14 اگست ۔۔۔ آزادی کیا ہے؟

دل چاہتا ہے کہ اگر لکھنے بیٹھی ہوں تو اس موضوع پر اپنے قلم سے وہ تمام احساسات ، جذبات اور خیالات جو پاکستان کے 74 سالوں سے منسوب ہیں۔ ان سب کو بھی آزاد کر دُوں۔

کہتے ہیں ، مہنگے خواب دیکھنے ہوں تو آنکھیں بیچنا پڑتی ہیں۔۔۔یقین جانیے چودہ اگست 1947 کو پاکستان کی شکل میں شرمندہ تعبیر ہونے والا یہ خواب بھی ایسا ہی تھا ۔ جس کے لیے ہمارے بزرگوں ،ہمارے بچوں ، ہمارے نوجوانوں اور ہماری خواتین نے اپنی آنکھیں تک بیچ دی تھیں ۔

لیکن ایک منٹ!!! ذرہ رُک کر سوچیں کیا یہ وہی آزادی ہے؟ جس کے لیے ہمارے اجداد نے آنکھیں بیچیں ، عزتوں کی قربانیا ں دیں، اپنا تن من دھن لُٹا دیا۔ کیا آزادی اسی کا نام ہے؟ کہ ہمارے اپنے ہی محافظوں کو دولت اور طاقت کے نشے نے یہ نہیں بھُلا دیا کہ اس دیس کا رہنے والا ہر باسی اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ اس ملک میں اپنی جان ، مال اور عزت کو محفوظ سمجھے کیوں؟۔۔۔کیونکہ ہم آزاد ہیں ۔ اس ملک میں رہنے والی ہر عورت اکیلے سفر کرتے ہوئے دور ِ عُمر کی یا د تازہ کروا دے ۔ کیوں ؟۔۔۔کیونکہ ہم آزاد ہیں ۔

اس ملک کا ہر وزیر خود کو ملنے والی اک لمبی تنخواہ اور عیش و عشرت کا سامان ملنے پر ایسے ہی چیخے کہ جیسے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اُجرت مقرر ہونے پر چیخ نکلی تھی کہ میں ایک مزدور کے مطابق ہی اُجرت لوں گا۔ میری اُجرت کیسے اُس سے زیادہ ہو سکتی ہے؟ کیوں؟۔۔۔کیونکہ ہم آزاد ہیں ۔ اس ملک میں امیر کا بچہ بھی غریب کے بچے کے ساتھ بیٹھ کر پڑھے۔ اسٹیٹس کے فرق کو عزت کا معیار نہ سمجھا جائے۔ کیوں ؟ ۔۔۔کیونکہ ہم آزاد ہیں۔

اگر یہ سب نہیں ہے ؟ تو بتایے آزادی کیا ہے؟ یقین جانیے فُٹ پاتھ پر کھڑا بچہ غبارے نہیں بیچتا بلکہ اپنی آنکھوں میں بچپن کے خواب بیچ دیتا ہے۔ اور کس کے عِوض؟ ایک روٹی کے عِوض۔ ۔۔اور وہ یہ نہیں جانتا کہ جو روٹی وہ خرید رہا ہے اس میں وہ آئی ایم ایف کا سُود بھی اُتار رہا ہے۔جو اُمراء کے جانوروں تک کی عیاشیوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ بتایے !کہ کیایہ بچہ کبھی محسوس کر سکے گا کہ آزادی کیا ہے؟ نہیں !!کبھی بھی نہیں ۔۔۔بلکہ اس بچے کا ننھا سا دِل تو معیشت کے بوجھ کے تلے دبتا ہی چلا جائے گا۔ اور ایک وقت آئے گا۔ جب یہ خود بھی منوں مٹی تلے دب جائے گابغیر یہ جانے کہ آزادی کیا ہے؟

میں اپیل کرتی ہوں اس تحریر کے توسط سے اُن وزراء، اُمراء، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، زمینداروں ، صحافیوں، غرض کہ ہر شعبے کے افرادسے جو کسی نہ کسی طرح اپنے عُہدے، اپنی طاقت ، اور اپنے پیسے کا غلط استعمال کرکے خیانت کے مرتکب ہوتےہیں ۔ خدارا !یاد رکھیے گا کہ آ پ دُنیا کی تمام دولت اور طاقت اکٹھا کر لینے کے باوجود بھی سکون و اطمینان نہیں خرید سکتے ۔ آپ یہ کبھی نہیں جان سکتے کہ دِل کی خوشی تو رب تعالیٰ نے دوسروں کی خوشی میں رکھی ہے۔ آپ یہ بھی نہیں جان سکتے کہ کسی انسان سے کی گئی زیادتی کا کفارہ پے در پے کیے گیے حج اور عُمرے بھی نہیں بن سکتے ۔ اور آپ یہ بھی نہیں جان سکیں گے کہ میدان حشر میں امانتوں کا بوجھ کس قدر ثقیل ہو گا؟ کہ جو عُہدے آپ کو دُنیا میں قابل فخر لگتے ہیں وہ آخرت میں جوابدہی کا باعث بن جائیں گے۔

لِہذا اس ملک کے مستقبل سے جینے کی اُمنگ ، آگے بڑھنے کا حوصلہ ، روشن خواب اور کچھ پا لینے کی چاہ مت چھینیے۔ خدارا!! مت چھینیے۔ کیوں ؟۔۔۔ کیونکہ ہم آزاد ہیں ۔ اور آزادی اسی ہی کا تو نام ہے۔ اور بے شک ایسے ہی مدینہ کی ریاست کے لیے ہمارے اجداد نے اپنی آنکھیں تلک بیچ دی تھیں ۔
 

Asma Tabasum
About the Author: Asma Tabasum Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.