اگر کسی شخص کے ہاتھ میں سونے کا
قلم اور چاندی کی سیاہی دے دی جائے اور اس سے کہا جائے کہ کلامِ اقبال کے
مقابلے کی شاعری اور شیکسپیئر کے طرز کے ڈرامے لکھنا شروع کر دو تو کیا وہ
ایسا کر سکے گا؟ اس کے برعکس آپ علامہ اقبال کو ایک معمولی قلم اور درخت کی
چھال دے دیجئے اور دیکھئے وہ اس پر کتنا موثر کلام تحریر کرتے ہیں! ٹھیک
اِسی طرح اگر آپ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے زوال کا رونا پیٹنے والوں کے
ہاتھ میں سرمایہ، مہنگے کیمرے اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کر دیں، تو کیا
لاابالیوں کو یہ ٹولہ معیاری فلم سازی کی بنیاد ڈال سکے گا؟ یقیناً نہیں!
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری عرصہ دراز سے زوال کا
شکار ہے اور گنتی کی چند فلموں کے سوا پاکستانی سینما کا کینوس فلاپ فلموں
سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ مشہور فنکار شان کے والد محترم ریاض شاہد کی فلم
’زرقہ‘ (جسے پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم ہونے کا اعزاز حاصل ہے) اور
شعیب منصور کی ’خدا کے لئے‘ کے علاوہ شاید ہی کوئی فلم ایسی ہے جسے عالمی
سطح پر کامیاب فلم کے لقب سے نوازا گیا ہو، اور جس نے اپنی حیثیت کو منوایا
ہو۔ تقسیمِ ہند کے بعد سے اب تک نہ صرف یہ کہ پاکستان میں سالانہ ریلیز
ہونے والی فلموں میں مسلسل کمی آ رہی ہے، بلکہ جو فلمیں ریلیز ہو بھی رہی
ہیں وہ اس قابل نہیں کہ انہیں فلم کہا جائے۔ اس وقت پاکستانی سینما کا حال
آئی سی یو میں پڑے اس مریض کا جیسا ہے جسے آکسیجن کی فراہمی روک دی گئی ہو۔
اس وقت سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کیوں زوال کا شکار ہے،
بلکہ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس یتیم، لاوارث اور خستہ حال فلم انڈسٹری
میں یہ چند فلمیں کامیاب کیسے ہو گئیں اور کون سے ایسے عوامل تھے جو فلم
’زرقہ‘ ، ’خدا کے لئے‘ یا اس جیسی چند فلموں کی کامیابی کا باعث بنے۔ کیا
وہ ٹیکنالوجی، جدید کیمرے، ایڈیٹنگ مشینیں اور ہدایت کار تھے یا پھر کوئی
ایسی چیز جسے پہچاننے سے ہمارے معاشرے کی فکری قیادت اب بھی قاصر ہے؟
فلم ’زرقہ‘ معروف فلمی اداکار و ہدایت کار شان کے والدِ محترم ریاض شاہد
نے17 اکتوبر1969ءکو ریلیز کی۔ نہ صرف یہ کہ فلم زرقہ نے آٹھ نگار ایوارڈز
حاصل کئے، بلکہ ’زرقہ‘ کو پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم بننے کا اعزاز
بھی حاصل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فلم مسلسل ساٹھ ہفتوں تک پاکستان کے
سینما میں دکھائی گئی۔ ریاض شاہد یا شیخ ریاض کے متعلق یہاں اس بات کا
تذکرہ ضروری ہے کہ فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے سے قبل شیخ ریاض ایک صحافی کی
حیثیت سے اخبار ’چٹان‘ اور فیض احمد فیض کے اخبار ’لیل و نہار‘ سے وابستہ
رہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ فلم ’زرقہ‘ کی کہانی فلسطین اور اسرائیل تنازعہ
کے گرد گھومتی ہے، حتیٰ کے فلم کا نام ’زرقہ‘ بھی اردن میں سب سے پرانے
فلسطینی مہاجرین کیمپ سے منسوب ہے۔ ریاض شاہد اس فلم کی کامیابی اور
پذیرائی سے جذباتی طور پر اس قدر منسلک تھے کہ انہوں نے اپنی پہلی بیٹی کا
اسمِ گرامی اس فلم کے نام سے مستعار لیا۔ جو قارئین اس فلم کی گہرائی اور
جذباتی اپیل کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، وہ اس فلم کو یوٹیوب پر بھی دیکھ
