آج ٢٠ محرم الحرام، #حضرت_سیدنا_بلال_حبشی_رضی_اللہ_تعالی_عنہ
کا یوم عرس ہے...
قسمت مجھے مل جائے بلال حبشی کی
دَم عشق محمد میں نکل جائے تو اچھا
کافور نہ ہو میرے کفن اور بدن میں
حضور کا پسینہ ہی مل جائے تو اچھا
حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ تمام مُؤَذِّنِیْن کے سردار بھی ہیں اور
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خزانچی بھی۔۔۔
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد حضرت سیدنا بلال
حبشی رضی اللہ تعالی عنہ جب حضور سے جدائی کے غم میں مدینہ طیبہ سے ہجرت
فرما کر ملک شام تشریف لائے تو ایک رات خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اے بلال! یہ کیسی بے وفائی ہے، کیا ابھی
وہ وقت نہ آیا کہ تم میری زیارت کے لئے مدینے آؤ؟ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ
تعالی عنہ جونہی بیدار ہوئے فوراً مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ جب
مدینہ طیبہ کی نورانی اور پُر کیف فضاؤں میں داخل ہوئے تو بےتابانہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پُرانوار پر حاضر ہوئے،آنکھوں سے آنسوؤں
کا تار بندھ گیا اور اپنا چہرہ مزار پاک کی مبارک خاک پر مَس کرنے لگے،
حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی وہاں تشریف آوری ہوئی تو حضرت سیدنا
بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں شہزادوں کو گَلے لگا لیا اور پیار کرنے
لگے۔ شہزادوں نے فرمائش کی: اے بلال! ہم آپ کی وہی اذان سننے کے خواہش مند
ہیں جو صبح کے وقت نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں دیا کرتے
تھے۔
حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ مسجد نبوی شریف کی چھت پر اس حصے میں
تشریف لے گئے جہاں وہ حضور کی حیاتِ ظاہری میں اذان دیا کرتے تھے۔ جب حضرت
سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے "اللہ اکبر اللہ اکبر سے اذان کا آغاز
فرمایا تو مدینہ طیبہ میں لوگ بے تاب ہو گئے، جب "اشھدان لا الہ الا اللہ"
کے کلمات کہے تو لوگوں کی بے تابی اس قدر بڑھ گئی کہ ہر طرف آہ و بُکا شروع
ہوگیا، پھر جب "اشھدان محمدا رسول اللہ" پر پہنچے تو لوگ اپنے آپ سے بیگانہ
ہو گئے، ایک دوسرے سے پوچھنے لگے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزار
پُرانوار سے باہر تشریف لے آئے ہیں؟
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد اہل مدینہ
میں کبھی اتنی زیادہ آہ و زاری نہ ہوئی تھی جتنی اس دن دیکھنے میں آئی۔
یوں تو تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اپنا اپنا ایک خاص مقام ہے مگر ان
مقدس ہستیوں میں حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو خاص مقام و
مرتبہ حاصل ہے۔ دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے
لیے تیار تھے۔ آپ کی زندگی کا مقصدِ اصلی یہی تھا، آپ نے اپنے کردار سے
رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو یہ بتا دیا کہ ایک مسلمان کو دینِ اسلام اور
اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیسی محبت ہونی چاہیے۔
لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی طرح اپنے ایمان پر مضبوطی سے
قائم رہنے والے بن جائیں۔ دعا ہے کہ ہمیں بھی اپنے ایمان کی حفاظت کی حقیقی
معنوں میں فکر نصیب ہو آمین
✒️ محمد ثوبان انتالوی فیضی
٢٩۔ اگست ٢٠٢١ بروز اتوار
|