ماہ ستمبر کا آغاز اپنے ساتھ عظیم کشمیری رہنما سید علی
گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کی اندوہناک خبر لے کر آیا۔ بابائے حریت
سید علی گیلانی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ،وہ نہ صرف امت مسلمہ کا
عظیم سرمایہ تھے بلکہ انسانیت کے حقوق کے عالمی سطح پر ترجمان بھی تھے ۔انھوں
نے اپنے شان دار کردار بلند نگاہی، ہمت و جرات اور عزائم کی استقامت کا
اظہار زندگی کے ہر مرحلے پہ کیا ۔ان کے دئیے ہوئے نعرہ " ہم پاکستانی
ہیں،پاکستان ہمارا ہے " نے اہل کشمیر میں ایک نیا جذبہ اور روح پیدا کی۔ آج
وہ بانوے سال کی عمر میں کشمیری مسلمانوں کے حقوق خصوصاً جدوجہد آزادی کی
خاطر عمر بھر قیدوبند کی صوبتیں برداشت کرنے اور اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹنے
کا نامہء اعمال لے کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے ہیں اور امت مسلمہ کا ہر
دردمند مسلمان آپ کی رحلت کا دکھ محسوس کر رہا ہے ۔
~ یہ کون چل بسا ،یہاں ہر آنکھ اشک بار ہے !
وہ فخر_ گل نہیں رہا ، نہ رونق_ بہار ہے !
سید علی گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے آباؤ اجداد کا تعلق مقبوضہ کشمیر میں
بانڈی پورہ سے تھا پھر انھوں نے قریبی ضلع بارہ مولہ کی جانب ہجرت کی اور
راقمہ کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی بارہ مولہ سے تھا ۔ حسن اتفاق یہ بھی ہے
کہ سید علی گیلانی جب حصولِ تعلیم کے لئے لاہور آۓ اور انھوں نے مسجد وزیر
خان سے حفظ کرنے کا آغاز کیا تو راقمہ کے دادا جان کا گھر بھی اس مسجد کے
قریب تھا اور بچپن میں اکثر دادی جان کے ساتھ وہاں نمازِ جمعہ پڑھنے کی
سعادت حاصل ہوئ۔ تیسرا اتفاق یہ کہ سید علی گیلانی نے فکر مودودی سے
رہنمائی حاصل کی اور پھر جماعتِ اسلامی کے رکن بنے ۔اسی لیے آج کچھ درد
میرے دل میں سوا ہوتا ہے۔وہ پاکستان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے : "یہاں
نیشنلزم نہیں چلے گا ، یہاں سیکولرزم نہیں چلے گا یہاں امریکہ کا ورلڈ آرڈر
نہیں چلے گا ، یہاں صوبائیت اور قومیت نہیں چلے گی۔یہاں صرف اور صرف اسلام
کا سکہ چلے گا اور اسلام کے تعلق سے ،اسلام کی نسبت سے اور اسلام کی محبت
سے
ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے ."
پاکستان سے محبت کے جرم میں بھارتی حکومت نے ان کو کم و بیش پندرہ سال
جیلوں میں اور ان کی رہائش گاہ پر قید رکھا ،ان پر ظلم و جبر کا کوئ حربہ
کارگر نہ ہوا تو پھر ایک وقت آیا جب آزادی کی جدوجہد ترک کرنے کے عوض سابق
بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے انھیں بھارت کا صدر بنانے کی پیشکش کر
ڈالی لیکن گیلانی بابا نے وہ پیشکش حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کہا:
" مادام گاندھی ! اب کشمیر میں کوئ شیخ عبداللہ نہیں رہا جو کرسی کی خاطر
دین و ملک سے غداری کرے"!. وہ اپنی مادری زبان میں دوٹوک الفاظ میں کہا
کرتے تھے :
اگر کریھن شین تہ پیہ
تو تہ روز سآنی جدوجھد جاری
ترجمہ: اگر کالی برف بھی پڑنے لگے(یعنی ایٹمی جنگ ہوجاۓ) تو ہماری جدوجہد
پھر بھی جاری رہے گی !(بحوالہ چنار کہانی ،محمد صغیر قمر)
کشمیر کے ساتھ پاکستان کی سرحد 902 کلومیٹر ہے جب کہ بھارت کے ساتھ 317 میل
ہے ۔قدرتی اور جغرافیائی لحاظ سے کشمیر فطری طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔
مذہب کے لحاظ سے کشمیری مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کی تمنا اور
جدوجہد کی راہ میں طویل قربانیاں دی ہیں اور نسل در نسل اپنے بھائ بیٹوں کی
شہادتیں پیش کی ہیں۔سید علی گیلانی جانتے تھے کہ دشمن کی نظر کشمیر کے بعد
"کہوٹہ" پر ہوگی اس لئے وہ پاکستانی حکمرانوں کو مخاطب کرکے ان کا فرض
منصبی بھی یاد دلاتے رہتے تھے ۔لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان نے
ان کی خاطر ،اتنے برسوں میں کیا کیا ہے ؟
~ کب تک دیکھو گے تماشا تم قاتل کا ؟
بے گوروکفن لاشوں نے پکارا ہے !
ہے آندھیوں کا زور ، شمع_ آزادی پر
تمہیں جلتے پروانوں نے پکارا ہے !
اتنے برسوں سے ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں پر بھارتی ظلم و تشدد کے پہاڑ
ٹوٹتے دیکھ رہے ہیں لیکن تاریخ میں ہمیں کیا لکھا جائے گا کہ پاکستانی وہ
تھے جو بھارت کو تجارت کے لئے فیورٹ نیشن قرار دیتے تھے ؟ یا پھر تاریخ
لکھے گی کہ ہم دوستی بسوں میں گھومنے پر راضی ہوگئے تھے ؟یا جب بھارت نے
دفعہ 370 لگا کے ریاست جموں و کشمیر کا آئینی سٹیٹس بدلا تھا اور وہاں قتل
عام کر رہا تھا تو پاکستانی قوم سرکاری سطح پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار
کرکے کشمیری مسلمانوں سے یکجہتی منارہی تھی ؟
ہم اپنے رب کو روز قیامت ان لاکھوں کشمیری مسلمانوں کے بارے میں کیا حساب
دیں گے۔ ؟ مجھے ڈر ہے پاکستان سے اپنی تمام تر محبت کے باوجود کہیں گیلانی
بابا کی نظر میں ہم اہلِ کوفہ کی طرح نہ ہوں !!
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اہل _ پاکستان بھی بابائے حریت کے نعرے کا جواب
دے سکیں کہ
"ہم بھی کشمیری ہیں اور کشمیر ہمارا ہے !"
#فکرونظر
#SyedAliGillani
|