تحفہ کی حفاظت

جو چیز قیمتی ہوتی ہے اسے پردوں میں چھپا کر اور دوری پر رکھا جاتا ہے،اس کی سرِ عام نمائش نہیں کی جاتی تا کہ اس کی اہمیت برقرار رہے ۔یہ بات انسان کے ساتھ بھی ہے اور قدرتی عطاؤں کے ساتھ بھی ہے ۔ ملکی خزانے کو ہمیشہ چھپا کر محفوظ مقام پر رکھا جاتا ہے ۔اس کائنات میں اﷲ تعالی نے اپنے عطا ئی خزانے زمین کی تہوں میں چھپا کر رکھ دئے ہیں جھنیں سائنس دریافت کرنے کا کارنامہ سر انجام دے رہی ہے اور جس سے انسا نیت اپنے ارتقاء کی مزید منز لیں طے کر رہی ہے ۔سائنس ابھی تک اس بات کا کما حقہ اندازہ نہیں کر پائی کہ زمین کی تہہ میں کتنے قیمتی ذخائر موجود ہیں جو انسان کی فلا ح و بہبود اور اس کی نجات کیلئے استعمال میں لائے جا ئیں تو انسانیت اس سے فیض یاب ہوسکتی ہے۔ ابھی تک تو انسان اس دنیا میں تمام جڑی بوٹیوں کا علم بھی حاصل نہیں کر پایاچہ جائیکہ وہ سب خزانوں کا عالم بن جائے۔آئے دن سائنسی انکشاف ہو تا رہتا ہے کہ فلاح جڑی بوٹی میں فلاں بیماری کا علاج موجود ہے اور یہ سلسلہ آخری انسان تک ایسے ہی چلتے رہنا ہے کیونکہ سارا علم ایک دن میں تھوڑا حاصل ہو جاتا ہے۔قیمتی دھاتیں ،گیسیں ، پانی ،سونا چاندی،کوئلہ ،پٹرول، ڈیزل،لعل و زرو جواہر اور کئی نایاب اشیاء سائنسی توجہ کی منتظر ہیں۔نجانے یہ عقدہ کب کھلے گا کہ کائنات نے زمین کی تہوں میں کیا کچھ چھپا کر رکھ دیا ہے۔ بقولِ اقبال۔،۔
( یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شائد ۔،۔، کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون )

انسان آزادی اور حریت کا طالب ہے،وہ پابندیوں اور زنجیروں میں جینا نہیں چاہتا لیکن کبھی کبھی یہ پابندیاں اس کے ارتقاء کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔اگر انسان پر پابندیوں کا نفاذ نہ کیا جائے تو معاشرہ جنگل کا منظر پیش کرنے لگ جائے ۔ عورت کیلئے پردہ کا حکم بھی اسی تناظر میں دیا گیا ہے۔عورت اس کائنات کا سب سے حسین تحفہ ہے لہذا اس کی حفاظت، اس کی حرمت، اور اس کا تقدس مرد کی ذمہ داری قرار پائی ہے ۔ اس کے معنی عورت کی آزادی سلب کرنا نہیں اور نہ ہی اسے غلام بنا کر دیواروں میں قید کرنا ہے ۔بلکہ عورت کو احساس دلانا ہے کہ وہ کتنی اہم ،نا گزیر،نازک اور بیش قیمت ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کی جہت سے عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے تو کوئی اس بات پر معترض نہیں کہ عورت دفاتر میں کام کیوں کرتی ہے؟ ہاں اگرعورت سمجھتی ہے کہ اس سے اس کا گھر ،کنبہ اور خاندان متاثر نہیں ہوتے تواہلاَ و سہلاَ ۔ ۔ بچوں کی تربیت اور ان کی نگہداشت عورت کی پہلی ذمہ داری ہے اور اگر وہ اس ذمہ داری کو دفتر ی مصروفیت میں بھی جاری رکھ سکتی ہے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ دونوں ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہونا عورت کیلئے انتہائی مشکل ہے ۔ عورت کا اصلی مقام اپنے بچوں کی تربیت کرنا ہے اورسارا دن دفتر میں گزارنے کے بعد وہ اپنے بچوں کو وقت نہیں دے سکتی جس سے بہت سے معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔نوکری پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن دورانِ سروس گھراور بچوں کو کس کے حوالے کیا جائے گا ؟یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کیونکہ اسی سے معاشرے کی سمت جڑی ہوئی ہے ۔ عورت کی گود میں ایک قوم پرورش پا تی ہے جسے بھاگتے بھاگتے اور دوڑتے دوڑتے تو تربیت نہیں دی جا سکتی،بہر حال فیصلہ اسی کو کرنا ہے ۔گھریلو حالات سازگار ہوں تو نوکری نہیں تو بچوں کی تربیت و نگہداشت۔۔بقولِ اقبال ۔۔
(صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بگِل بھی ہے۔،۔ انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کوتو کر لے )

