موجودہ حکومت اپنی تین سالہ حکومتی کارکردگی پر خوشیاں
منا رہی ہے اور مختلف سیکٹرز خاص طور پر معیشت کی بہتری سے متعلق
اعدادوشمار پیش کر کے بھر پور کامیابیوں کے قلابے مِلا رہی ہے ، لیکن دوسری
طرف اپوزیشن جماعتیں اس تین سالہ حکومتی کارکردگی کو صفر ، انتہائی ناقص
اور معیشت کی بد حالی قرار دے رہی ہے ، عوام کنفیوزڈ ہیں کہ کون صحیح ہے
اور کون صحیح نہیں کیونکہ مجموعی طور پرمعیشت کی بہتری کے ثمرات عوام تک
نہیں پہنچے اور ان تین سالوں میں عوام کو ریکارڈ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا
اور محدود وسائل سے روزمرہ اشیاء ضروریہ کی خریداری ان کی پہنچ سے دور ہو
گئیں، دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے بھی کوئی متبادل پروگرام نہیں دیا جس
سے عوام اور حکومت راہنمائی حاصل کر سکتے ، حکومت میں آنے سے قبل وزیر اعظم
عمران خان ملکی معاشی زبوں حالی کا ذمہ دارپچھلی حکومتوں کی ناقص کارکردگی
اور ان کی وسیع پیمانے پر کرپشن کو ٹھہراتے تھے جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے
اور ساتھ ہی بلند و بانگ دعویٰ بھی کیا کرتے تھے کہ ان کے پاس ایسی مضبوط
ٹیم ہے جو اپنی کارکردگی سے پاکستان کوترقی کی منزلوں تک لے جاسکتی ہے لیکن
اقتدار سنبھالتے ہی زیادہ تر انہی لوگوں کو وزیر و مشیر بنایا اور عہدے دیے
جو پچھلی حکومتوں میں بھی وزیر و مشیر تھے اور اب یہی وزاراء اور مشیر اپنی
تقاریر اور بیانات میں پچھلی حکومتوں پر تنقید سے نہیں تھکتے جو خود ان کا
حصہ رہے ،چونکہ تمام حکومتی پالیسیوں کے طریقہ کار وفاقی کابینہ سے منظور
ہوتے ہیں اس لئے اگر پچھلی حکومتوں کی ملکی معیشت کو سنبھالا دینے میں
کوہتاہیاں اور ناکامیاں ہیں تو یہ بھی برابر کے شریک ہیں ۔
وزیر اعظم سمیت حکومتی وزراء معیشت کی بہتری کے اگر دعوے کر رہے ہیں اور
کرنٹ اکا ؤنٹ خسارہ میں بہت حد تک کمی ، ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانا،
برآمدات میں مسلسل اضافہ ، ریوینیو کی وصولی اور ملکی زرِمبادلہ میں ریکارڈ
اضافے کو کامیاب حکومتی معاشی پالیسیاں قرار دے رہے ہیں تو پھر بار بار
معاشی ٹیم کو کیوں تبدیل کیا جاتا رہا اور مہنگائی پر قابو کیوں نہیں پایا
جا سکا خصوصاً آٹا ، چینی ودیگر روز مرہ کی اشیاء ضروریہ اور پیٹرول کی
آسمان کو چھُوتی ہوئی قیمتیں جن سے عام آدمی خاصا متاثر ہواہے ، اگر حکومتی
وزراء سے روز افزوں بڑھتی مہنگائی سے متعلق سوال کیاجائے تو ان کے پاس کوئی
دلیل اور اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کوئی جواب نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ
اس کا سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں اور تنقید کے نشتر برساتے
رہتے ہیں ، جواب میں اپوزیشن والے بھی کسی سے کم نہیں اور وہ بھی اِنہیں
آٹا چور ، چینی چور ، دوائیاں چور اور پٹرول چور جیسے القابات سے نوازتے
ہیں اور بیچارے عوام گذشتہ دو تین سالوں سے مختلف تقاریر،تقاریب ، بیانات ،
ٹاک شوز اوراسمبلی اجلاسوں میں یہی کُچھ سنتے آ رہے ہیں اور یہی دھینگا
مشتی جاری ہے بجائے اس کےکہ وہ عوام کی بھلائی و بہتری پر فوکس کریں،
