دمکتے ہندوستان کی حقیقت

تحریر: مراد مقصود

عقل مند کہتے ہیں کہ انسانوں کوہمیشہ نہ تو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے اور نہ گمراہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ آخر کار سچائی دنیا کے سامنے عیاں ہوکر رہتی ہے ۔ہندوستانی حکمران دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا راگ الاپتے نہیں تھکتے مگر کئی واقعات و سانحات ایسے بھی ہیں جنہوں نے اقوام ِ عالم کی سب سے بڑی ظاہری شان وشو کت والی جمہوریت پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار دکھاوے کے لیے انسان دوستی ، جمہوریت پرستی ،امن دوستی اورباہمی ہم آہنگی کاپرچار کرتے ہیں مگر اپنے ذاتی مفادکی خاطرہندوستان میں آبادمسلمانوں اور پاکستان سے ازلی خبث ِباطن کو فرضِ عین سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں ہندوستان کی تنگ نظری اورجمہوریت کی حقیقت کھل کر دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ہندوستانی جمہوریت کو داغدار کرنے والے چندتاریخی حقائق پیش خدمت ہیں۔

ایشیائی پکاسو مقبول فدا حسین جب ہندوستان میں مقیم تھے تو انتہا پسندہندو تنظیموں نے ان کی پینٹنگز کی نمائشوں پر حملے کئے،انہیں دھمکیاں دیں۔ ان کے خلاف پورے ملک میں ایک باضابطہ مہم کے تحت سینکڑوں مقدمے دائر کیے گئے۔بالآخر برصغیر کے اس عظیم مصّور کوجب اپنا ملک چھوڑنا پڑاتودنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا ڈنکا پیٹنے والی حکومت ِہند آزادیِ اظہار کی شکست کا تماشہ دیکھتی رہی۔یہ بھارت کے اعتدال پسندوں کے منہ پر ایک طمانچہ تھا۔ایم ایف حسین دل میں وطن واپسی کی آرزو لیے گذشتہ دنوں جلا وطنی میں ہی دنیا سے چل بسے۔ ان کی موت ہندوستان کی رواداری، جمہوری قدروں کی شکست و ریخت کی علامت اور تنگ نظری کی فتح کی عکاس ہے۔ سابق وزیرخارجہ جسونت سنگھ کو اپنی کتاب ”جناح، ہندوستان،تقسیم ،آزادی “میں جناح کو ایک عظیم قوم پرست ہندوستانی اورالگ ملک کی جدوجہد کی وجہ کانگریسی رہنماؤں کے رویے کو قرار دینا تھا کہ انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پارٹی سے نکال دیا گیا۔چند برس قبل معروف مصنف خشونت سنگھ نے ایک ادبی سیمینار میں رابندر ناتھ ٹیگور کی انگریزی زبان کی کم فہمی پر کچھ تنقیدی جملے کہے تو ان پر اتنی شدید نکتہ چینی ہوئی کہ انہیں معافی مانگنی پڑی۔گاندھی جی کی زندگی کے ذاتی پہلوؤں پر کچھ کہنا اورلکھنا شجر ممنوعہ ہے۔حتیٰ کہ مصّوروں کواپنے کسی تصور کو فن پارے کا روپ دینے سے قبل کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔مذہبی انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ دسمبر 1992ءکو انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کیا جس کے بعدہندوستانی تاریخ کے بدترین ہندومسلم فسادات میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے ۔گودھرا اور گجرات کے واقعات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی جبکہ کشمیر میں ہندوستانی افواج کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے ردعمل کو مسلم انتہا پسندی کا نام دینے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ۔

پاکستان سے ہندوستانی خبث ِ باطن کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ہاں ہونے والی ہر دہشتگردانہ کاروائی کی ذمہ داری پاکستان کے سر ڈال کر دنیا کے سامنے سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔فروری 2007 ءمیں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کے چند دن بعدہندوستان نے پاکستان پر الزام تراشی کی ایک مہم شروع کر دی اور اس حقیقت کو یکسر فراموش کر دیا کہ ان کی اپنی ریاست ہریانہ کی پولیس نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا تھا کہ حملہ آور ہندی میں گفتگو کر رہے تھے ۔ یہ حقیت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ ہندوستان میں سمجھوتہ ایکسپریس سمیت اکثر بم دھماکے ہندو انتہا پسندوں نے منظم اور مربوط انداز میں کئے اور اس سلسلے میں انہیں ریاستی مشینری کی مکمل مدد حاصل رہی ۔ ہندوستان انتہائی مہارت اور چالاکی سے اندرون ملک پنپنے والی دہشتگردی پر پردہ ڈال کران کا الزام پاکستان پرڈالتا چلا آرہا ہے۔ جبکہ ہندوستان کی ہندوانتہا پسند وں سے ہمدردی کا یہ عالم ہے کہ کرنل سری کانت پرسمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں ملوث ہونے کا جرم نومبر 2008ءمیں ثابت ہو ا لیکن حکومت ِہند نے اسے کوئی بڑی بات نہ سمجھتے ہوئے معاملے کو لٹکائے رکھااور مناسب وقت کا انتظار کرتے رہے جب وہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ دباؤ میں لاسکے۔

