مودی کے بدلتے بھارت میں’’مسلم پولس افسر رابعہ کا دردناک قتل‘‘

محافظ ہی قاتل ٹھہرے‘ پولس افسران شک کے گھیرے میں

قارئین کرام:ہمارا ملک عزیز بھارت اب کافی تیزی سے بدل رہا ہے اتنی تیزی سے بدل رہا ہےکہ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل پارہا ہے۔ پچھلے سات سالوں پر اگر آپ طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ بات سمجھ آجائے گی کہ بی جے پی نے کس طرح سب کا ناش اور اپنا وکاس کیا ہے۔ کس طرح بھارت کو ہندو راشٹر کی طرف لیجانے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔چاہے پھر وہ بابری مسجد کو شہید کرایک منظم سازش اور منصوبہ بند طریقے سے ججوں کو خرید کر وہاں آستھا کی بنیا دپر فیصلہ کیوں نہ ہوں،مسلمانوں اور دلتوں کو گائے کے نام پر ماردیا جانا ہو، کسی جگہ ایک داڑھی ٹوپی والے کو دیکھ کر نامردوں کی ٹولی کا ماب لنچنگ کر قتل کردینا ہو، لو جہاد، تین طلاق،این آر سی اور این پی آر ہو،مسلم نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہراساں کرنا ہوں ،مسلم تاجروں کو ہندو علاقوں میں تجارت نہ کرنے دینی ہواور پھر انہیں گھیر کرمارنا ہو،نوکریوں سے مسلمانوں کو نکال دیا جانا ہو یا پھر ہندو مسلم فسادات کرواکر مسلمانوں کے ہی خلاف کاروائیاں کیوں نہ کرنا ہوں۔۔ان سب پر غور کیجئے بھارت کافی بدل گیا ہے اور کافی تیزی سے بدل رہا ہے۔ ۔۔۔ایسے ہی بدلتے ہوئے بھارت کی تصویر میں انتہائی دل دہلادینے والا واقعہ پیش آیا ہے۔

دہلی سرکار میں سول ڈیفنس میں تعینات سنگم وہار کی رہنے والی۲۱ سالہ رابعہ سیفی کا قتل گزشتہ کچھ دن قبل انتہائی وحشیانہ طریقے سے کر دیا گیا۔قتل اتنا خطرناک اور دردناک طریقے سے کیاگیا کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ روح کانپ جاتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سنگم ویہار کی رہنے والی رابعہ سیفی دہلی پولس اسٹیشن میں پولس کانسٹبل کے عہدہ پر فائز تھی اور ابھی اس کی نوکری کو صرف چاہ ماہ ہی مکمل ہوئے تھے۔ ایک دن جب وہ ۲۷ اگست کو گھر نہیں لوٹی تو گھر والوں نے پولس اسٹیشن کوفون کیاوہاں پہلے فون ریسیو نہیں کیاگیا بعد میں بار بار فون لگانے کے بعد جواب یہ ملا کہ وہ یہاں سے جاچکی ہے ۔پھر گھر والوں نے اسے تلاش کرنا شروع کیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں ملا بعدمیں رابعہ کی لاش ملی جو انتہائی بے دردی سے قتل کی ہوئی پائی گئی۔ جس کا پہلے کئی بار ریپ ہوا پھر اس کو بے رحمانہ قتل کیاگیا جس کی لاش پر۵۰ سے زائد چاقو سے وار کئے گئے تھے۔گردن کاٹ دی گئی،دونوں پستان کاٹ دئے گئے شرم گاہ میں متعدد بار چاقوں سے وار کئے گئے۔ پیر اور ہاتھ کی نسیں کاٹ دی گئی اور کمر کے حصے میں چاقو سے پے درپے وار کئے گئے۔والدین نے فوری کیس درج کیا لیکن پولس اس معاملہ کو نظر انداز کررہی ہے۔ اور ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ متاثرہ خاندان اس معاملے کو فرید آباد کے سورج کنڈ پولیس اسٹیشن سے سنگم وہار پولیس اسٹیشن منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ پولیس اس کیس میں تیزی سے کام کر سکے اور مجرموں کو سزا دلانے میں مدد مل سکے۔ اب تک اس معاملے میں پولیس نے کوئی بڑی کارروائی نہیں کی ہے اور کاروائی کے نام پر صرف ٹال مٹول کررہی ہے جس کی بناء پر رابعہ کے والدین نے پولس افسران پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں کہ وہ لوگ ہی اس قتل کے اصل ذمہ دارہیں اوران کے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہونی چاہئے ،اور سی بی آئی جانچ کے بعد ان قاتلوں کو پھانسی کی سزا ہونی چاہئے۔

