کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم
رہا ہے
بی بی سی کے تحت بننے والی اینڈی ڈی ایمونی (Andy De Emmony ) کی تازہ ترین
فلم West is West میں پاکستان کے علاقائی گلوکار سائیں ظہور کو عالم
وارفتگی میں ایک ٹرک کے اوپر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہاتھ میں اکتارہ تھامے
بیٹھا دیکھا گیا۔ ٹرک اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور سائیں ظہور ایک
شادی کی برات کے لیے گارہا ہے۔ West is West ، ۹۹۹۱ میں منظر عام پر آنے
والی فلم East is East کا دوسرا حصہ ہے۔ دونوں فلموں کے مرکزی کردار ( اصلا
برطانوی و ہندوستانی) ان کی ریلیز کے طویل درمیانی وقفے کے باوجود تقریبا
ایک جیسے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والا جہانگیر خان جو
ساٹھ کی دہائی میں روزی کمانے انگلستان پہنچا تھا اور ایک انگریز خاتون
(Linda Bassettاداکار ) سے شادی کرکے وہیں بس گیا تھا۔، ۶۷۹۱ (انیس سو
چھیتر) میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ہمراہ اپنے وطن اپنی پہلی بیوی سے ملاقات کی
غرض سے پہنچا۔اس درمیان ۰۳ (تیس) برس کا وقفہ بیت چلا تھا۔
|
ویسٹ از ویسٹ۔۱۱۰۲ |
مانچسٹر میں جہانگیر، جارج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو اپنے
رسم و رواج اور اپنی جڑوں سے ازسرنو وابستگی و آگاہی کی غرض سے پنجاب لایا
ہے۔ لیکن اس کو وہاں مختلف نوعیت کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جارج کا
کردا ر ہم سب کے پسندیدہ اداکار اوم پوری نے کیا ہے جبکہ ان کی پہلی بیوی
کے کردار میں ایلا ارون نظر آئی ہیں۔دونوں فلمیں بیحد دلچسپ ہیں اور ۰۶ (ساٹھ)
اور ۰۷ (ستر) کی دہائی میں پاکستان سے انگلستان جا بسنے والوں کے مسائل کی
خوبصورت اور پراثر انداز میں عکاسی کرتی ہیں!
یہاں ذکر سائیں ظہور کا ہے جس کے مقد ر میں پاکستان کے مختلف صوفی بزرگوں
کے مزارات پر ہاتھ میں اکتارہ تھامے، گانا لکھ دیا گیا تھا۔ سائیں ظہور نے
پہلا گانا پانچ برس کی عمر میں گایا ۔۔ تیرہ برس کی عمر میں اپنا گھر چھوڑا
اور سندھ، پنجاب اور آزاد کشمیر کے مختلف صوفیوں کے مزارات کی خاک چھانی۔
گزر بسر کا انحصار گائیکی پر ہی رہا ۔ یوں بھی درویشوں کی ضرورت زیادہ کچھ
ہوتی ہی کیا ہے۔۔۔ غالب اس دور میں ہوتے تو
“اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے “ پکارنے کی حاجت بھی نہ رہ جاتی کہ وطن
عزیز میں ان مزارات پر لذت کام و دہن کے ساتھ ساتھ بیخودی طاری کرنے والے
جملہ “ ہتھیار “ وافر مقدار میں دستیاب ہوتے ہیں!
اسی خاک نوردی کے دوران سائیں ظہور کی ملاقات پٹیالہ گھرانے کے استاد سائیں
رونکا سے ہوئی جن سے انہوں نے رموز موسیقی کی تربیت ہائی۔ جنوبی پنجاب کے
شہر اوچ شریف کے دیگر صوفی موسیقاروں سے بھی فیض یاب ہوتے رہے۔
گلے میں مالا اور کسی ہوئی سیاہ رنگ کی پگڑی، یہ سائیں ظہور کی پہچان بن
گئے!
|
سائیں ظہور ۔دوران گائیکی |
سن ۰۴۹۱ (انیس سو چالیس) میں اوکاڑہ میں پیدا ہونے والے سائیں ظہور ۶۰۰۲ (دو
ہزار چھ) تک مغربی دنیا کے لیے ایک گمنام شخص تھے کہ اچانک انہیں بی بی سی
کی سال ۶۰۰۲ (دو ہزار چھ) کی بہترین آواز کے طور پر نامزد کیا گیا اور
صوفیانہ موسیقی سے دلچسپی رکھنے والوں میں وہ راتوں رات مقبول ہوگئے۔
پاکستان کے “ کوک اسٹوڈیو“ نے انہیں اپنے پروگرام میں گوایا اور تونمبا
نامی گیت میں ان کی سیدھی سادھی مگر بلا کا تاثر رکھنے والی ان کی آواز
سامعین کے دلوں میں اتر گئی۔ تاحال، سائیں ظہور ہندوستان، آئر لینڈ، جاپان
اور انگلستان میں اپنی آواز کا جادو جگا چکے ہیں جبکہ ۷۰۰۲ (دو ہزار سات)
میں انہوں نے پاکستانی فلم خداکے لیے کی موسیقی ترتیب دینے میں معاونت کی
تھی۔
جو قارئین سائیں ظہور کے شہرہ آفاق گیت تونمبا سے ناواقف ہیں، ان کے لیے اس
گیت تک رسائی کا یہ لنک حاضر ہے:
https://beemp3.com/download.php?file=9027787&song=Toomba+-+Saieen+Zahoor
سائیں ظہور کی آواز کو مغربی نقادوںنے جادوئی آواز کا خطاب دیا۔ کہا جاتا
ہے کہ یہ وہ آواز ہے جو آپ کو وجد میں لے آتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خان صاحب
نصرت فتح علی خان کی صحیح قدر بھی انہی لوگوں نے کی تھی۔ بی بی سی کے ایوان
کرسلے نے اپنے تبصرے میں سائیں ظہور کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے:
“Sain Zahoor now tours the world, often accompanied by harmonium and
dholak
drum side-players, wreaking the same blissful havoc on devotees and
newcomers alike. His piercing chiselled features are a regular sight on
Pakistani TV and he has been the subject of at least one documentary.
Fans of the Sufiana kalams claim that seeing and hearing Sain Zahoor in
full
flow is the closest anyone alive will get to being in the presence of
the
the Sufi mystics of yore, like Bulle Shah and Shah Hussain. It's a
musical
spell that is well nigh universally effective.” |