خبر کی عمر بھی جوانی کی طرح مختصر ہوتی ہے۔ وقت گزر جائے
تو شباب کی طرح خبر بھی مرجاتی ہے اسی لیے بری خبروں کو ٹالا جاتا ہے تاکہ
عارضی طور ان کی جانب سے توجہ ہٹاکرانہیں بے اثر کردیا جائے۔ افغانستان کی
خبروں کا یہی استعمال ہورہا مگر اس کےبا وجود طالبان کی آمد سے جمہوریت ،
احتجاج کا حق اور خواتین کا تحفظ جیسے موضوعات بڑے پیمانے پر زیر بحث آگئے
ہیں۔ وطن عزیز میں جہاں سیکولر جمہوریت پھل پھول رہی ہے ان موضوعات پر
عوامی رحجانات قابلِ توجہ ہیں۔ انڈیا ٹوڈے کے موڈ آف نیشن سروے میں اس
حوالے سے بھی کئی سوالات کیے گئے اس لیے خود اپنے ملک میں ان کی حالت کا
جائزہ لینا چاہیے۔ آزادی کی بابت ایک حیران کن انکشاف یہ ہے کہ ملک کے 61؍
فیصد لوگ دو سے زائد بچوں کے والدین کو ملازمت اور دیگر سرکاری مراعات کے
ساتھ ساتھ ووٹ دینے حق سے بھی محروم کردینا چاہتے ہیں یعنی اگرمستقبل میں
اس بنیاد پر لوگوں سے رائے دہندگی کا حق چھین لیا جائے تو انہیں کوئی
اعتراض نہیں ہوگا۔ یہ عدم رواداری کی بدترین شکل ہے اور آزادی پر زبردست
قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب چین نے دو بچوں سے آگے بڑھ
کر تین بچوں کے لیے مراعات دینے کا اعلان کیا ہے اور ساری دنیا میں یہی
رحجان پروان چڑھ رہا ہے تو ہمارا پہیہ الٹی سمت گھومنے لگا ہے۔
موڈ آف نیشن کے مطابق دنیا کی وسیع ترین جمہوریت میں 42 فیصد لوگ پہلے بھی
ایسے تھے کہ جنھیں اپنی منتخبہ حکومت سے ہی جمہوری نظام کو لاحق خطرے کا
اعتراف تھا اب اس میں معمولی اضافہ ہوا ہے اور 45 فیصد لوگ یہ خطرہ محسوس
کرنے لگے ہیں۔ احتجاج کی بابت نصف سے زیادہ یعنی 51 فیصد لوگوں کو مظاہرے
کے نتیجے میں گرفتاری کا خوف ستاتا ہے۔ وطن عزیز میں خواتین کے تحفظ کی
بابت بھی اچھی خبر نہیں ہے۔ جنوری کے اندر صرف 45 فیصد لوگوں کو ایسا لگتا
تھا کہ ملک میں خواتین محفوظ و مامون ہیں یعنی 55 فیصد کے اندر عدم تحفظ کا
احساس تھا ۔ اب خودکو محفوظ سمجھنے والی خواتین کی تعداد گھٹ کر 38 فیصد پر
آگئی ہے اس کا مطلب ہے 62 فیصد اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں ۔ کیا یہ
تشویشناک صورتحال نہیں ہے؟
معیشت کی بابت عوام میں شدید مایوسی کی کیفیت ہے۔ اس میدان میں بہتری کی
امید رکھنے والوں کی تعداد 7؍ ماہ کے عرصے میں 41 فیصد سے گھٹ کر 21 فیصد
پر آگئی یعنی زیادہ سے زیادہ لوگ اس حکومت کی نااہلی کا اعتراف کرنے لگے
ہیں ۔ امسال جنوری میں 36 فیصد لوگ یہ کہہ رہے تھے ان کی دگرگوں معاشی حالت
میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی لیکن اب 43 فیصد لوگوں پر یہ انکشاف ہوچکا ہے
اور وہ بہتری کی امید چھوڑ چکے ہیں جبکہ پہلے جو 17 فیصد یہ کہہ رہے تھے کہ
حالات مزید بگڑیں گے ان میں اچھا خاصہ اضافہ ہوا ہے اور وہ تعداد اب 32
فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ جنوری کے اندر جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا افراطِ
