ظہوراسلام سے پہلے روئے زمین پرجہالت اور طاقت کے
قانون کا راج تھا معاشرے میں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے نظریے پر عمل کیا
جاتا تھاطاقتور کو کمزور پر ظلم کرنے کا پوراحق حاصل تھا مجبور اور لاچار
لوگوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جاتا تھا یہی وہ دور تھا جب
خواتین کو سوسائٹی میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ان کو برابری کے
حقوق دینا تو دور کی بات بچیوں کو پیدا ہوتے ہی ذندہ درگور کردیا جاتا تھا
ہر طرف ظلمت کے اندھیروں کا راج تھا انھی اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کے
لیے مالک الملک کی طرف سے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے گئے جنھوں نے بھٹکی
ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہوئے لوگوں کو
حق اور باطل میں فرق سمجھانے کے علاوہ مخلوق کو اﷲ کی واحدانیت پر ایمان
لانے اور حقوق العباد کی ادائیگی کی تاکید کی پس جن لوگوں نے حق کے پیغام
کو سن کر اس پر عمل کرتے ہوئے ذندگی گذاری دنیا وآخرت کی کامیابی ان کا
مقدر ٹھہری جنھوں نے روگردانی کی وہ دنیا کی رسوائی اور آخرت کی بربادی لے
کر جہان فانی سے کوچ کر گئے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روئے
زمین پر صرف دین اسلام ہی ایسا عظیم مذہب ہے جس نے زمین پر موجود تمام بنی
نوح انسان کے حقوق کا تعین کرتے ہوئے ان کی ادائیگی کے لیے سختی سے تاکید
کی جس میں خاص طور پردور جہالت کی پسی ہوئی مخلوق (عورت) کو ایسا معتبر
مقام عطا کیا جس کا دور جہالت میں تصور کرنا بھی ممکن نہیں تھااس عظیم مذہب
نے دنیا کے سامنے عورت کی حیثیت کو اجاگر کرنے کے لیے اس کے ہر روپ کو
نہایت ہی خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہوئے اس کو ما ں ہونے کی صورت میں
اولاد کے لیے جنت کا ضامن بنادیا تو دوسری طرف بیٹی کے روپ میں گھر کے لیے
رحمت قرار دیا آگے چل کر اسکو بیوی کی شکل میں خاوند کے لیے راحت کا ساماں
بنا دیا دین اسلام نے خواتین کے مقام کی وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے
حقوق کو ہر صورت میں ادا کرنے کی سختی سے تاکید کی ہے جس کے بارے میں حق
باری تعالی نے فرمایا کہ عورتوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو اور ان کے حقوق کا
خیال رکھو اور ان کو جائیداد میں پورا پورا حصہ دو بے شک دین اسلام ایک
مکمل ضابطہ حیات جس میں ہر ایک کے مقام کی تشریح کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو
حکم ربی پر عمل پیرا ہونے کی تاکید بھی کی گئی ہے اسی تناظر میں اسلا م میں
عورت کے مقام کی اہمیت کو اجاگر اور ان کے حقوق کی ادائیگی پر ذور دینے کے
ساتھ ساتھ خواتین کو اﷲ رب العزت کے احکام پر عمل کرنے، پاک دامن رہنے اور
شرم وحیا کو برقرار رکھنے کے لیے واضح ہدایات کرتے ہوئے نظر آتا ہے جس کے
بارے میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
(اے عورتوں اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھو اور اس کی نمائش مت کرو)
اسلام میں عورت کے پردے کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے جس کے بارے میں قرآن مجید
فرقان حمید کے علاوہ کئی احادیث مبارکہ موجود ہیں جن پر عمل کرکے ہی خواتین
اپنی حرمت اور اسلام میں دیے گئے خاص مقام کو بحال رکھ سکتی ہیں اس سارے
عمل میں ہمارے معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا جس میں خاص طور پر
عورت کو اسلام میں دیے گئے مقام کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کے علاوہ ان کے
جائز حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنانا ہوگا بدقسمتی سے آج کے ترقی یافتہ دور
میں بھی بہت سارے معزز گھرانوں میں جائیداد ہتھیانے کی خاطر عورتوں کوشادی
جیسے مقدس رشتے سے محروم رکھنے کے علاوہ ان کے حقوق کو غصب کرنے کے لیے قتل
تک کر دیا جاتا ہے جو اسلامی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے حالات کی
ستم ضریفی دیکھیں گھر اور خاندان کے بعد اکثر خواتین معاشرے کی بے حسی کا
شکار ہوتی نظر آتی ہیں جس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ کئی معزز گھرانوں کی
پڑھی لکھی،سمجھدار، باعزت اور باکردار خواتین جہیز جیسی لعنت نہ ہونے کی
وجہ سے گھروں میں بیٹھے بیٹھے شادی کی عمر گذار دیتی ہیں پاکستان کو حقیقی
فلاحی ریاست اور معاشرے کے اسلامی تشخص کو اصل صورت میں بحال کرے کے لیے
معاشرے میں موجود ہر طبقے کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی تب ہی ہم اپنے
آپ کو دنیا کے سامنے ایک باوقار قوم کے طور پر متعارف کروا سکتے ہیں
|