کبھی غروب نہیں ہونگے !

ہر اک جن و بشر ، چرند و پرند ، حشرات الارض اور حتیٰ کے کائنات کی ہر مخلوق ساکت ہوجاتی ہے ، کچھ دیر سانس لینا بھول جاتی ہے ، "وہ زندہ ہے" اسے یہ وہم لگنے لگتا ہے ۔ اس کے سامنے ہر روز افق سے ابھرتا سورج روشن تو ہوتا ہے لیکن اس کیلئے بے معنیٰ ہوتا ہے ۔

ایک مقصد سے جڑے ، کاز سے منسلک اور اہداف کے کسی صورت میں بھی معاون چاہے وہ مقصد سے پیچھے ہٹ گئے ہوں ۔ وہ کئی سالوں پہلے کام سے معذرت کر چکے ہوں ۔ وہ سب بہرے ہوجاتے ہیں جب ان کی سماعتوں سے یہ آواز ٹکراتی ہے "بانیِ مقصد خدا کے حضور پیش ہوگئے ہیں" وہ یقینی طور پر بہرے ہوجاتے ہیں یا وہ پھر چاہتے ہیں کہ ہمیں کچھ سنائی نہ دے ۔ سب بولنے والے گونگے ہوجائیں ۔ کچھ بھی فہمی طور پر سنائی نہ دے ۔ نہ اشاروں کی زبان سے آنکھیں ٹکرائیں ۔ وہ نابینا آنکھوں سے کسی کونے میں تنہائی بیچ اپنے جسم کی تمام تر جان کو جمع کرکے اشکوں کی رفتار کے نذر کردیتے ہیں اور ہلکان ہونے تک روتے رہتے ۔

ایک بچہ قفس میں قید و بند حبس بیچ چھوٹی عمر میں جوان ہوجاتا ہے ذی شعور اور اہلِ بصیرت ہوتا ہے ۔ جو ایک عام شخص ترتیب سے اپنی عمر کے بڑھتے دنوں میں سیکھتا ہے ۔ لیکن ایک جسمانی غلام کافی پہلے یہ سبق اپنے فہم میں لے لیتا ہے ۔ وہ بھی کچھ ایسے بچوں میں تھا ۔ وہ خطے کی تقسیم کی لائن کے اس پار سے آنے والی امداد کے بارے میں سوچتا ہے ۔ جو کسی حکمتِ عملی کے چورن تلے دب گئی ماضی میں ۔ یا وہ ان خود ساختہ مفاد پرستوں کو سوچتے ہوے دھیمی طنزیہ ہنسی چہرے پر سجا لیتا ہے ۔ جو محض اپنے وقت پر نکل آنے پروانوں سے زیادہ کچھ نہیں تھے ۔ وہ خود کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے اپنی جنگ کسی اور کندھوں پر تب تک لڑی جاتی ہے جب تک وہ کندھے مطلوب مفادات سے سیر نہ ہو جائیں ۔ وہ خود کو رٹواتا ہے کہ اپنی جنگ خود لڑنی ہے ۔ چاہے وہ سنگباز بن کر لڑی جائے یا پھر بکتر بند گاڑیوں کے اور مسلح مخالف فوج کے مقابل بے معنیٰ غلیلوں میں کنکر سجا کر لڑی جائے ۔ بس ایک بات اپنی جدوجہد خود کرنی ہے ۔ اپنا علم خود بلند کرنا ہے ۔

وہ بھی ایک ہی غلام بچہ جو کئی نسلوں کے قربان ہونے کے بیچ و بیچ پیدا ہوا ۔ گاؤں کے ایک کونے میں لگے پانی کے نلکے سے خون نکلتا دیکھ کر وہ اس دنیا میں آیا ۔ اسے بھی پتا تھا ۔ پڑھائی لکھائی اور کھیل کود سے آگے کی بات ہے ہم لڑیں گے تو آگلی نسلیں سکون پا سکیں گی ۔

