نقی احمد ندوی ،ریاض، سعودی عرب
جب ایک انسان کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو پھر اس کے سامنے مسائل ، مشکلات
اور رکاوٹیں کوئی معنی نہیں رکھتیں، ہمت ، حوصلہ اور کچھ کرگذرنے کا جذبہ
ایسی صفات ہیں جو کسی بھی آدمی کو فقروفاقہ سے دولت وشہرت کی بلندی تک اور
بے کسی اور بے بسی کی حالت سے خوشی وخوشحالی کے گلزار میں پہونچادیتا ہے،
دنیا میں کتنے ایسے معذور ہیں جن کو قدرت نے جسم کے بعض حصوں سے محروم
کردیا، مگر انھوں نے اپنی جسمانی معذوری کو کبھی اپنے مقصد کی راہ میں حائل
نہیں ہونے دیا، بلکہ بعض نے تو اپنی جسمانی معذوری ہی کو اپنی ترقی اور
کامیابی کازینہ بنا لیا اور اپنی کامیابیوں کی ایسی شاندار عمارت کھڑی کی
کہ لوگ حیران رہ گئے اور دنیا نے انکے جوش وولولہ، اور ہمت وحوصلہ کے سامنے
سر جھکا دیا۔ ایسے ہی لوگوں میں رالف براون کا بھی نام آتا ہے ۔ جن کو
Father of the Mobility Movement کہاجاتا ہے۔
رالف براون امریکہ کے انڈیانا میں ۱۹۴۰ میں پیدا ہوے ، چھ سال کی عمر میں
انکو ایک ایسی بیماری لاحق ہوگئی جس کو (Muscular Dystrophy)موسکولر
ڈسٹروفی کہاجاتا ہے، پیر معذور ہوگیے، چلنا پھرنا ناممکن ہوگیا، ڈاکٹروں نے
یہاں تک کہ دیا کہ یہ بچہ زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ پائیگا۔ مگر حیات تو
اوپر والا دیتااور لیتا ہے جسکی زندگی ہو اسے کون موت دے سکتا ہے اور جسکی
موت ہو اسے کون زندگی بخش سکتا ہے، جب چودہ سال کی عمر ہوئی تو وہیل چیر
استعمال کرنا شروع کیا، رالف براون نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اوراپنے اسکول
کے امتحانات پاس کرتے رہے، گرچہ براون کے پیر معذور تھے مگر حوصلے معذور نہ
تھے ، پیر نہیں تھے تو کیا ہوا مگر اسے کسی کا سہارا لینا پسند نہیں تھا،
وہ بغیر پیروں کے ہی حرکت کرنا چاہتا تھا، وہ اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے
میں شب وروز لگا رہا، اس نے سوچا کہ وہ چل نہیں سکتا مگر وہ ایسی مشنیں تو
بنا سکتا ہے جو اس کی حرکت میں ممد ومعاون ہو، لہذا اس نے اپنے والد کی مدد
سے پندرہ سال کی عمر میں اپنے وھیل چیر میں موٹر لگانے کی کوشش کی اورکسی
حد تک کامیاب ہوگیا ،اس پروہ دن رات محنت کرتا رہا اور اس کے پانچ سال بعد
اس نے(Motorized Scooter) موٹرایزد اسکوٹر بنانے میں کامیابی حاصل کرلی، اس
وقت اس کی عمر بیس سال ہوچکی تھی، ایک طرف وہ اپنی پڑھائی کررہا تھا اور
دوسری طرف اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ رہا تھا ، اسی دوران اسے اپنے علاقہ
میں ایک کمپنی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر کی نوکری مل گئی،وہ اپنی اسی ایجاد
کو اپنے آفس آنے جانے کے لیے استعمال کرنے لگا جسے وہ(Tri-Wheeler) کہاکرتا
تھا۔ کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، رالف براون نے اپنی معذوری
کو اپنی طاقت میں بدل کر یہ ثابت کردیا کہ انسان اگر حوصلہ رکھے اور محنت
کرے تو اپنے حالات خود بدل سکتا ہے، براون کی آفس پہلے قریب تھی تو ٹرائی
وہیلر سے آنا جانا ممکن تھا، مگر اتفاق سے اسکی آفس چند کیلومیٹر دور منتقل
ہوگئی ، آفس کی دوری اتنی تھی کہ اب ٹرائی وہیلر سے آناجانا ناممکن ہوگیا۔
براون نے اب یہ سوچنا شروع کیا کہ اس فاصلہ کو کیسے طے کیا جاے، بغیر گاڑی
کے اتنا بڑا فاصلہ طے کرنا مشکل تھا، گاڑی سے کوئی دوسرا تو اسے چھوڑدیتا
مگر پھر اسکی ٹرائی وہیل کیسے جاتی، اس کے علاوہ وہ کب تک دوسروں کے سہارے
آفس کا سفرکرتا، براون اپنی مشکلات کو خود حل کرنا چاہتا تھا، اس نے سوچا
کہ اگر اسکی ٹرائی وہیلر کسی گاڑی میں خود چلی جائے، اور اترنے کے وقت خود
اتر جایے تو کسی اور شخص کے سہارے کی ضرورت نہ ہوگی، وہ اپنی ٹرائی وہیلر
