کیش اور کلیش

 انسانیت کے سینے میں دل دھڑک رہا ہے کیونکہ ابھی دنیا زندہ ضمیر انسانوں سے پوری طرح خالی نہیں ہوئی تاہم عہد حاضرمیں کسی ریاست کومہذب نہیں کہا جاسکتا۔امریکا اوربرطانیہ سمیت ہر وہ ملک جومہذب ہونے کاڈھونگ رچاتا ہے ،دنیا کی متعدد سماجی،سیاسی اورمعاشی برائیوں کے ڈانڈے اُس سے جاملتے ہیں۔پاکستان اوربھارت کی طرح وہاں بھی "اصولی" نہیں بلکہ "وصولی"والی سیاست کادور دورہ ہے، چین کے ساتھ دوستی کادم بھرنے اوراس سے حسد کرنیوالے ملک چینی قیادت کی طرح کرپشن میں ملوث قومی چوروں کیلئے سزائے موت کیوں مقرر نہیں کرتے۔ہمسایہ ملک چین کی قابل رشک تعمیروترقی کاراز کرپشن کیخلاف بے رحم آپریشن میں پنہاں ہے، پاکستان کی طرح چین میں کوئی چور سیاسی انتقام کاشورنہیں مچاتا ۔امریکا سمیت مغربی ملکوں کے حکمران بظاہرکرپشن نہیں کرتے لیکن دنیا کے ترقی پزیرملکوں میں نوازشریف اور نریندرمودی سمیت بدعنوان عناصر کوان کابھرپورآشیرباد حاصل ہے ۔پاکستان اوربھارت سمیت متعدد پسماندہ ملکوں کے بدعنوان عناصر کا خطیرسرمایہ برطانیہ اور یورپ" استعمال" اوراس" زر" کے "زور"پر ہمارابدترین معاشی"استحصال "کرتے ہیں ۔ کون کہتا ہے مغرب جھوٹ نہیں بولتا ۔کون کہتا ہے وہ انسانیت پرجان چھڑکتے ہیں۔کون کہتاہے وہاں بچے اورخواتین جنسی درندگی سے محفوظ ہیں۔کون کہتا ہے وہ انسانیت کے نام پربیگناہ انسانوں کے خون سے ہولی نہیں کھیلتے۔تاریخ کے اوراق پلٹیں توجوکشت وخون انہوں نے کیا بلکہ آج بھی کررہے ہیں کوئی دوسرا خطہ اس خونریزی اورآبروریزی کاتصور بھی نہیں کرسکتا ۔تاریخ شاہد ہے مسلمان اپنے نظریات ، دفاع اوراپنی بقاء کیلئے جہاد کیاکرتے تھے جبکہ امریکا اوربرطانیہ نے ہمیشہ دوسروں کے وسائل ہڑپ کرنے کیلئے ریاستی خودمختاری کوروندااوروہاں کئی ملین بیگناہ انسانوں کاخون بہایا ۔

9/11 ہرسال آئے گالیکن امریکا نے حالیہ دودہائیوں میں جوکچھ گنوادیا وہ دوبارہ اُس کے ہاتھ نہیں آئے گا۔9/11واقعہ کے سلسلہ میں دنیا کی سچائی تک رسائی کے بعدرُسوائی نے امریکا کی جان نہیں چھوڑی ۔سنا ہے امریکا کی اسٹیبلشمنٹ بہت دوراندیش ہے لیکن میں کہتاہوں وہ اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتی ورنہ آج امریکا کی حالت زار اس قدر ابترجبکہ اس کی معاشرت ومعیشت آئی سی یو میں نہ ہوتی،کابل ائیرپورٹ پرہونیوالے بم دھماکے سے انسانوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع پر دنیا کاہرباضمیر رنجید ہ ہے لیکن جوبائیڈن کاجھکا ہوا سر اوراس کی آنکھوں سے چھلکتا پانی عنقریب رونماہونیوالے واقعات کی ترجمانی کررہا ہے ۔زخموں سے چور امریکا آج بھی خودکوجہاں دیکھتا ہے اب دنیا کے متعدد ملک اُسے وہاں نہیں دیکھتے،اسے درپیش صورتحال" مکافات " کا شاخسانہ ہے۔ امریکاایک زخم خوردہ اورشکست خوردہ ریاست ہے، وہاں جوبھی اقتدار میں آیااس نے خود "وبال" اور"زوال" کودعوت دی۔امریکا کے چہرے پرانسانیت کے خون کے چھینٹوں کوجوبائیڈن سمیت مستقبل کاکوئی منتخب صدر صاف نہیں کرسکتا۔ 2001ء اور 2021 ء کے امریکا میں زمین آسمان کافرق ہے، حالیہ دودوہائیوں میں امریکا نے اپنی خوداعتمادی اورخودداری سمیت بہت کچھ گنوادیا۔افریقہ معاشی طورپرجبکہ امریکا اخلاقی طورپرپسماندہ ہے ، امریکا نے معاشیات کیلئے اپنے ہاتھوں سے اخلاقیات کادامن چھوڑدیا۔ کئی بارپینٹاگون کا اپنے ہاتھوں سے بچھایا ہوا جال ا مریکاکی اپنی گردن کیلئے پھندا بنا لیکن اس کے باوجود پینٹاگون میں بیٹھ کردوسروں کی قسمت کے فیصلے کرنیوالے کوتاہ اندیش لوگ امریکا کی ناکامی اوربدنامی کا نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں۔

