سچ ! حالات و واقعات کے تناظر میں

ایک لفظ ایک جائزہ

 ایک پرائمری کلاس میں ایک بچے نے ٹیچر سے روتے ہوئے دوسرے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شکایت لگائی کہ اس نے مجھے تھپڑماراہے۔ ٹیچرنے دوسرے بچے کوبلاکراس سے پوچھا کہ تونے اسے تھپڑکیوں مارا۔ دوسرابچہ کہتاہے سرجی اس نے مجھے گالی دی تھی۔ استادکہتاہے اس نے گالی دی تھی تومجھے بتاناتھا اسے تھپڑکیوں ماردیا۔ شکایت لگانے والابچہ کہتاہے سرجی پہلے اس نے مجھے تھپڑمارا میں نے گالی بعدمیں دی۔ دوسرابچہ کہتاہے سر جی اس نے پہلے مجھے گالی دی۔ٹیچر یہ کہہ کردونوں بچوں کوکلاس میں بھیج دیتاہے کہ آئندہ شکایت نہ آئے۔ اس طرح کے واقعات پرائمری کلاسوں میں اکثرہوتے ہیں۔سکولوں میں بچے کلاس ٹیچرسے شکایت کرتے ہیں۔ ٹیچر شکایت کرنے والے بچے اورجس بچے کے خلاف شکایت کی گئی ہو دونوں بچوں کوسن کران کی سرزنش کرکے کلاس میں بھیج دیتاہے۔سر جی اس نے مجھے تھپڑ ماراہے، سرجی اس نے مجھے گالی دی ہے۔سرجی اس نے مجھے دھکادیاہے۔ سرجی اس نے میری کتاب اٹھالی ہے۔ یہ میری کاپی واپس نہیں کررہاہے۔ کلاس ٹیچر بچوں کی سرزنش کرکے اورسمجھاکرکلاس میں بٹھادیتے ہیں۔ان بچگانہ واقعات اورشکایات میں سچ سامنے لانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔اس طرح کے بچگانہ واقعات میں بچوں کودرگزرکرنے اورایک دوسرے کی غلطیوں کومعاف کرنے کا سبق توملتاہے۔لیکن سچ سامنے لانے کی کوشش کی جائے توبچوں کوسچ کی اہمیت سمجھ آجاتی اورکسی اورپرالزام لگانے کانقصان بھی سمجھ آجاتا۔بچوں کی شکایات میں سچ سامنے لانا مشکل ہوتاہے۔یہ توبچوں کی شکایات ہیں جن میں ویسے ہی سچ معلوم کرنامشکل ہوتاہے ۔

بچوں کے بعدبڑوں کے بہت سے واقعات میں بھی ہم سچ جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ہم ہردوفریقین میں سے کسی ایک فریق کی بات سن کراسے ہی سچ مان لیتے ہیں۔ دوسرے فریق کی بات سنتے ہی نہیں ہیں۔بعض اوقات ہم غلط فہمیوں کوبھی سچ سمجھ لیتے ہیں۔بعض باتیں جوایک فی صدبھی سچ نہیں ہوتیں ۔انہیں اس قدر پھیلادیاجاتا ہے عام کردیاجاتاہے کہ وہ سچ لگنے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہاجانے لگتاہے کہ اتنے لوگ جویہ کہہ رہے ہیں یہ کیسے سچ نہیں ہوسکتا۔ اس بات کوآسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ ہم اکثرافواہوں کوسچ مان لیتے ہیں۔