خوامخواہ اپنی توانایئاں اِن فضولیات پر ضائع کر رہے ہیں ۔
وزیرِ اعظم عمران خان مافیا کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جو ہر جگہ
پنجے گاڑھے ہوئے ہے اور اپنے مفاد کی خاطرقیمتوں کو نیچے نہیں آنے دیتا ،
لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مافیا ہمیشہ کاروبار اور بزنس سے جُڑا ہوتا ہے
اور جب کاروبار یا بزنس کافی وسیع ہو جاتا ہے تو اپنی مکمل اجاراداری قائم
کر لیتا ہے اور مافیا کی صورت میں مکمل گرفت حاصل کر لیتا ہے ، ،حکومتی ٹیم
میں تقریباً زیادہ تر وزراء اور مشیر اور کئی بیوروکریٹس یا ان کے قریبی
رشتہ دار کسی نہ کسی کاروبار یا بزنس سے جُڑے ہوتے ہیں اور حکومتی پالیسی و
فیصلہ سازی میں ان کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے،موجودہ حکومتی ٹیم میں بھی
کاروبار اور بزنس سے منسلک وزراء ، مشیراور بیوروکریٹس موجود ہیں، اس لئے
وزیرِاعظم عمران خان کے علاوہ کبھی کسی وزیر یا مشیر نے اپنے بیانات میں
مافیا کا نام نہیں لیا ،مافیا اپنے مفادات کی خاطرہمیشہ حکومتی سرپرستی میں
ہی کام کرتا ہے ، اگرچہ وزیرِاعظم عمران خان نے ان کے خلاف ڈٹ جانے اور
جہاد کا اعلان کیا ہے لیکن ابھی تک کسی کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی
اور یہ محض اعلانات کی حد تک ہے اور ہر ہفتے اشیاء ضروریہ کی قیمتیں مزید
بڑھ جاتی ہیں اور حکومت اب تک کوئی ریلیف نہیں دے سکی ہے ،گذشتہ تین سالوں
سے ہر پندرھویں دن پٹرولیم مصنوعات اور وقتاً فوقتاً بجلی اور گیس کی
قیمتوں میں اضافہ جس کی وزیراعظم خود منظوری دیتے ہیں کا براہِ راست بوجھ
عام آدمی پر پڑا ہے ۔
صحت اور تعلیم کی سہولتیں ہر شہری کا بنیادی حق ہیں ، گذشتہ تین سالوں میں
ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ سے عام آدمی بہت زیادہ متاثر
ہوا،سرکاری ہسپتالوں میں وہی روایتی علاج و معالجہ کا طریقہ کار اور ادویات
نہ ہونے کی شکایات عام رہیں، البتہ کرونا سے نبٹنے کے لئے سمارٹ لاک ڈاؤن
کے تحت حکومتی اقدامات اطمینان بخش رہے ، ملک بھر کے طول وعرض کے
vaccinationمراکز میں لوگوں کو vaccination کی سہولت کا انتظام بہت ہی اچھا
رہا ہے ، اس سلسلے میں این سی او سی کے اقدامات اور کاوشیں قابلِ تعریف
ہیں، حکومتی زعما ء یونیورسل ھیلتھ کارڈ اور ھیلتھ انشورنس پالیسی کو
انقلابی حکومتی اقدامات قرار دیتے رہے ہیں ، کیایہ امتیازی سلوک نہیں ، کیا
یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ اگر قومی شناختی کارڈ کو ہی یونیورسل ھیلتھ کارڈ کا
درجہ دیا جاتا جس سے ہر شہری مستفید ہوتا ،تعلیم کے شعبے میں بھی وہی پرانا
روائتی طریقہ کار رہا اور کرونا کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں درس و تدریس
کا نظام کافی متاثر رہا ، اگرچہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے اسکولوں کی
اپ گریڈیشن کی گئی لیکن اساتذہ کی کمی و تعیناتی کا مسئلہ درپیش رہا ،ملک
میں یکساں تعلیمی نصاب کا حکومتی سطح پر پرچار ہوتا رہا اور 2021 میں اب
کہیں جا کر پرائمری سطح پر اس کے نفاذ کی کوشش ہو رہی ہے کیا انٹرنیشنل
سٹینڈرڈ کےانگلش میڈیم اسکولز جو ایلیٹ علاقوں اور آبادیوں میں ہیں ،اس پر