امریکا ضرورت نہیں بلکہ اپنی فطرت کے تحت جھوٹ بولتا ہے ، عراق میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کابلندبانگ دعویٰ جھوٹ پرمبنی تھا جبکہ اِن کیمیکل ویپنز کی تلاش کے نام پر عراق کابیڑا غرق کردیا گیا،آج یقینا اہل عراق کواپنے نڈرصدراور محافظ صدام حسین شدت سے یادآتے ہوں گے۔ 9/11کاواقعہ بھی خودساختہ اورافغانستان پرشب خون مارنے کابہانہ تھا ، امریکا نے قدم قدم پراپنے قومی اورعالمی ضمیر کوگمراہ کیا،امریکا کی اسٹیبلشمنٹ اپنے ہم وطنوں کواندھیرے میں رکھتی ہے ۔ افغان طالبان کے ہاتھوں ملی ہزیمت کے بعد پینٹاگون اب مزید عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا ۔پاکستان اورچین سمیت دنیا کاکوئی ملک امریکا پراعتباراوراعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ۔امریکا بھی اس چالاک لومڑی کی مانند ہے جس نے انگوروں تک رسائی نہ ملنے پرکہا تھا "انگورکھٹے ہیں " ۔امریکا اس بزدل ریاست کی طرح ہے جہاں اس کیلئے دشمن آسان ہدف ہو وہاں وہ خود کو"وار" میں جھونک دیتا ہے اورجہاں میدان میں اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تووہاں وہ اپنے انتقام کی آگ بجھانے کیلئے اسے بدنام کرنے کیلئے بلیم گیم یعنی "میڈیاوار" شروع کردیتا ہے۔ چین بھی دنیا کے اُن چندملکوں میں سے ایک ہے جس کاہتھیاروں سے مقابلہ کرنا امریکا کے بس کی بات نہیں لہٰذاء امریکا اوراس کے اتحادی چین کی ساکھ کو پوری طرح راکھ کاڈھیر بنانے کیلئے ہرطرح سے سازشیں اورمتنازعہ تھیوریاں پیش کررہے ہیں۔نام نہاد سپرپاورامریکا کی اسٹیبلشمنٹ نے افغان طالبان کے ہاتھوں ملنے والی خفت مٹانے کیلئے ایک بار پھر اپنی توپوں کارخ چینی قوم کی طرف موڑدیا ہے،سنا ہے جوامریکا افغانوں کی اشک شوئی کرنے کی نیت سے افغانستان میں آیا تھا وہ دودہائیوں بعدوہاں سے اپنے آنسو اور اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے رخصت ہو گیا،اس نے راہ فراراختیار کرتے ہوئے اپنا بہت بیش قیمت سازوسامان اورجدیدہتھیاروں کاانبار بھی وہیں چھوڑدیا۔افغانستان سے شرمناک پسپائی کے بعداب امریکا کاایک پرانا درد اسے پھر سے مضطرب اورمشتعل کررہاہے ۔ریاست چین کے اندرسیاسی ومعاشی استحکام، پائیدارامن اورفطری سکھ چین امریکا کی متعصب آنکھوں میں چبھتا اورکھٹکتاہے۔کوروناوائرس کے مبینہ Origins کوبنیادبناتے ہوئے امریکا نے ایک بار پھر چین پردباؤڈالنا شروع کردیا ہے لیکن چینی قیادت کے اعصاب اورارادے کسی چٹان سے زیادہ مضبوط ہیں ۔امریکا نے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت چین کو 2019ء میں منظرعام پرآنیوالے کوروناوائرس کاOrigins قرارد یا لیکن میں سمجھتاہوں پینٹاگون کایہ متعصبانہ رویہ اورعاقبت نااندیشانہ پروپیگنڈا درحقیقت جھوٹ کاپلندا ہے۔اگرکچھ دیر کیلئے فرض کرلیاجائے کوروناوائرس کسی حیوان نما انسان کی شیطانی سوچ کی کارستانی ہے تواس کاچین سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا کیونکہ چینی قیادت اپنے ہم وطنوں کی زندگیاں ہرگز داؤپرنہیں لگاسکتی ۔ بنیادی طورپرامریکا سچ نہیں بولتا ،دوسرا چین کے ساتھ اس کی دیرینہ عداوت اورمجرمانہ منافقت کسی سے پوشیدہ نہیں لہٰذا ء کوروناوائرس کےOrigins کے سلسلہ میں اس کی چارج شیٹ کودنیا کاہرباشعور فرد مسترد کردے گا ۔