ایک کاشمیری بچہ چھت پر بیٹھ کر سوچوں میں گم تھا کیا صرف مجھے ہی دکھ ہے ۔ کیا ایک خطے کے انسان ہی قید ہوتے ہیں ؟ یا یہ جنات و حشرات بھی غلام ہوتے ہیں ؟ یا پھر شجر کی بلند شاخوں پر بیٹھے پرندے بھی قفس میں ہوتے ہیں ؟ وہ خود سے ہم کلام ہو کر جواب دینے لگا ۔ ہاں یہ سب بھی قید ہیں انسان کی آزادی پر ان کی آزادی منحصر ہے ۔ ہاں میرے اوپر تمام اس خطے کی مخلوقات کی زمہ داری ہے ۔ جب دشمن جنگل میں آگ لگاتا ہے تو درختوں جل کر کوئلہ ہوجاتے ہیں اور پرندے بھی ہماری طرح بے گھر ہوجاتے ہیں ۔ درختوں کی راکھ حشرات الارض پر گرتی ہے اور وہ بھی اسی آگ کے نذر ہوکر بھسم ہوجاتے ہیں ۔ جنات بھی یہ سب تماشہ دیکھ کر وحشت سے آنکھیں بند کرلیتے اف خدا ! اتنی تباہی ۔ ہاں سب کی زمہ داری مجھ پر ہے ۔

اس نے چھت سے کبھی پتنگیں فضا میں اڑتی نہیں دیکھی ۔ ہاں لیکن وحشت ناک کئی جانوں کو نگل کر ڈکار لیتا فضاؤں میں کالا دھواں آگ کی چنگاریوں کے ساتھ اسے ہر روز نظر آتا تھا ۔ اسے کپڑوں کی دکان پر ہمیشہ رش نظر آتا کہ اس کی ماؤں بہنوں کے آنچل و ڈوپٹے ہر روز سر عام اتر جاتے تھے کپڑے پھٹ جاتے تھے ۔ اسی نائی کی دکانوں پر کبھی رش نہیں نظر آیا کیونکہ گنجے بوڑھوں کی داڑھیاں نوچ لی جاتی تھی ۔ اسے خطے کا ہر ہسپتال مکمل بھرا نظر آتا اور ہر کمرہ ایمرجنسی وارڈ کا عکس پیش کرتا ۔ وہ سوچتا کہ زخمیوں کو اور ان کے زخموں کو کون شمار کرتا ہے ؟ البتہ منصوبہ بندی کرتے خطے میں مردم شماری ہوتی ہے ۔ وہ سوچتا کے ہمیں لڑنے کی نیت کیوں نہیں کرنی پڑتی ؟ پھر خود ہی جواب دیتا ہے نیت تو کرتے ہیں لیکن پتا نہیں لگتا کیونکہ تمام عمر لڑنا جو ہوتا ہے ۔ وہ سوچتا ہے کہ ایک متقی ، عابد اور پرہیزگار کی نیکیاں زیادہ ہیں یا ایک ننھے جسم پر غیر قانونی پیلٹ گن کے چھرّوں کے نشانات ؟ ان سب سوالات کو جھٹک کر چھت سے نیچے اتر گیا ۔

گھر سے نکلا تو ہر طرف ہر رستے پر ناکے نظر آئے ۔ اور مسلح فوج نظر آئی وہ سوچتے ہوے اور خود کو سکون دیتے کہ قائد کی تدفین پر آنے والے ہجوم سے یہ آٹھ لاکھ فوج ڈرتی ہے ۔ یہ تو شھید مجا_ہد کے قریب جانے میں ہر لمحہ مرتے ہیں یہ تو پھر قائد ہے ۔ اسے یہ بھی تسلی تھی کہ قائد قبل از رحلت کئی چراغ روشن کر گئے ہیں ۔ رفتہ رفتہ ساون کا سما اس کے بدن پر طاری ہوچکا تھا وہ ایک فاتحانہ مسکراہٹ لے کر اور نینوں میں اشک گھر اندر داخل ہوگیا ۔ اس کے لبوں پر کچھ اشعار جاری تھے ۔ جو اس کے اطمینان کا پتہ دے رہے تھے ۔

ہے کہاں تیل بھر کر چراغوں میں وہ
جاؤ ڈھونڈو ذرا ہے کہاں رہنما

سادھ لی چپ سماں نے ، سبھی مر گئے
وہ چمن چھوڑ کر شخص جب چل دیا

وہ جائے نماز بچھا چکا تھا شکرانے کے نفل پڑھنے کیلئے کیونکہ خدا نے ہر بچے کو قائد بنادیا تھا ۔

 

Minhal Sakhi
About the Author: Minhal Sakhi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.