عمل درآمد کے پابند ہیں،ان تین سالوں میں فنڈز روک کر پبلک سیکٹر
یونیورسٹیز کی تعلیم کو انتہائی مہنگا کر دیا گیا ہے ، مثال کے طور پر
انجینیرنگ یونیورسٹی لاہور کی انڈر گریجوئیٹ انجینیرنگ پروگرامز کی فیس تین
سال قبل تقریباً 22000 روپے فی سمیسٹر تھی جبکہ موجودہ پہلے سمیسٹر کی فیس
59150 روپے اور بقیہ فی سمیسٹر فیس 47000 روپے سے50000 روپے تک ہے جو ایک
متوسط طبقے کے طالب علم پر کافی بوجھ ہے ، اسی طرح پنجاب یونیورسٹی لاہور
میں انڈر گریجوئیٹ کے مختلف پروگرامز کی فیس میں تھوڑا بہت فرق ہے اور
عموماً مارننگ سمیسٹر کی موجودہ فیس تقریباً 30000 روپے اور ایوننگ سمیسٹر
کی فیس 40000 روپے تک ہے، BBIT،BSکمپیوٹر سائنس اور انجینیرنگ پروگرامز کی
موجودہ سمیسٹر فیس دیگر پروگرامز سے کہیں زیادہ ہے ،جبکہ گذشتہ ادوار کی
حکومتوں میں سمیسٹر فیس 18000 روپے سے 22000 روپے تھی ، گذشتہ ادوار کی
حکومتوں میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیز و کالجز میں ہر اسٹوڈینٹ کو لیپ ٹاپ دیے
جاتے تھے جو یونیورسٹیز و کالجزکی تعلیم کے لئے موجودہ دور کی ضرورت ہیں
جبکہ گذشتہ تین سالوں سے یہ سہولت بھی ختم کر دی گئی ہے ،اگرچہ احساس
سکالرشپ پروگرام شروع کیا گیا ہے لیکن یہ چند فیصد طلباء وطالبات تک پہنچ
پاتا ہے ، ان بے تحاشا فیسوں کے اضافے سے ایک متوسط طبقے کے طالب علم کی
یونیورسٹیز اور خاص کر انجینیرنگ شعبوں کی تعلیم اس کی پہنچ سے دور ہو گئی
ہے ، شکر ہے کہ یونیورسٹی آف میانوالی کے 4 سالہ بی ایس پروگرامز اور دو
سالہ ماسٹر پروگرامز کی سمیسٹر فیس طلباء وطالبات کے لئے انتہائی مناسب اور
affordable ہے جو کہ انتہائی اطمینان بخش ہے ۔
موجودہ دور حکومت میں دیا میر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم پر کام شروع کیا گیا
ہے ، اس طرح سی پیک کے تحت تشکیل دیے گئے میگا پروجیکٹس اورموٹرویز جیسے
منصوبوں پر بھی کام جاری وساری رکھا گیا ہے ، لاہور میں اورینج میٹرو ٹرین
کا چلنا اگرچہ اس میں کافی دیر لگی ہے ، موجودہ حکومت کے کامیاب منصوبوں
میں شمار کیا جائے گا ،زرعی و صنعتی شعبوں میں ہمیشہ بہتر ی کی ضرورت رہی
ہے ،زرعی شعبے میں کھادیں اور ڈیزل بہت زیادہ مہنگی ہونے کی وجہ سے کسان
کافی متاثر ہوا ہے ،اگرچہ کسان کارڈ اور محکمہ زراعت کی طرف سے کسانوں کے
لئے مراعات وسبسڈی سے کسانوں کوکچھ ریلیف ملا ہے لیکن مجموعی طور پر زرعی و
صنعتی شعبوں میں انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے جو ملکی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی
کی حیثیت رکھتے ہیں،ریلوے کے شعبے میں کوئی خاص بہتری نہیں ہوئی اور آئے دن
ریل گاڑیوں کے حادثات سے مسافروں کے لئے ریل کا سفر رسک بن گیا ہے جبکہ کسی
زمانے میں ریل کا سفر انتہائی محفوظ سمجھا جاتا تھا ،لاہور جیسےبڑے شہروں
میں لوگوں کو لوکل پبلک ٹرانسپورٹ جیسی سستی سواری کے مسائل کا سامنا ہے جو
گذشتہ حکومتوں کے ادوار میں تو مہیا تھیں لیکن گذشتہ دو سالوں سے ختم کر دی
گئی ہیں اور صرف سپیڈو اور میٹرو بسیں ہی چند علاقوں تک محدود ہیں ،پولیس
کے محکمے میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود بھی
