ان کے پاس میاں شہباز شریف جیسا تجربہ کار اور منتظم موجود
نہیں۔تاہم اس کے باوجود موجودہ حکومت نے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جنکی
تحسین ضروری ہے۔۔پہلا قدم تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے یکساں نصاب تعلیم
رائج کرنے کا حکم دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے انتہائی جرات اور بہادری
سے یہ قدم اٹھایا ہے،اس اقدام کے نافذ کرنے میں کئی قوتیں ان کی راہ میں
روڑے اٹکا رہی ہیں لیکن جناب عمران خان اور وزیر تعلیم جناب شفقت محمود
عزمِ صمیم سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان احکامات پر عمل درآمد کرکے رہیں
گے،حکومت کے اس اقدام کی راہ میں بین الاقوامی طاقتیں بھی رکاوٹ بن سکتی
ہیں۔لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ عمل پایہ تکمیل تک ضرور پہنچے گا۔اگر ہم یکساں
نصاب تعلیم کے ذریعے اردو کو موقع دیں گے تو پاکستان میں بہتر سائنسدان
پیدا ہو سکتے ہیں،اگر سائنسی اصطلاحات کو اردو زبان میں پیش کر دیا جائے تو
کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان سے بھی نوبل پرائز یافتہ سائنسدان پیدا
ہوں؟پاکستانی سائنسدانوں کی ایجادات کی دنیا میں اپنا نام پیدا کریں،جاپان
چین اور جرمنی اس کی واضح مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی مقامی زبانوں میں
ترقی کی ہے اور سائنس کے میدان میں اپنا نام پیدا کیا ہے،حکومت کا دوسرا
قدم گرین پاکستان پروگرام کو ایک مہم کی شکل دینا ہے،طویل عرصے کے بعد پہلی
دفعہ پاکستان کے طول و عرض میں شجر کاری کا شعور پیدا ہو رہا ہے،سرکاری اور
غیر سرکاری ادارے درخت لگانے کی طرف متوجہ ہو رہے گی،جناب عمران خان کا یہ
اقدام قابل تحسین ہے،اس مہم کو کامیاب کرنے کے لیے متعلقہ محکموں کو بھی
اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،کہ وہ ایسے پودے لگانے کی سفارش کریں جو ہمارے
مقامی ماحول سے مطابقت رکھتے ہو،غیر ملکی پودوں کی کاشت سے حددرجہ اجتناب
کیا جائے اور مقامی درختوں کو جس میں بیر، نیم،شیشم،بوہڑ اور پیپل جیسے
درخت شامل ہیں ان کی کاشت میں اضافہ کیا جائے۔ان دو پروگراموں پر اگر ان کی
روح کے مطابق عمل ہو گیا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان ترقی
یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
|