ظلم
(عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif, Faisalabad)
ظلم•••••••••••••••• میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کا ہاتھ کاندھے سے کٹا ہوا تھا اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ” مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کرو‘ اور کسی پر ہرگز ظلم نہ کرو“۔ میں نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا ‘میرے بھائی تیرے ساتھ کیا ہوا؟ اس شخص نے جواب دیا بھائی میرا قصہ عجیب و غریب ہے۔ دراصل میں ظلم کرنے والوں کا ساتھ دیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے ایک مچھیرے کو دیکھا جس نے کافی بڑی مچھلی پکڑ رکھی تھی۔ مچھلی مجھے پسند آئی۔ میں اس کے پاس گیا اور کہا مجھے یہ مچھلی دے دو‘ اس نے جواب دیا میں یہ مچھلی تمہیں نہیں دوں گا کیونکہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت سے مجھے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔ میں نے اسے مارا پیٹا اور اس سے زبردستی مچھلی چھین لی اور اپنی راہ لی۔ جس وقت میں مچھلی کو اٹھائے جا رہا تھا‘ اچانک مچھلی نے میرے انگوٹھے پر زور سے کاٹ لیا۔ میں مچھلی لے کر گھر آیا اور اسے ایک طرف رکھ دیا۔ اب میرے انگوٹھے میں ٹیس اور درد اٹھا اور اتنی تکلیف ہونے لگی کہ اس کی شدت سے میری نیند اڑ گئی۔ میرا پورا ہاتھ سوجھ گیا۔ جب صبح ہوئی تو میں طبیب کے پاس آیا اور اس سے درد کی شکایت کی۔ طبیب نے کہا یہ انگوٹھا سڑنا شروع ہو گیا ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اس کو کٹوا دو‘ ورنہ پورا ہاتھ سڑ جائے گا۔ میں نے انگوٹھا کٹوا دیا۔ لیکن اس کے بعد ہاتھ سڑنا شروع ہوا اور درد کی شدت سے میں سخت بے چین ہو گیا اور سو نہ سکا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ہتھیلی کٹوا دو میں نے ایسا ہی کیا‘ اب درد بڑھ کر کہنی تک پہنچ گیا۔ میرا چین اور نیند سب اڑ گئی اور میں درد کی شدت سے رونے اور فریاد کرنے لگا۔ ایک شخص نے مشورہ دیا کہ کہنی سے ہاتھ الگ کر دو۔ میں نے ایسا ہی کیا لیکن اب درد مونڈھے تک پہنچ گیا اور سرانڈ وہاں تک پہنچ گئی۔ لوگوں نے کہا کہ اب تو پورا بازو کٹوا دینا ہو گا ورنہ تکلیف پورے بدن میں پھیل جائے گی۔ اب لوگ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آخر یہ تکلیف تمہیں کیوں شروع ہوئی۔ میں نے مچھلی کا قصہ انہیں سنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم ابتداء میں مچھلی والے کے پاس جا کر اس سے معافی مانگتے‘ اسے راضی کر لیتے اور کسی صورت میں مچھلی کو اپنے لئے حلال کر لیتے تو تمہارا ہاتھ یوں کاٹا نہ جاتا۔ اس لئے ابھی جاﺅ اور اس کو ڈھونڈ کر اس سے معافی مانگو ورنہ تکلیف پورے بدن میں پھیل جائے گی۔ میں اٹھا اور مچھلی والے کو پورے شہر میں ڈھونڈنے لگا‘ آخر ایک جگہ اس کو پالیا۔ میں اس کے پیروں پر گر پڑا اور رو رو کر کہا کہنے لگا تمہیں اللہ کا واسطہ مجھے معاف کر دو۔ اس نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو؟میں نے بتایا میں وہ شخص ہوں جس نے تم سے مچھلی چھین لی تھی۔ پھر میں نے اس سے اپنی کہانی بیان کی اور اسے اپنا ہاتھ دکھایا۔ وہ دیکھ کر رو پڑا اور کہا میرے بھائی میں نے اس مچھلی کو تمہارے لئے حلال کیا‘ کیونکہ تمہارا حشر میں نے دیکھ لیا۔ میں نے اس سے کہا میں تمہیں خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جب میں نے تمہاری مچھلی چھینی تو تم نے مجھے کوئی بد دعا دی تھی؟ اس شخص نے کہا ہاں میں نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ اے اللہ! یہ اپنی قوت اور زور کے گھمنڈ میں مجھ پر غالب آیا اور تو نے جو رزق دیا اس نے مجھ سے چھین لیا اور مجھ پر ظلم کیا اس لئے تو اس پر زور کا کرشمہ دکھا۔ میرے مالک اللہ نے اپنا زور تمہیں دکھا دیا۔ اب میں اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ نہ کسی پر ظلم کروں گا اور نہ ہی کسی ظالم کی مدد کروں گا۔ انشاءاللہ جب تک زندہ رہوں گا اپنے وعدے پر قائم رہوں گا۔
(علامہ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الزواجر سے اقتباس )
منقول |