حسب روایت پولیس موقع واردات پردو سےتین گھنٹے بعد ہی پہنچتی ہے ، جس کی
واضح مثالیں موٹروے زیادتی کیس اور حالیہ یادگارِ پاکستان واقعہ ہیں ،لوئر
کورٹس میں تیز رفتار انصاف کی فراہمی کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ
چھوٹے لیول کے مقدمات سالہوں سال چلتے رہتے ہیں البتہ اعلیٰ عدلیہ کی سطح
پر مقدمات کے چلنے اورفیصلوں میں بہتری نظر آئی ہے ، اداروں اور محکموں میں
کرپشن ، سفارش ، اقرباء پروری اور منظورِنظر افراد کو نوازنے کا عمل کچھ کم
تو ہوا ہے لیکن ابھی بھی کسی حد تک جاری ہے ، تحصیل اور قانونگو کی سطح پر
زمینوں کے انتقال کے سلسلے میں لینڈ آراضی ریکارڈ سنٹرز میں کافی بہتری آئی
ہے ، اعداد و شمار کے مطابق بےروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے ،
پرائیویٹ سیکٹر میں کنسٹرکشن شعبہ کو فروغ ملا ہے جس سے دیہاڑی دار مزدور
طبقہ مستفید ہوا ہے ، البتہ کنسٹرکشن شعبہ سے منسلک بِلڈرزاور کاروباری
طبقہ نے بھی کافی فائدہ حاصل کیا ہے ، نوجوانوں کی تیکنیکی صلا حیتوں کو
بڑھانے کے لئے یوتھ پروگرام کا آغاز کیا گیا جو ایک احسن اقدام ہے کیونکہ
روزگار کے لئےتیکنیکی فیلڈ میں ہنر کا ہونا ضروری ہے ، آئی ایم ایف کا
مسلسل پریشر اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھنے کی تلوار لٹکی رہی ہے
، خارجہ پالیسی متوازن رہی ہے اور عالمی دنیا میں خطےکے استحکام کے لئے
پاکستان کے کردار کو اہمیت اور پذیرائی ملی ہے ، سرحد پار سے پاکستان کے
اندر تخریب کاری اور دہشت گردی کے اکا دکا واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن مجموعی
طور حکومت نے مسلح افواج کی بھر پور معاونت سے بہتر حکمت عملی کے تحت
افغانستان کے پیچیدہ معاملات کو ہینڈل کیا ہے ، 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370
میں ترمیم کے ذریعے ہندوستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کیا جو
کشمیریوں اور پاکستانی عوام کو کسی صورت بھی قبول نہیں، حکومتی سطح پر اس
کے خلاف اور کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے ہر عالمی فورم پر بھر پور آواز
اُٹھائی گئی ، ملکی اندرونی سیاسی ماحول میں انتہائی پولرائزیشن رہی جبکہ
ارد گرد اور خطے کے تبدیل ہوتے حالات کے پیشِ نظرہمارے ملک کو سیاسی
استحکام اور یکجہتی کی انتہائی ضرورت ہے ۔
موجودہ دور حکومت میں ترقیاتی منصوبوں کے سلسلے میں اور خاص طور پر صوبہ
پنجاب کی حد تک پسماندہ اضلاع کو فوکس کیا گیا ہے ، اس سلسلے میں میانوالی
، بھکر ،لیہ ،ڈیرہ غازیخان ، راجن پور اور دیگر جنوبی اضلاع میں ترقیاتی
منصوبے شروع کئے گئے جس کا مقصد ان علاقوں کی پسماندگی دُور کرنا اور دوسرے
اضلاع کے برابر لا نا ہے ،یقیناً یہ اچھا اقدام ہے ، موجودہ حکومت کو
بحیثیت مجموعی ملک کے تمام اضلاع میں بغیر کسی امتیاز کے ترقیاتی کاموں خاص
طور پر ٹوٹی پھوٹی سڑکوںاور گلیوں کی تعمیر و مرمت اور پختگی ، پینے کے لئے
صاف پانی اور دیگر مقامی مسائل پر بھر پور توجہ دینی ہو گی کیونکہ وقت کم
ہے اور مسائل کے انبار ہیں اور بہترین حکمتِ عملی سے ہی موجودہ حکومت آنے
والے وقتوں میں اپنی کارکردگی پر فخر کر سکتی ہے ۔
|