منور رانا ایک نرم لہجے کے شاعر ہیں لیکن جب وہ سیاسی
حالات پر اظہار خیال کرتے ہیں تو ان کا لب و لہجہ خاصہ سخت ہوتا ہے اور وہ
بلا خوف و خطر اپنے من کی بات پیش کردیتے ہیں ۔ حال میں انہوں نے یہ کہہ کر
سب کو چونکا دیا کہ جو بے رحمی اور ظلم افغانستان میں کیا جا رہا ہے، اس سے
کہیں زیادہ بے رحمی تو یہاں ہندوستان میں موجود ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ
پہلے رام راج تھا لیکن اب کام راج ہے، اگر رام سے کام ہے تو ٹھیک، ورنہ کچھ
نہیں ۔ شاعری کی دنیا میں منور رانا کا بڑا مقام ہے وہ بہت اچھے نثر نگار
بھی ہیں لیکن سیاسی دانشور نہیں ہیں۔ اس لیے ان کے خیالات سے اختلاف بھی
ہوسکتا ہے لیکن وہ عام لوگوں کی نمائندگی کردیتے ہیں یعنی وہ ایسی بات بیان
کردیتے جوایک سیدھا سادہ ہندوستانی یا مسلمان سوچتا ہے۔ منور رانا کا
مذکورہ بیان اسی زمرے میں آتا ہے اس لیے کہ دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد
طالبان کا رویہ خاصہ نرم ہے۔
طالبان نے ایک طرف تو عام معافی کا اعلان کردیا۔ دوسری جانب خواتین کےحقوق
کی بابت اندیشوں کو ختم کردیا۔ اہل تشیع کے جلوس کو تحفظ فراہم کرکے اور
گرودوارہ کا ازخود دورہ کرنے کے بعد مختلف شکوک و شبہات کی تدارک کا سامان
کردیا ۔ ان کے حوالے سے جو ظلم و جبر کی خبریں ذرائع ابلاغ میں آرہی ہیں
ان میں سے اکثر گھڑی ہوئی ہیں یا انفرادی حرکت ہے جس کو حکومت کی حکومت سے
جوڑ دیا جاتا ہے۔ منور رانا نے نہ صرف ظلم و جبر کا موازنہ کیا بلکہ یہ بھی
کہا کہ ہندوستان کو طالبان سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ
افغانستان کا ہندوستان سے ہزاروں برس کا تعلق رہا ہے اور اس نے ہمارے ملک
کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ یہاں تک کہ جب ملا عمر کی حکومت تھی تو اس وقت
بھی انہوں نے ہندوستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، کیونکہ ان کے باپ،دادا
نے ہندوستان سے ہی کما کر لے گئے تھے۔
منور رانا کے اس انکشاف کی تصدیق یا تردید تو تحقیق کے بعد ہی ممکن ہے۔ ان
کا یہ کہنا بھی ہے کہ جتنی اے کے-47 طالبان کے پاس نہیں ہوں گی اس سے زیادہ
تو ہندوستان میں مافیا کے پاس ہیں۔ طالبان تو اسلحہ چھین کر اور ان سے مانگ
کر لاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں کے مافیا ہتھیار خریدتے ہیں۔ یہ سب بھی تحقیق
طلب امور ہیں لیکن عام آدمی اس طرح کی سوچ رکھتا ہے۔ اتر پردیش حکومت کی
جانب سے دیوبند میں اے ٹی ایس کا مرکز کھولنے پر منور رانا نے بڑی پتہ کی
بات کہی وہ بولے ’جب تک یہ حکومت ہے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ لیکن موسم ہمیشہ
ایک جیسا نہیں رہتا۔ تبدیلی مذہب جیسے مسائل ملک کو برباد کر دیتے ہیں (ان
کا اشارہ غالباً تبدیلیٔ مذہب کے نئے قانون کی طرف تھا ورنہ یہ تو انسان کا
بنیادی حق ہے) لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک پہلے جیسا ہو جائے‘۔منور
رانا نے کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ ’’ اتر پردیش میں بھی تھوڑے بہت
طالبانی ہیں، یہاں نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو طالبان بھی موجود ہیں۔ دہشت گرد
کیا صرف مسلمان ہیں، ہندو بھی ہوتے ہیں! مہاتما گاندھی سیدھے تھے اور
ناتھورام گوڈسے طالبانی تھا۔ یوپی میں بھی طالبان جیسا کام کیا جا رہا
ہے‘‘۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لکھنو میں بیٹھ کر اس قدر سخت بیانات دینے کے باوجود
منور رانا کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے ایک آئینہ
دکھا دیا ۔ کل یگ میں کیمرے کے ساتھ آئینہ بھی جھوٹ بولنے لگا ہے اس لیے
یہ عکس بھی پوری طرح درست نہیں ہے۔ اس کے برعکس سماج وادی پارٹی کے رکن
پارلیمان شفیق الرحمن برق پر ملک سے غداری کی ایف آئی آر درج ہوگئی ہے
کیونکہ انہوں نے طالبان کا مجاہدین آزادی سے موازنہ کردیا ۔ یہ دلچسپ حقیقت
ہے شکایت کنندہ اس بی جے پی کے مقامی رہنما ہے جس کے پریوار نے آزادی کی
جدوجہد سے خود کو دور رکھا تھا ۔ اس پارٹی کی ایک رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر
نے گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کے تئیں کھلے عام عقیدت کا اظہار کیا تھا
۔پرگیہ کی حرکت سے وزیر اعظم کی قلبی تکلیف پہنچی تھی اس کے باوجود پرگیہ
کے خلاف مقدمہ تو دور پارٹی کی جانب سے کوئی تادیبی کارروائی تک نہیں ہوئی۔