پر بیٹھ کر گاڑی میں جاسکتا ہے اور گاڑی چلاکر آفس پہونچ سکتا ہے، پھر آفس
کے بعد اپنی ٹرائی وہیلر کو اپنی گاڑی میں رکھکر خود واپس بھی آسکتا ہے، اب
اس نے اس پروجکٹ پر کام کرنا شروع کیا۔ چنانچہ براون نے اپنی ایک پرانی جیپ
کے اندر ہائڈرولک سسٹم اور ہینڈ کنٹرول لگانا شروع کیا، اور جیپ کو اس لائق
بنادیا کہ وہ کسی کی مدد کے بغیر اپنے ٹرائی وہیلر پر بیٹھ کر اپنی جیب میں
داخل ہوسکتا تھا اور اس سے نکل سکتا تھا، اسکی یہ ایجاد اسکے لیے نعمت غیر
مترقبہ ثابت ہوئی، وہ بغیر کسی کی مدد سے اپنے وہیل چیرپر بیٹھ کر اپنی جیب
میں داخل ہوتا اور جیپ چلاتے ہوے آفس جایا کرتااور پھر واپس آتا، اس طرح
اگلے کئی سال تک وہ آفس آتا جاتا رہا، مگر اس دوران اس نے صرف آفس کے کام
اور اپنی اس ایجاد پر اکتفانہیں کیا، اب وہ اپنے اس سسٹم کو مزید بہتر
بنانا چاہتا تھا، چنانچہ اس نے اپنے ایکDodge vanمیں یہ سارے آلات نصب کیے
جو خود کار مشین کی طرح کام کرتا تھا، اس وین کے اند ر اس نے ایک لفٹ سسٹم
بھی جوڑ دیا، اور پھر آسانی کے ساتھ کوئی بھی اپنے وہیل چیر پر بیٹھ کر اس
وین میں لگی لفٹ کے ذریعہ اپنی وہیل چیر کے ساتھ وین میں داخل ہوسکتاتھا،
اس ایجاد نے براون کی شہرت دور دور تک پہونچادی، دوسرے معذور افرادبھی
براون کواس نئی گاڑی کا آرڈر دینے لگے،جب آرڈر زیادہ آنے لگا تو بروان نے
اپنی ایک ٹیم بنائی اور انکے ساتھ مل کر ایسی گاڑیوں کے اندر تبدیلی کرکے
معذوروں کی زندگی آسان بنانے میں لگ گیا ، ایک وقت آیا کہ آرڈرکی کثرت اور
اپنی فیکٹری کی مشغولیت کی وجہ سے براون نے اپنی نوکری چھوڑدی او رپھر
باقاعدہ اپنی اس نئی ایجاد کی ایک بڑی فیکٹری کھول لی اور فل ٹایم اس میں
کام کرنے لگا۔
براون نے Save-A-Step کے نام سے ایک کمپنی گرچہ۱۹۶۳ میں کھول لی تھی مگر
۱۹۷۲ میں اسکا نام بدل کر براون کارپوریشن رکھ دیا، اب بروان کی فیکٹری کو
بڑے آرڈر ملنے لگے تھے اور پورے امریکہ سے لوگ ایسی گاڑیا ں خریدنے کے لیے
قطار میں کھڑے تھے۔ جو کبھی اپنے پیروں سے خود معذور تھا اب دوسروں کے چلنے
پھرنے اور آمدورفت کے سامان بہم پہونچا رہاتھا۔ ۱۹۹۱ میں براون نے اسی دوج
کی طرز پر پہلا (Wheelchair Accessible Minivan) مارکٹ میں متعارف کرایا،
اس کے بعد صرف چند سالوں میں براون کی یہ ایجاد پوری دنیا میں مقبول ہونے
لگی ، چنانچہ براون کی کمپنی نے ٹویوٹا جیسی کمپنیوں سے معاہدے بھی کرلیے،
اب وہی براون جو کبھی اپنے پیروں سے چل نہیں پارہاتھا اور جسکو ڈاکٹروں نے
نہ صرف یہ کہ دیا تھا کہ وہ کبھی چل نہیں پاے گا بلکہ اپنی بیماری کی وجہ
سے مشکل سے چند سال زندہ رہ پاے گا، اب دنیا بھر کے دوسرے ہزاروں معذور
لوگوں کی امید بن گیا تھا۔ وہ معذور اور کمزور بچہ جو کبھی شب وروز اپنی
معذوری کی وجہ سے پریشان اور بے بس تھا اب دنیا بھر کے ہزاروں معذوروں کی
پریشانیوں کو دور کرنے کا ایک ذریعہ بن چکا تھا، براون کی اس ایجاد نے
معذورں کی دنیا آسان کردی اور ان کی آمدورفت کو ممکن کر دکھایا، یہی وجہ ہے
کہ امریکی صدر براک اوباما نے "Champion Of Change" کاخطاب رالف براون کو
۲۰۱۲ میں عطاکیا۔
اگر آپ بھی معذور ہیں تو اپنی معذوری کوکمزوری مت بنائیے بلکہ رالف براون
کی طرح اپنی کمزوری کو طاقت میں بدلنے کی کوشش کیجیے۔ انسان اپنے جسم کے
اعضاء سے معذور نہیں ہوتا بلکہ اپنے ہمت اور حوصلہ سے معذور ہوتا ہے، جو
بھی وسائل اور جو بھی صلاحیت آپ کے پاس موجود ہیں انکا استعمال کرکے یہ
ثابت کردیجیے کہ اگر ہمت بلند ،حوصلہ جوان اور سچی چاہت ہو تو ایک انسان نہ
صرف یہ کہ اپنے حالات بلکہ دوسروں کے حالات بھی بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Ralph_Bra
|