ہمارے داناوبینا،دوراندیش اوردرویش سیاستدان سینیٹر مشاہد حسین سیّدپچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے دیرینہ اورمخلص دوست چین کی منتخب سیاسی قیادت اورقوم کی استدلال اورعزم واستقلال کے ساتھ وکالت کررہے ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سیّد کی اپنے محبوب وطن پاکستان اور عزیزترین دوست چین کیلئے ایک ساتھ کامیاب سفارت کاری دشمنوں کے مذموم عزائم پرضرب کاری ہے ۔پاکستانیوں کی اپنے چینی ہمسایوں کے ساتھ دوستی سودوزیاں سے بے نیاز ہے، وہ چینی قیادت اورقوم کیخلاف کوئی منفی بات سننے اور برداشت کر نے کیلئے تیار نہیں۔ صاحب فہم وفراست سینیٹر کامل علی آغا،پنجاب کے انتھک اوربلنداقبال صوبائی وزیرصنعت وتجارت میاں اسلم اقبال، ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی صدر اورہم وطنوں کے محبوب ومقبول کالم نگار مظہربرلاس ، دانشمند اوردانشور مصطفی ایچ سیّد ، قلم قبیلے کے ہردلعزیز شعیب بن عزیز ، ماہرمعدنیات وسیاسیات میاں محمدسعید کھوکھر اورپاکستان میں چینی قوم کے اعزازی سفیر برائے سلک روٹ عامر علی عامر بھی پاک چین دوستی کوسیراب کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے،یہ احباب ہم وطنوں اورچینی عوام کے درمیان پائیدار پل کاکرداراداکررہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں چینی عوام فطری طورپرامن پسند اورانسانیت کے حامی ہیں، وہ انسانیت کوہرگزکسی مصیبت یاامتحان میں نہیں ڈال سکتے۔کورونا وائرس سے متاثر ہونے اوراس پرریکارڈ مدت میں قابوپانے والے ملکوں کی فہرست میں چین کانام اور کام سرفہرست ہے کیونکہ چینی ایک مضبوط، متحد،مستعد اورمنظم قوم ہیں۔انہیں اپنے انفرادی اوراجتماعی کام مربوط انداز سے کرنے کی عادت ہے۔چین کی بیدارقوم کواپنی فرض شناس اورنبض شناس قیادت پربھرپوراعتماد ہے۔انتھک چینی کسی سے حسد نہیں کرتے ،چینی قیادت کی داخلی ،خارجی ،انتظامی ،سماجی ،سیاسی ،سفارتی اورمعاشی ترجیحات بہت واضح ہیں۔وہ دوسروں کاراستہ روکنے کیلئے اپنے وقت اور وسائل کاضیاع نہیں کرتے بلکہ بحیثیت قوم ان کی" دانائی" اور ہرایک" توانائی "ریاست کے دوام اور معاشی استحکام کیلئے وقف ہے ۔امریکا کی طرح چین دوسروں کے داخلی معاملات میں بیجامداخلت اور کسی کیخلاف جارحیت کاارتکاب نہیں کرتا۔امریکا دوسروں کے وسائل پرانحصار اورا نہیں ہتھیانے کیلئے جارحیت کرتا ہے جبکہ چین نے اپنے زوربازو کے بل پر اپنا مستقبل روشن کیا۔چینی قوم اورقیادت" خودداری" کامظاہرہ کرتے ہوئے" خودانحصاری" کی منزل تک جاپہنچی۔چینی ہم وطنوں کی غیرتمند ی،جرأتمندی اورہنرمندی کاکریڈٹ ان کے نجات دہندہ چیئرمین ماؤزے تنگ اور شی جن پنگ کوجاتا ہے۔چینی عوام اپنی تعلیم ،ریاستی تعمیر اوراپنے خوابوں کی تعبیر پرسمجھوتہ نہیں کرتے ۔ماؤزے تنگ کے نقش قدم پرچلتے ہوئے زیرک چینی صدر شی جن پنگ نے دوسروں کے ساتھ" clash "کی بجائے اپنوں اوراپنے قومی"cash"پر فوکس کرتے ہوئے اپنے ملک عزیز چین کودنیا کی ایک ممتاز معاشی اوردفاعی طاقت بنادیا،آج چین صنعت وتجارت کابے تاج بادشاہ ہے۔ امریکا چاہے بھی توچین کی" برابری" نہیں کرسکتا لہٰذاء "بردباری" کامظاہرہ کرتے ہوئے سی پیک کی تعمیروتکمیل میں روڑے اٹکاناجبکہ انڈیا اوراسرائیل کی سرپرستی کرنا چھوڑدے۔امریکا کی روش میں تعمیری تبدیلی اس کے تازہ زخم پرمرہم کاکام کرے گی ۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.