اس بے رحمانہ قتل کے بعد دہلی میں شدید ناراضگی ہے۔ رابعہ کو انصاف دلانے کے لیےسنگم ویہار میں گلی نمبر 1 سے رات 8 بجے تک پوری سنگم وہار تک کینڈل مارچ نکالا گیا۔ رابعہ کی روح کے سکون کے لیے نکالے گئے کینڈل مارچ میں نوجوانوں اور خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سب نے رابعہ کے قاتلوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔

وہیں اس معاملے کو لے کر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) دہلی یونٹ کے ارکان نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور رابعہ کو انصاف دلانے کے لیے ہر ممکن یقین دہانی کرائی۔ ایم آئی ایم کے دہلی صدر کلیم الحفیظ نے رابعہ معاملے پر کیجریوال حکومت سے متاثرہ کنبہ کو فوراً انصاف دلانے کا مطالبہ کیا ہے ساتھ ہی قومی(گودی) میڈیا کے ذریعہ اس حساس معاملے کو نہ اٹھانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

رابعہ کے بھائی نے انصاف کی بھیک مانگتے ہوئے سیاسی پارٹیوں پر الزام لگایا کہ ان کی مدد کے لئے کوئی بھی آگے نہیں آرہا ہے۔انھوں نے کہا کہ نربھیا ریپ کے بعد جس طرح پورا ملک متحد تھا ، اسی طرح کی یکجہتی نہیں دکھائی دے رہی ہے اور اس کیس میں ہمارا کوئی ساتھ نہیں دے رہا ہےجبکہ یہ معاملہ نربھیا کیس سے زیادہ وحشیانہ اور بھیانک ہے۔

قارئین اس کیس میں ایک اور نیاموڑ سامنے آیا ہے۔ جو اس کیس کی مزید پرتیں کھولے گا۔نئی بات یہ سامنے آئی ہے کہ رابعہ کی والدہ کورابعہ کی پولس دوست جیوتی کا فون آتا ہے جس میں وہ کسی مسلم لڑکے کا نام لیتی ہے اور بار بار یہ کہتی ہیں کہ آنٹی آپ فون کال ریکارڈ تو نہیں کررہی ہیں نا۔۔۔رابعہ کی والدہ کہتی ہیں کہ نہیں بیٹی بولو کیا مسئلہ ہے۔۔۔پھر جیوتی بار بارسول ڈیفیس کے مہرا سر کا ذکر کرتی ہے اور کہتی ہیں کہ رابعہ کے پاس مہرا سر نے چابیاں رکھنے کے لئے دی تھی اور پھر جیوتی کسی فلیٹ کی بات کرتی ہیں۔۔۔۔جہاں کی وہ چابیاں تھی جس کے اندر شاید لاکھوں کروڑوں روپئے رکھے گئے تھے۔۔۔۔یعنی کہ رابعہ ایک ایسا راز جانتی تھی جس میں بڑے بڑے سیاستداں سمیت اعلی عہدیداران بھی شامل تھے۔ ۔۔اور وہ راز سچی محنت اور لگن سے کام کرنے والی رابعہ کے ذریعے باہر آجانے کا ڈر تھااسی لئے شاید پولس افسران نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت اس کا قتل کروادیا۔ اگرکیس کی صحیح صحیح طور پر جانچ ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ پولس کا ایک کالا چہرہ سامنے ضرور آئے گا۔۔اس کی تو امید بہت کم ہے لیکن یہ بات توضرور ہے کہ اس کیس میں پولس کا کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔

ناظرین ایک طرف دلی سرکاراور بی جے پی حکومت’’بیٹی بچائو کے تحت خواتین کی حفاظت کے لئے بسوں میں اور ٹرینوں میں خواتین پولس اہلکار تعینات کئے جائیں گے لیکن خود پولس اہلکار۔۔۔پولس کانسٹبل کا اتنا برا اور دل دہلا دینے والا قتل ہوجاتا ہے تو پھر اب ایسے میں دہلی پولس کیا قدم اٹھائے گی۔مودی راج میں جب پولس مسلم کانسٹبل ہی محفوظ نہیں تو عام عوام اپنی حفاظت کے لئے کیا کریں۔
ملک میں بڑھ رہے ہندو مسلم منافرت کے درمیان اس طرح کے واقعات کو نہ ہی گودی میڈیا بتارہا ہے اور نہ ہی اس ملک کی اکثریت اس کے انصاف کی بھیک مانگنے سڑکوں پر اتررہی ہے۔ جس طرح نربھیا کیس کو پورے بھارت میں ایک تحریک کے طور پر پیش کیاگیا تھا۔ کیا رابعہ سیفی کے اتنے خطرناک قتل اور دل دہلادینے والے واقعہ کو بھی گودی میڈیا میں کوئی جگہ ملے گی۔جبکہ نربھیا سے خطرناک رابعہ سیفی کا معاملہ پیش آیا ہے لیکن قصور صرف اتنا ہے کہ نربھیا ہندو تھی اور رابعہ مسلمان ۔۔۔افسوس کہ شیطان طاقتیں نفرتوں کے بیج بونے میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔

اب جبکہ یہ بات دھیرے دھیرے کھلتی جارہی ہے کہ رابعہ قتل کے پیچھے پولس افسران کا بھی ہاتھ ہے تو عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہلی سول ڈیفینس میںہم اپنے بچے بچیوں کو نہیں بھجیں گے کیونکہ ملک کی رکشا کرنے والے ہی اب قاتل بن رہے ہیں توعام عوام کہاں جائیں اور دہلی ڈفینس کے بارے میں عوام کہہ رہی ہیں کہ وہاں اپنے بچوں کو نہ بھیجیں کیوں کہ وہاںلڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی جاتی ہیںان کی عزتیں لوٹی جاتی ہیں اور منہ بند نہ رکھنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہے۔یہ ساری باتیں اس لئے سامنے نہیں آتی کیونکہ لوگ اپنی بدنامی کے ڈر سے یہ باتیں کسی سے کہہ نہیں پاتے ہیں۔
رابعہ کے والد نے بتایا کہ میری بیٹی کا دردناک قتل پولس والوں نے ہی کیا ہے۔یہ قتل کسی ایک شخص کا نہیں ہے بلکہ اسٹاف کا ہیڈ رویندرمہرا کا پورا اسٹاف اس میں شامل ہے۔ گھروں میںجھاڑوپوچھا لگاکر اور برتن دھو کر بیٹی کو پڑھانے لکھانے والی ماں کا کہنا ہے کہ کیاہم نے رابعہ کواسی لئے پڑھایالکھایا اور بڑا کیا کہ وہ جس شعبہ میں جاکر اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کریں وہیقانون والے اور انصاف والے اسے ایک دن مارڈالیںگے یہ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا۔

ناظرین رابعہ کے قتل کے بعد یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ پولس جیسا قانون والا شعبہ بھی اب داغدار ہونے لگا ہےداغدار تو پہلے ہی ہوچکا تھا لیکن اب پرتیں کھلنے لگی ہے اور لوگوں کا اب پولس پر سے بھروسہ اٹھنے لگا ہے لوگ اب ڈرنے لگے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو سول سروسیز میں آگے پڑھائیں یانہ پڑھائیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا رابعہ کو نربھیا کی طرح انصاف ملے گا یا پھر کیس صرف ڈائری تک سمٹ کررہ جائے گا۔اور ہمارے دھرنے اور احتجاجات صرف اخباروں کی زینت بن کر رہ جائیں گے

رابعہ سیفی کو انصاف دلانے کی لیے کینڈل مارچ اتر پردیش کے ضلع نوئیڈا میںبھی نکالا گیا۔ جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔یہ کینڈل مارچ اسپائس مال سیکٹر 25 سے شروع ہوکر نوئیڈا اسٹیڈیم پر ختم ہوا۔ اس دوران حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ قاتلوں کو پھانسی کی سزا دی جائے تاکہ دوسروں کے لئے عبرت کا مقام ہو۔ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا گیا یا کہ اس کیس کی سی بی آئی جانچ ہو اور اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے کا معاوضہ دیا جائے اور گھر کے کسی ایک فرد کو سرکاری نوکری بھی دی جائے۔

جی ہاں ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ رابعہ کو انصاف ملے اور قاتلوں کو پھانسی کی سزا ہو۔او رآپ تمام سے گذارش ہے کہ آپ اپنی طاقت اور اپنی استطاعت کے مطابق انصاف کے لئے آواز اٹھائیںکیونکہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا بھی ظالم کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔

چلئے قارئین اللہ سے دعا ہے کہ اللہ امت مسلمہ کی ہر جانب سے ہرفتنہ اور شرورسے حفاظت فرمائے۔اور آپ تمام کو بھی اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ بولا چالا معاف کرا۔۔زندگی باقی تو بات باقی رہے نام اللہ کا۔ اللہ حافظ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


 

syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 52236 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.