زر کو قابو میں رکھنے کی خاطر حکومت نےخاطر خواہ محنت کی تو 55 فیصد لوگ اس
خوش فہمی کا شکار تھے کہ ہاں وہ جو کچھ کرسکتی تھی اس نے کیا مگر اب ایسے
لوگوں کی تعداد میں 20فیصد کی زبردست کمی واقع ہوئی اور وہ 35 فیصد پر آکر
ٹک گئی۔ اس کے ساتھ ابتداء میں جن 35 فیصد لوگوں نے اپنی ناراضی کا اظہار
کرتے ہوئے کہا تھا سرکار کی کوشش کافی و شافی نہیں ہے اب ایسے لوگوں کی
تعداد بڑھ کر 60 فیصد پر پہنچ گئی ہے ۔ یہ تشویشناک اعدادو شمار ہیں جس کو
دیکھ کر کسی بھی ذمہ دار حکومت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں مگر مودی سرکار
کا یہ حال ہے کہ ؎
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
کورونا تو خیر آسمانی آفت ہے اس لیے 69 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ وباء کے
سبب ان کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی نیز 17 فیصد لوگوں کو لگتا ہےکہ وہ
کورونا کی وجہ سے بیروزگار ہوئے ہیں مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ 46 فیصد عوام
یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ این ڈی اے سرکار کی بیشتر معاشی پالیسی کا فائدہ
صرف بڑے تاجروں کو ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ پہلے جو راز خواص تک محدود
تھا وہ اب عام ہوتا جارہا ہے اس میں حزب اختلاف کے لیے خوشخبری ہے۔ چونکانے
والی بات یہ بھی ہے کہ تقریباً 29 فیصد لوگ مہنگائی اور افراط زر کو این ڈی
اے حکومت کی سب سے بڑی ناکامی مانتے ہیں نیز تقریباً 23 فیصد بے روزگاری کو
حکومت کی دوسری اہم ترین ناکامی گردانتے ہیں ۔ ایک عام باشندے کے لیے
مہنگائی میں مسلسل اضافہ اس لیے پریشانی کا سبب ہے کیونکہ پٹرول اور ڈیزل
کے ساتھ اشیائے خوردنی کی قیمتیں بھی آسمان چھو رہی ہیں۔
ایک طرف مرکزی حکومت ان بنیادی مسائل کے تئیں کمال بے حسی کا مظاہرہ کررہی
ہے اور دوسری جانب بی جے پی کے صوبائی رہنما بے انتہا غیر سنجیدگی کے ساتھ
عوام کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کررہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال مدھیہ پردیش
کے کٹنی ضلع میں بی جے پی صدر رام رتن پایل کا حیران کن بیان ہے۔ موصوف سے
ایک پریس کانفرنس میں جب پٹرول اور ڈیزل کی لگاتار بڑھتی قیمتوں سے متعلق
سوال کیا گیا تو انہوں نے سائل کو افغانستان چلے جانے کا مشورہ دے دیا ۔
ایک صحافی نے ایندھن کی بابت استفسار کیا تو وہ بولے ’’طالبان چلے جاؤ،
وہاں جا کر دیکھ لو۔ پٹرول 50 روپے ہے وہاں۔ وہاں سے بھروا کے لاؤ۔ وہاں
بھروانے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘ اس کے جواب میں جب ایک نامہ نگار نے کہا کہ
’’میں اپنے ملک کی بات کر رہا ہوں۔ مہنگائی عروج پر ہے۔‘‘ تو رام رتن پایل
نے حقارت سے دھتکار دیا کہ ’’تو طالبان چلے جاؤ، یہاں کیوں ہو؟‘‘
بی جے پی کی چھن چھن بجنے والی اس پایل کو غالباً اپنی بات دوہرانے کے بعد