ہمارے ہاں مغرب کی نقالی کا ایک ماحول بنا ہوا ہے،جو کچھ وہاں ہو تا ہے اسے ہمارے ہاں بھی مستعمل کر لیا جاتا ہے۔یورپ کا اپنا سماج ہے ،اپنی رسمیں ہیں،اپنی سوچ ہے،اپنی فکر ہے اور اپنا طرزِ عمل ہے جو ہمار ے معاشرے سے قطعا مطا بقت نہیں رکھتا۔مغرب میں دوستیاں ہیں ، فرینڈ شپ ہے اور باہمی رضامندی سے شب گزاری کا چلن ہے جبکہ کسی بھی اسلامی ملک میں اس کی اجازت نہیں ہے کیونکہ یہ تو کھلی ہوئی بے حیائی، فحا شی اور بدکاری ہے۔جوان مرد اور عورت کا ایک ہی کمرے میں رات گزارنا ، دوست بن کر رہنا اور پھر پاک صاف رہنے کا دعوی کرنا ناممکنات میں سے ہے۔اسی لئے اسلام نے اس پر قدغن لگائی ہوئی ہے۔اﷲ تعلای نے کسی مرد کو غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ملنے کی قطعا کوئی اجازت نہیں دی کیونکہ اس سے فتنہ اور فتور پیدا ہونے کا احتمال ہو تا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عورت اور مرد کبھی ایک دوسرے کے دوست نہیں ہوتے بلکہ ان کے درمیان احترام اور عزت کا رشتہ ہوتا ہے۔یہ رشتہ خفیہ ٹھکانوں گیسٹ ہاؤسوں اور ہوٹلوں میں ملاقاتوں کی اجازت مرحمت نہیں فرماتا اور نہ ہی تنہائی میں شب بسری کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان دوستی جیسی کسی شہ کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اس میں رشتوں کا ذکر اور احترام ہے۔وہ رشتے جو محرم ہیں اور جن کا اعلان خود ربِ کعبہ نے کر رکھا ہے۔اسلام کی قائم کردہ حدود کو ملیا میٹ کرنا اور پھر اپنی پسند سے نئے ضابطے تشکیل دینے کی اسلام میں اجازت نہیں ہے ۔ یورپ کی نقالی میں اسلامی اقدار کی پامالی کی کسی بھی صورت میں گنجائش نہیں۔بقولِ اقبال۔،۔
(خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہِ دانشِ افرنگ ۔ ، ۔ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِ مدینہ و نجف) ۔

پاکستان کی انتہائی قابلِ فخر بیٹی ملالہ یوسف زئی نے بھی کچھ روز قبل اپنے بیان میں شادی کی بجائے دوستیوں اور فریند شپ کی بات کی ہے ۔ ملالہ یوسف زئی ہمارے لئے انتہائی قابلِ احترام ہیں لیکن انھیں وہ بات کہنے کا حق نہیں ہے جس کا انھیں کما حقہ علم نہیں ہے ۔وہ نوبل انعام یافتہ ضرور ہیں لیکن یہ کام علماء کرام کا ہے کہ وہ ہمیں بتائیں کہ دینی احکامات کیا ہیں اور دین کی اساس کیا ہے؟یورپ نے دوستیوں اور تنہائی میں باہم یکجا رہنے کی جو سزا پائی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔بن پاپ کے بچوں کی ایک ایسی لمبی فہرست ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ وہاں عزت و عفت کی چادر جس بری طرح داغدا ہورہی ہے اس کیلئے میرے پاس الفاظ بھی نہیں ہیں۔عورت اور مرد آگ اور پٹرول کی مانند ہیں۔یہ جہاں بھی تنہائی میں ملیں گے جنسی خواہش کی آگ پٹرول کی موجودگی سے اور بھی تیز تر ہو جائے گی۔اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔گاڑی کا انجن پٹرول کے شعلہ سے چلتا ہے۔مناسب مقام،اور اصول و ضوابط سے رکھا گیا وہی پٹرول گاڑی کو چلانے کا موجب ہو تا ہے لیکن اگر اسی گاڑی کی چھت پر پٹرول چھڑک کر اسے شعلہ دکھایا جائے تو گاڑی جل کر خاک ہو جائے گی ۔ یہی کیفیت مرد اور عورت کی ہے ۔اگر انھیں شترِ بے مہار چھوڑ دیا جائے تو اس سے انسانی حرمت پامال ہو جائے گی۔اس سے بچنے کیلئے اسلام میں پردہ،محرم اور نکاح کی رسم رکھی گئی ہے۔عورت کیلئے مرد اور مرد کیلئے عورت ناگزیر ہے جو کہ شادی سے قبل رات کی تنہائیوں میں جنسی آگ بجھانے کیلئے نہیں بلکہ انتہائی عزت و آبرو سے نکاح کے بندھن میں بندھ جانے کی پابندی سے مشروط ہے۔نکاح کا انعام نئے گھر ، نئے رشتوں اور اولاد کی صورت میں سامنے آتا ہے جو انسانی خوشیوں کو دوبالا کر دیتا ہے ۔یورپ اس تصور سے دور بھاگ رہا ہے اور ساتھ میں ہمارے گلے میں رسی ڈال کر ہمیں بھی گھسیٹنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ کم علم، شوریدہ صفت اور جنسی کشش کے مارے انسان اس کے فریب کا شکار ہو کر اپنی دنیا اور عاقبت دونوں تباہ کر رہے ہیں ۔معاشرہ ایسے ناسوروں کی وجہ سے تباہی کی جانب گامزن ہے ۔اس کو بچانا ہے تو اسلام کے سنہرے اصولوں کے دامن میں پناہ لینی ہو گی کیونکہ اسی میں شرم و حیاء اور عزت کا سامان پوشیدہ ہے۔،
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.