ویسے اپنے اور پرائے میں فرق اگر ورن آشرم کے حامی نہ کریں تو کون کرے گا؟
سنبھل میں سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن پر افغانستان
میں طالبان کے قبضے کی حمایت کرنے کا الزام ہے۔ بی جے پی کے راجیش سنگھل کی
شکایت پر پولیس نےان کے خلاف غیر ضمانتی دفعات مثلاً آئی پی سی کی دفعہ 124
اے (ملک سے غداری) کے علاوہ 153 اے اور 295 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی
ہے۔
طالبان کے مخالفین کو یہ پریشانی ہے کہ ان کے اقتدار میں آجانے کے بعد
افغانستان اظہار رائے کی آزادی ختم ہوجائے گی لیکن وطن عزیز میں تو ایسا
کچھ نہیں ہے یہاں ہر کوئی اپنے من کی بات کرنے کے لیے آزاد ہے۔ طالبان کی
مخالفت کرنے کی کھلی چھوٹ موجود ہےلیکن کسی نے اگر ان کی حمایت میں دو بول
کہہ دئیے تو اسے برداشت نہیں کیا جاتابلکہ غدارِ وطن قرار دے کر اس پر
مقدمہ ٹھونک دیا جاتا ہے۔ اس دلچسپ آزادی کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے
طالبان کا اندراج ملک کی دہشت پسند تنظیموں میں ہے۔ وزارت داخلہ کی جو
فہرست انٹر نیٹ پر موجود ہے اس میں تو یہ نام نہیں ہے۔ روس کے اندر ایسا
ضرور ہے لیکن اس کا سفیر تو طالبان سے کھلے عام ربط میں ہے مگر ہندوستان کے
اندر ابھی تک اس بابت 14 لوگوں کے حراست میں لیے جانے کی خبر آچکی ہے اور
سوشیل میڈیا کی نگرانی کی جارہی ہے۔
شفیق الرحمن برق پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان میں طالبان کے قبضے
کو صحیح ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کی آزادی اس کا اپنا معاملہ ہے۔
انہوں نے سوال کیا امریکہ افغانستان میں کیوں حکومت کر رہا ہے؟ اور کہا کہ
طالبان وہاں کی طاقت ہے۔ طالبان نے امریکہ ، روس کے قدم جمنے نہیں
دئیے۔افغان طالبان کی قیادت میں آزادی چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی پورا
ملک انگریزوں سے لڑا۔ اگر سوال ہندوستان کا ہو اور اگر کوئی یہاں اس پر
قبضہ کرنے کے لیے آتا ہے تو ملک اس سے لڑنے کے لیے مضبوط ہے۔ اس بیان میں
کیا بات قابل اعتراض ہے؟ یہ تو طالبان کا حامی یا مخالف سب کی سمجھ سے پرے
ہے۔ ویسے شفیق الرحمٰن برق نے طالبان کی حمایت میں بیان دینے والی خبروں سے
متعلق یہ صفائی دے دی ہے کہ ’’میں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا، یہ بالکل
غلط ہے۔ انہوں نے کہا جب مجھ سے سوال کیا گیا تو میں نے صاف طور سے کہا، کہ
اس کا مجھ سے کیا تعلق؟ ان کا کہنا ہے کہ میں نے صرف اتنا بولا کہ میرے ملک
کی جو پالیسی ہوگی میں اپنے ملک کے ساتھ ہوں، میں نے اس میں کیا جرم کر دیا
میں نے طالبان کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی رائے دینے سے انکار کر دیا۔
میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا‘‘۔ ویسے اس ضرورت نہیں تھی لیکن یہ
ان کا اپنا معاملہ ہے۔
شفیق الرحمٰن برق کے لیے تریپورہ میں بر سرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے
رکن اسمبلی ارون چندر بھومک کی جانب سے ایک بلا واسطہ دلچسپ حمایت آگئی۔
بھومک نے ببانگِ دہل کہہ دیا کہ اگرتلہ ہوائی اڈے پر ترنمول کانگریس
کےرہنما وں کا بی جے پی کے کارکنوں کو ‘طالبانی طرز’ میں مقابلہ کرنا
چاہیے۔ اس طرح گویا بی جے پی رکن اسمبلی نے طالبان کو اپنے لیے نمونہ مان
لیا حالانکہ اس بیچارے کو یہ معلوم نہیں کہ فی الحال طالبان ہوائی اڈے پر
آنے والوں کا مقابلہ نہیں کررہے بلکہ وہاں سے جانے والوں کو سہولت فراہم
کررہے ہیں۔ اے ایف پی نامی بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی نے تصدیق کی ہے کہ
طالبان نے ہندوستانی سفارتکاروں کی ملک سے نکلنے میں مدد کی ۔ برق کے
مقابلے بھومک کا بیان نہایت اشتعال انگیز ہے مگر اس پر بی جے پی کی جانب سے
یہ صفائی کافی ہے کہ یہ پا رٹی کا نہیں بلکہ رکن اسمبلی ذاتی بیان ہے ۔ یہی
دلیل مولانا سجاد نعمانی کی بھی ہے کہ ان کے بیان کا مسلم پرسنل لا بورڈسے
کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ان کی نجی رائے ہے ۔ ایسے موصوف کے بیان میں کوئی
قابل اعتراض بات نہیں ہے اس کے باوجود کوئی جندل نامی وکیل ان کے خلاف
مقدمہ دائر کرنے کی دہائی دے رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے لوگ جس بات پر چیں بہ
جبیں اس پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
|