سکتے ہیں: https://www.youtube.com/watch?v=C5ljLdfIiRw۔
جہاں تک ہدایت کار شعیب منصور کی فلم ’خدا کے لئے‘ کا تعلق ہے، تو ناقدین
نے اس فلم کو پاکستانی سینما کی تجدید قرار دیا ۔ ’خدا کے لئے‘ چار صدیوں
بعد بھارت میں ریلیز ہونے والی پہلی پاکستانی فلم تھی، جسے مصر کے قاہرہ
فلم فیسٹول میں سلور پرامڈ ایوارڈ سمیت چار عالمی ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔
خدا کے لئے پاکستانی فلموں میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی دوسری بڑی فلم
ہے۔ ممکن ہے قارئین میں سے کافی لوگوں نے یہ فلم نہ دیکھی ہو، اس لئے اس
فلم کی کہانی کا مختصر تذکرہ کر دینا ضروری ہے۔ اس فلم کی کہانی بھی اسلام
ہی کے گرد گھومتی ہے جہاں فلم کے تین مختلف کردار اسلام کی تین مختلف
تشریحات کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں، اور فلم میں یہ باور کرانے کی
کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام کے نام پر کس طرح لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دی
جاتی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ اس فلم میں بھی نظریاتی طور پر ایک بہت واضح
پیغام موجود تھا، قطع نظر اس کے کہ وہ پیغام درست تھا یا غلط۔۔
ان تمام باتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد مدعا یہ ہے کہ بقول ایک امریکی فلم ساز
کے” فیچر فلم ۰۹منٹ میں وہ کام کر دکھاتی ہے جو سیکڑوں کتابیں ۰۹ سالوں میں
بھی نہیں کر پاتیں۔“ اور جس طرح اقبال کے کلام اور عبارات کا اثر دیگر
سیکڑوں افراد کی ان گنت تحریروں سے زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح فلم انڈسٹری میں
اور تہذیبی جہت کے گرد بنائے گئے پلاٹ کی قبولیت اور پذیرائی اُن فلموں سے
کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو اس جز کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ چونکہ پاکستان
کی فلم انڈسٹری کو یہ غذا میسر نہیں ہے اور کوئی بھی سنجیدہ طبقہ فلم
انڈسٹری کی تہذیبی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کے لئے تیار نہیں ہے، اس
لئے یہ مسلسل زوال کا شکار ہے اور اُس وقت تک رہے گی جب تک یہ مسئلہ حل
نہیں کیا جاتا۔
بلاشبہ میڈیا کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ماضی میں کئی ایسے اقدامات کئے گئے
ہیں جن سے پاکستان کے نیوز میڈیا اور اب جدید ترین سوشل میڈیا میں منظم اور
موثر کام سرانجام دیا جا رہاہے، تاہم فلم اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں ایسا
ایک خلاء موجود رہا ہے جس کا مکمل کرنا ملکی اساس کو مستحکم کرنے کے لئے
ضروری ہے۔سوال یہ ہے کہ اس خلاء کو کون پُر کرے گا، اس سوال کا جواب
ڈھونڈنا ابھی باقی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی سینما کو بچانے کی
کوششیں جاری ہیں، کیوں نہ ان بنیادوں پر کام کرتے ہوئے اس شعبے کو تعلیم
اور تربیت کے لئے استعمال کیا جائے۔
جس طرح چند دہائیوں پہلے تک پاکستان کی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نامقبول
باتیں آج مقبول بنائی گئی ہیں اسی طرح تفریح کے نام پر موجود خرابے کو
برداشت کرنے کے بجائے یہاں بھی معیاری چیزیں مقبول عام بنائی جاسکتی
ہیں۔پاکستانی انڈسٹری ماضی میں یہ کام کرچکی ہے اب بھی اگر ان بنیادوں پر
کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ حل سامنے نہ آئے۔بس ضرورت منظم انداز میں
کام کرنے کی ہے۔ |