یاد رہے کہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس اس وقت رونما ہوا جب پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بھارتی حکام سے ملاقات کے لیے اگلے روز دہلی پہنچنے والے تھے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے تین سال سے جاری امن مذاکرات کے عمل کو بہتر بنایا جاسکے۔اس وقت شدید دباؤ کے باوجودحکومت پاکستان نے حملے کی مکمل تفتیش اور امن عمل کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔اس کے برعکس ہندوستان نے نومبر 2008ءمیں ممبئی پر دہشتگردانہ حملہ ہوتے ہی بغیر کسی ثبوت کے الزام پاکستان پر لگا دیااورا من مذاکرات کو معطل کر دیا۔ ساتھ ہی پورے عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسی چیخ و پکار کی کہ اسے مسئلہ کشمیر سے زیادہ اہم بنا دیا گیا۔ 2007ءمیں ہونے والے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں 68 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 42پاکستانی تھے۔ واقعے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی مسافرین کو معاوضہ ادا کر نا ہندوستانی حکومت کی ذمہ داری تھی مگر ماسوائے ایک پاکستانی خاندان کے ہلاک ہونے والے پانچ بچوں کے اہل خانہ کو جنہیں 22جنوری 2011ءکواسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے توسط سے رقم کی ادائیگی متوقع تھی مگر انہیں رقم کی ادائیگی اوربقایا پاکستانی متاثرین کومعاوضے کی ادائیگی کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں ۔

پاکستان مسلسل سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتا رہا مگر دوسری جانب ہندوستان انتہا پسندہندوؤں کے خلاف ثبوت ہونے کے باوجود کاروائی سے گریزاں رہا۔اب جبکہ سیکریٹری خارجہ سطح کے مذاکرات جو 23-24جون کو اسلام آباد میں ہوئے اس سے کچھ روز قبل سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میںملوث 5ہندو انتہا پسندوں کے خلاف خصوصی عدالت میںفردِ جرم عائدکی گئی جو یقینا اچھا قدم ہے ۔تاہم یہ امید کہ انہیں کڑی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا ایک خواب لگتا ہے کیونکہ بھارتی میڈیا کے مطابق سیکریٹری خارجہ مذاکرات سے قبل فرد جرم عائد کرنے کا مقصد پاکستان پر ممبئی حملوں میں ملوث افراد کیخلاف کاروائی کے لیے زور ڈالنا ہے۔فردِجرم کے اس نئے کھیل سے جہاں دنیا میں یہ تاثر عام ہوا ہے کہ ہندوستان پاکستان سے امن مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے وہاں اسے یہ موقع بھی میسر آگیا ہے کہ پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ہندوستان جب ممبئی دہشتگردانہ حملوں میں ملوث عناصر کو عبرتناک سزاکی بات کرتا ہے تواسے سمجھوتہ ایکسپریس میںملوث انتہا پسند ہندوؤں کو کڑی سزا دے کر مثال قائم کرنی چاہیے۔

ہندوستانی تاریخ کے یہ چند حقائق ہیں جس کے بعد کسی کو بھی یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہو نی چاہیے کہ ہندوستانی جمہوریت صرف ایک ڈھونگ ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک،انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، آرٹ،ادب ،مذہب میں تنگ نظری،ہندوانتہاپسندی،پاکستان دشمنی،غربت کی وجہ سے اخلاقی پستی ہندوستانی معاشرے میں بُری طرح سرائیت کر چکی ہے۔
Hafiz Mansoor Jagiot
About the Author: Hafiz Mansoor Jagiot Read More Articles by Hafiz Mansoor Jagiot: 17 Articles with 16808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.