''سیکولرازم،جمہوریت اور اسلام'' ایک بحث کا احوال
(Athar Masood Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی آج سوشل میڈیا پہ مولانا وحید الدین خان کی اس بات پہ تبصرے ہوئے کہ '' سیکولر ازم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں ،سیکولر ازم کا مطلب لا مذہبیت نہیں بلکہ مذہب کے بارے میںغیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے۔یہ ایک عمل تدبیر ہے ،اس کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترکہ بنیاد پر ملک کا نظام چلایا جائے''۔
اس پہ مختلف لوگوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ایک کا کہنا تھا کہ ''جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی''۔ دوسرے نے کہا''سیکولرازم مذہبی اداروں سے ریاست کی علیحدگی کا اصول ہے''۔ایک صاحب نے کہا کہ ''کوئی ریفرنس؟ سیکیولرزم کی کسی دین مخالف شق کا حوالہ؟ اور میثاق مدینہ کے بارے میں کوئی معلومات ہوں تو شیئر کر کے عنداللہ ماجور ہوں۔ لاعلمی کو علم کی آلائشوں سے پاک رکھتے ہوئے فقط جذباتیت اسلام کا مطمع نظر نہیں''۔ایک تبصرہ تھا کہ ''سیکولرازم لادینیت ہے'' ۔سوشل میڈیا پہ اس بحث کے میزبان عارف خواجہ نے اپنی رائے میں کہا کہ ''یہ سیکولرازم کی برکت ہے کہ مسلمان غیر مسلم ملکوں میں جوق درجوق جاتے ہیں خود بھی اسلام پر عمل کرتے ہیں اور غیر مسلموں کو بھی مسلمان کرکے اپنے مزہب میں شامل کرتے ہیں مگر تعجب ہے اپنے ملک میں سیکولر ازم کے خلاف تقریریں کرتے ہیں۔دین مزہبی رواداری پر مشتمل فلاحی ریاست چاہتا ہے جس میں ہر ایک کو مزہبی آزادی ہو اور ریاست کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کرے''۔
اس دلچسپ اور اہم بحث میں۔ موضوع کے اعتبار سے میرا مختصر ،موقف یہ رہا کہ ہر نظرئیہ اور سوچ بھی ارتقائی عمل سے گزرتے ہیں اور مزید نکھرتے جاتے ہیں، اس میں ایسے مفہوم بھی شامل ہو جاتے ہیں کہ جو پہلے اس نظرئیے ،سوچ میں شامل نہ تھے۔ آج دنیا کی عقل و دانش ( جس میں تمام مذاہب، مت اور دوسرے مذہبی عقائد کے علاوہ مذہب کو نہ ماننے والے بھی شامل ہیں)متفقہ طور پر یہ قرار دیتی ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو مساوی درجہ حاصل ہونا چاہئے، مساوی احترام، مساوی حقوق، مساوی مواقع۔یعنی ریاست کے ہر شہری کے حقوق برابر کی اہمیت کے حامل ہونے چاہئیں اور ایساآئینی اور قانونی طور پر ہونا چاہئے،جمہوریت کے تصور کے بنیاد بھی یہی ہے۔
مغربی ممالک میں جمہوریت کی خامیوں کو کم سے کم کرتے ہوئے شہری حقوق ،عوامی حاکمیت کے رواج کو مضبوط سے مضبوط کیا جا رہا ہے جبکہ اس کے برعکس کئی ترقی پذیر ممالک شخصی،طبقے کی آمریت کا شکار ہیں، کئی ایک میںمحض دکھاوے کو جمہوریت رکھی گئی ہے،یعنی ترقی پذیر معاشروں میں جمہوریت کو مکمل منفی ذہنیت اور جمہوریت کی روح کے منافی طرز عمل کو ہی جمہوریت قرار دینے پر اصرار کیا جاتا ہے۔
امریکہ میں غلامی کے خاتمے کا قانون بننے کے ڈیڑھ دوسو سال کے بعد اس قانون پر بڑی حد تک عمل درآمد شروع ہوا۔ دنیا کے تمام انسانوں کے لئے مساوی حقوق ،مساوی برتائو کا تصور اور مطالبہ علم پھیلنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا جا رہا ہے،تاہم عالمی سطح پر ایسا ہونے کے لئے لازم ہے کہ تمام ریاستوں میں رہنے والے انسان بغیر کسی تفریق کے مساوی حیثیت میں رہ سکیں۔یعنی ہر انسا ن بغیر کسی تفریق کے مساوی حیثیت و حقوق کا مستحق ہے۔جیسا کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کا ہر شہری ،چاہے وہ کسی بھی مذہب عقیدے کا ماننے والا ہو، اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لئے آزاد ہے۔
ہم سیکولر ازم کی یہی تعریف کرتے ہیں جو اس کی فلاسفی ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے آج ہمارے سامنے ہے، سیکولر ازم کے نام پہ ہندوستان کی طرح کے ملکوں میں جو جمہوریت کش اور اکثریت کی بدترین ظالمانہ طرز عمل رکھنے والی صورتحال درپیش ہے، وہ سیکولر ازم ہی نہیں بلکہ جمہوریت کے لئے بھی ایک بھیانک مذاق ہے اور یہی ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت اور سیکولرازم کا پیرہن دکھانے کو پہنا گیا ہے،اور اس دھوکے میں سیکولر ازم اور جمہوریت کی پامالی والے نظام کو بروئے کار لایا جا تا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں سیکولر ازم کی کیا رائے ہو سکتی ہے۔میری رائے میں اسلام کا مکی دور اسلام کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ خود پر روزانہ کوڑہ کرکٹ پھینکنے والی بوڑھی عورت پر کبھی ناگواری کا اظہار نہ کرنا اور ایک دن اسے خود پر کوڑہ پھینکتے نہ دیکھ کر اس کی خیریت طلب کرنے اس کے گھر جانا ،اس کو بیمار پا کر اس کی تیماری داری کرنا، اس کے کام کاج کرنا،یہ وہ اسلامی تصور ہے کہ ایک مسلمان کہلانے والے کو غیر مسلم شہری کے ساتھ معاشرے میں رہتے ہوئے کس طرح کے طرز عمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہے کہ مکی دور میں ، جب مسلمانوں کمزور صورتحال اور کفار مکہ کے غلبے میں تھے، اس وقت کے اسلامی طرز عمل، اور جب مسلمانوں نے مدینہ میں ریاستی امور چلانا شروع کئے، تو زیر عمل علاقوں میں مسلمانوں کا غیر مسلم باشندوں سے طرز عمل مختلف ہو جاتا ہے۔ لیکن مسلمانوں میں اکثر اس بات کے قائل ہیں کہ کمزوری کی صورتحال میں ایک طرح کا روئیہ رکھنا اور طاقت ،اختیار ،حاکمیت مل جانے کے بعد دوسری طرح کا طرز عمل روبہ عمل لانا ہی اسلامی تعلیمات ہیں۔
|