وزیر صحت انصر ابدالی کا چیلنج

باشعور معاشرے کی جمہوری سیاسی پارٹیاں دوران الیکشن ڈٹ کر ایک دوسرے کا مقابلہ کرتی ہیں لیکن جیتنے والی پارٹی جب حکومت بناتی ہے تو وہ صرف اپنی پارٹی نہیں بلکہ پوری ریاست اور قوم کی نمائندگی کرتی ہے۔ حزب اختلاف کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے اچھے کاموں میں تعاون اور غلط کاموں کو روکے۔ ہمارے ہاں دیکھا گیا کہ الیکشن تو پارٹیوں کے ہوتے ہیں لیکن اصل مقابلہ قبائل کا ہوتایے۔ آزاد کشمیر میں شروع میں مسلم کانفرنس ہی ایک بڑی سیاسی قوت تھی جس سے میرپور کی جاٹ برادری کے چوہدری نور حسین والد موجودہ صدر سلطان محمود چوہدری نے اختلاف کر کے آزاد مسلم کانفرنس بنائی مگر وہ جاٹ برادری تک ہی محدود رہی۔ مسلم کانفرنس کے رہنما سردار محمد عبدالقیوم خان کے ساتھ شخصی ٹکرائو کے نتیجے میں آزاد کشمیر پیپلز پارٹی نے بھی سردار ابرائیم خان کی قیادت میں جنم لیا۔ پھر اس کے اندر اختلاف شروع ہوئے تو سردار ابرائیم خان نے جموں کشمیر پیپلز پارٹی بنا لی۔ بیرسٹر سلطان محمود کی وزارت اعظمی کے دوران پیپلز پارٹی ایک بار پھر اختلاف کا شکار ہوئی تو سلطان محمود نے ایک الگ پارٹی بنا لی ۔ مسلم کانفرنس کی بھاری اکثریت ایک بار پھر تقسیم کا شکار ہو کر پاکستان مسلم لیگ میں چلی گئی اور اب مسلم کانفرنس جس نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے الحاق پاکستان کی شق کا سہارا لیا وہ سکڑ کا سردار عتیق احمد خان کی ایک اسمبلی سیٹ تک محدود ہو گئی ہے اور یہ سیٹ بھی شاید ملٹری ڈیموکریسی کے نعرے کی مرہون منت یے۔ اس طرح آزاد کشمیر جسے کسی نے بیس کیمپ قرار دیا تھا اور جہاں ایک سیاسی پارٹی ہی کافی تھی وہ اقتدار کی رسہ کشی کا شکار ہو کر غیر ریاستی سیاسی نظام کے تابع ہو گئی۔ اب تو کسی کو یاد بھی نہیں کہ آزاد کشمیر کے قیام کا اعلامیہ کیا تھا۔ اب صرف اقتدار کی جنگ ہے جس سے ایک اور پاکستانی جماعت پی ٹی آئی نے جنم لے کر آزاد کشمیر میں حکومت بنائی ہے۔ اس کے پہلے وزیر صحت ہمارے حلقہ کھوئی رٹہ کے درمیانہ عمر کے ڈاکٹر نثار انصر ابدالی ہیں جنکے بڑے بھائی ڈاکٹر مقصود ابدالی لنڈن میں دنیا کے چند بڑے ڈاکٹروں کی ٹیم میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہی کی شفقت اور رہنمائی سے انصر ابدالی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ یہ دونوں بھائی ایک غیر سیاسی جاٹ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاست میں پہلی بار آئے ہیں۔۔ اپنی ذاتی جد و جہد کے نتیجے میں اس مقام پر پہنچے ہیں لیکن آزاد کشمیر میں حکومت وہی بناتا ہے جسے اسلام آباد کی آشیر باد حاصل ہو۔اس بار تو پاکستانی وزیر اعظم نے اسی طرح کیبنٹ ممبران سیلیکٹ کیے جس طرح وہ کرکٹ ٹیم کیا کرتے تھے۔ ہم نظریاتی طور پر غیر ریاستی سیاست کو مسلہ کشمیر کے حل کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں لیکن محب وطنی کا تقاضا ہے کہ جو بھی حکومت بنے اسے عوامی خدمات کی طرف بھر پور توجہ دلائی جائے۔ اس سے قبل جو بھی آزاد کشمیر میں اقتدار میں آیا اس نے پارٹی کے اندر سے جمہوری انداز میں نہیں بلکہ اپنے گھر سے اپنا جانشین پیدا کیا ۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ ابدالی برادران کیا کرتے ییں۔ سر دست سوال نظام صحت کا ہے۔ کسی بھی قوم کو ترقی کے لیے تعلیم یافتہ اور صحت مند قوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ دونوں نظام سخت ابتری کا شکار ہیں۔ یہی نہیں کہ سب سے زیادہ بجٹ کے مستحق ان دو شعبوں کو قومی بجٹ کا سب سے کم حصہ ملتا ہے بلکہ اصل مسلہ انتظامی غفلت اور نا اہلی ہے۔ یہ دونوں شعبے ریاستی غفلت کی وجہ سے کاروباری مافیا کے نرغے میں چلے گے ہیں۔ نظام تعلیم کے ذریعے قومیں فکری لام بندی کر کے سوسائٹی کو مضبوط و متحد کرتی ہیں مگر ہمارے ہاں استحصالی تعلیمی نظام کے ذریعے معاشرے کو غریب اور امیر میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کا نصاب یورپ سے اتاہے جسے آزاد کشمیر پر بھی مسلط کیا جاتاہے جس کی وجہ سے آزاد کشمیر کی نئی نسل کو قومی تقاضوں کا کوئی ادراک ہے نہ اپنی تاریخ و ثقافت کا علم ۔ نظام صحت کی حالت نظام تعلیم سے بھی زیادہ خراب ہے۔ غریب لوگ بھیگ مانگ کر علاج کرواتے ہیں۔ میرا پانچ سالہ بیٹا چند سال قبل ایک حادثے کا شکار ہوا۔ اسے آکسیجن کے لیے وینٹلیٹر کی ضرورت تھی مگر پورے ضلع میں کیا آزاد کشمیر کے کسی بھی سرکاری و غیر سرکاری ہسپتال میں ایک بھی وینٹلیٹر نہ تھا حالانکہ نجی ہسپتال ہر شام لاکھوں روپے بنک میں جمع کرواتے ہیں مگر بنیادی ٹیکنالوجی اور ٹیکنیشن ان کے پاس نہیں کیونکہ اصل مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔ کسی بھی قسم کے بڑے آپریشن بلکہ اینجیوگرافی اور حادثے کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے والے مریضوں کی مدد کا کوئی انتظام نہیں۔ اکثر مریضوں کو راولپنڈی ریفر کیا جاتاہے جو میرے بیٹے کی طرح راستے میں ہی دم توڑ جاتے ییں۔ یہ آزاد کشمیر کے اس خطے کی حالت ہے جس کے تارکین وطن کا پاکستان کو بیرون ملک سے ملنے والے زرمبادلہ میں چالیس فی صد شئیر ہے۔ منگلہ ڈیم کی رائلٹی آزاد کشمیر کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہے۔ آزاد کشمیر کے ٹیکس سے چلنے والا کشمیر کونسل کے بجٹ کا کچھ حصہ احسان کے طور ہر واپس دیاجاتاہے اور آزاد کشمیر کے باقی قدرتی وسائل کا کسی کو علم ہی نہیں کہاں جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں اب مزید ڈیمز بنے ہیں جنکی آمدنی کے حوالے سے کیس چند سال قبل آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں گیا تھا جسکی چند ماہ قبل فوت ہونے والے چیف جسٹس ہائی کورٹ راجہ شیراز کیانی اور جسٹس صداقت راجہ نے سماعت کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ جس طرح پاکستان کے باقی صوبوں کی آمدنی صوبائی حکومتوں کو ملتی ہے اسی طرح آزاد کشمیر کے ڈیمز کی آمدنی پر بھی آزاد کشمیر حکومت کا حق یے۔ اس طرح کے قومی وسائل کے اختیارات کا معاملہ تو خیر پوری کیبنٹ کا مل کر حل کرنا ہے لیکن انصر ابدالی صاحب کو اپنی وزارت موثر بنانے کے لیے جن امور پر ہر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ معاملات جو انکے اہنے دائرہ اختیار میں ہیں وہ سرکاری ہسپتالوں کے انتظامی معاملات ہیں جنکی مشینری قابل استعمال نہ ہونے کی ایک وجہ سرکاری ڈاکٹروں کے اپنے ذاتی ہسپتال ہیں جہاں غریب کے لیے علاج ممکن نہیں۔ دل گردوں اور کینسر جیسی موزی بیماریوں کے علاؤہ آئے روز قدرتی حادثات سے نبٹنے کے لیے آزاد کشمیر میں مناسب سہولیات نہیں ہیں۔ ویژن کے لحاظ سے وزیر صحت کے بڑے بھائی ڈاکٹر مقصود ابدالی انکی بہترین رہنمائی کر سکتے ہیں جو آزاد کشمیر دورے کے دوران صغیر قمر صاحب کی رہنمائی میں چلنے والے رحمہ چیرٹی ہسپتالوں میں بھی خدمات سر انجام دیتے رہتے ہیں جبکہ انتظامی امور پر انہیں اپنے ضلعی ہیڈکوارٹر کے انچارج ڈاکٹر نصراللہ صاحب کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے جنہوں نے کوٹلی ہسپتال جسے میں نے ایک بار بیمار خانہ قرار دیا تھا کو ایک شفا خانے میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

 

Qayuum Raja
About the Author: Qayuum Raja Read More Articles by Qayuum Raja: 55 Articles with 47551 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.