غلطی کا احساس ہوگیا اس لئے وہ بات بنانے کے لیے بولے ’’ملک میں کورونا کی
دو لہریں آ چکی ہیں، تیسری لہر آنے والی ہے۔ ملک جس حالت سے گزر رہا ہے
اس کا ذرا بھی احساس ہے آپ کو؟ تمہیں پٹرول، ڈیزل کی پڑی ہے۔‘‘ بی جے پی
رہنما رام رتن نے کورونا کی تیسری لہر کے بہانے اپنی جان بچانے کی کوشش تو
کی مگر وہ آس پاس موجود حامیوں سمیت خود بھی ماسک سے بے نیاز تھے۔ اس سے
پتہ چلتا ہے کہ کورونا تو بہانہ ہے ۔ مہنگائی کی جانب سے توجہ ہٹانا اصل
نشانہ ہے ۔ اسی لیے کٹنی کو افغانستان تک سے جوڑا جا رہا ہے۔ مہنگائی کو
افغانستان سے جوڑنا فرقہ وارا نہ منافرت پھیلانے کا عملی نمونہ ہے۔
ان تمام اعدادو شمار کی روشنی میں وزیر اعظم کی غیر مقبولیت کے اسباب کھل
کر سامنے آجاتے ہیں ۔ اس سے مودی بھگتوں کی نیند اڑی ہوئی ہے اس لیے ہر
کوئی اپنے رہنما کی شبیہ سدھارنے کی خاطر دامے، درمے، سخنے، قدمے کچھ نہ
کچھ کررہا ہے۔ مہاراشٹر کے پونے شہر میں میور منڈے نامی ایک بی جے پی کارکن
نے وزیر اعظم کے تئیں اظہار عقیدت کے لیے اوندھ علاقے میں ایک مودی مندر
بناڈالا اور اس کے اندر موصوف کا مجسمہ بھی نصب کردیا۔ اس مودی بھگت کا
کہنا ہے کہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کا پیروکار ہوں اور ان کی عبادت کرتا
ہوں نیز آشیرواد لیتا ہوں (نعوذباللہ)۔ اس کے مطابق یہ مندر دوسروں کو بھی
آشیرواد لینے میں معاون ثابت ہوگا۔ شیواجی نگر حلقہ انتخاب کے بی جے پی
رکن اسمبلی سدھارتھ شرولے نے اعتراف کیا کہ منڈے نے مودی کی عقیدت میں
عبادت کی خاطر مجسمہ رکھا تھا لیکن پارٹی کو اس کی اطلاع نہیں تھی ۔ چہار
جانب سے ہونے والی تنقید کے سبب اسے وہاں سے ہٹا کر پارٹی کے دفتر میں
منتقل کردیا گیا ہے۔
میور منڈے کے وکیل مدھوکر موسالے نے بتایا کہ اسے مخالفین کی تنقید کی وجہ
سے نہیں بلکہ قومی رہنماوں کی ہدایت پرہٹایا گیا ہے۔ اس بابت اعلیٰ قیادت
نے یہ بتایا کہ ہم وزیر اعظم کے تئیں اس کارکن کی محبت اور عقیدت کا احترام
کرتے ہیں مگر یہ بی جے پی کے اصول و اقدار کے خلاف ہے۔ اس مجسمہ کو دفتر
میں عبادت کی خاطر نہیں بلکہ ترغیب کے لیے رکھا جائے گا۔ اس پر حزب اختلاف
نے طننراً افسوس کا اظہار کیا۔ شیوسینا کے مقامی رہنما نے کہا ہم وہاں آکر
مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی کے لیے پرارتھنا کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ
ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے ۔ این سی پی رہنما پرکاش جگتاپ نے چٹکی لیتے ہوئے
کہا کہ ہم اس مورتی پر پٹرول ، ڈیزل اور ایل پی جی چڑھانے کی خاطرآنے والے
تھے کیونکہ ان کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان
احمقانہ حرکات سے کھوئی ہوئی مقبولیت لوٹ کر آجائے گی؟ جبکہ وزیر اعظم کی
حالت زار کا بنیادی سبب عوام کی خود آگہی ہے جس کا اظہار امیر مینائی نے
اس طرح کیا تھا :’سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ‘۔
|