ایک امام مسجدکی تنخواہ کم تھی۔ اس تنخواہ سے وہ دووقت کاکھانابھی نہیں کھاسکتا تھا۔ اس امام مسجدکوچندنمازیوں نے مشورہ دیاکہ مسجدکے ساتھ چندہ بکس رکھ دو۔ امام مسجدنے نمازیوں کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے مسجدکے ساتھ چندہ بکس رکھ دیا۔ امام مسجد روزانہ چندہ بکس کھولتا اس میں سے جوچندہ نکلتا پہلے وہ اپنی جیب میں رکھتارہا۔ پھراس نے ایک دکاندارسے بات کی ۔ کہ وہ اسے چندہ لاکردیاکرے گا۔ اوربوقت ضرورت سامان لیتا رہے گا یاپیسے واپس لیتارہے گا۔ دکانداراس بات سے متفق ہوگیا۔ امام مسجدچندہ بکس کھولنے کے بعد ضرورت کے مطابق کرنسی نوٹ جوکبھی کبھی ہی نکلتے تھے اپنے پاس رکھ لیتا وہ سکے دکاندار کو دے دیتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ دکاندارایک دن یہ بھول گیا کہ امام مسجداس کومسجدکاچندہ امانت کے طورپرلاکردیتاہے۔ اس نے امام مسجدکی ایمانداری چیک کرنے کاپروگرام بنایا۔ اس نے دس روپے والے پانچ کرنسی نوٹ چندہ بکس میں ڈال دیے۔ امام مسجدنے اس سے پہلے اس چندہ بکس میں ایک ساتھ پچاس روپے نہیں دیکھے تھے۔ امام مسجدنے وہی پچاس روپے دوقسطوں میں دکاندارکودے دیے۔ دکاندارنے یہ سمجھا کہ امام مسجدنے وہ پچاس روپے اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔اس دکاندارنے لوگوں کوبتاناشروع کردیا کہ امام مسجدنے چندہ کے پیسے اپنی جیب میں رکھ لیے ہیں۔دکاندارنے غلط فہمی کی بنیادپرامام مسجد پرالزام لگایا۔ امام مسجد اس چندہ سے اپنے ضروری اخراجات بھی کرتا اورمسجدمیں میلادکی محفلیں بھی کراتا رہا۔

ایک اخبارکے دفتر میں ایک نوجوان کام کرتا رہا۔ اس نوجوان کی سب سے اہم ڈیوٹی اخبارات میں شائع ہونے والی مقامی خبروں کی مارکنگ کرناتھی۔ اسی دفتر میں دوسرے لوگوں کے علاوہ ایک شخص اخبارپڑھنے آیاکرتا۔ ایک دن وہ شخص اخبارپڑھنے آیا تواس وقت تک اخبارنہیں آئے تھے۔ نوجوان نے اس شخص کوعزت سے بٹھایا۔ اس کوچائے پلائی۔ جب اخبارآئے تووہ شخص اخبارپڑھنے لگاتونوجوان نے کہا کہ مجھے میراکام کرنے دیں اس کے بعداخبارپڑھتے رہیں۔ اس پروہ شخص ناراض ہوکرچلاگیا۔اس کے بعد اخبارفروش نے اس نوجوان سے کہا کہ تونے اس شخص کواخبارنہیں پڑھنے دیا، نوجوان نے کہا کیااس نے یہ بھی بتایا تھا کہ میں نے اسے چائے بھی پلائی تھی۔ اخبارفروش نے کہا کہ اس نے یہ نہیں بتایا۔

ایک باپ اوردوبیٹے جن کااپناگھردیہات کے دورکے علاقے میں تھا۔ وہ روزگارکے سلسلے میں ایک شہرمیں رہتے تھے۔ باپ روزانہ شہرسے گھرآتا اور دوپہرکے بعد شہرواپس چلاجاتا۔ اس کے دونوں بیٹے شہرمیں اپنی رہنے کی جگہ میں رہتے ۔ ایک بیٹا جہاں وہ رہتے تھے اس جگہ کی صفائی کرتا، کھانے پینے میں استعمال ہونے والے برتن دھوتا، اس کے علاوہ بھی ضروری کام کرتا، دوسرا بیٹا یاسویارہتا، یابیٹھارہتا،کوئی بھی کام نہ کرتا۔ جب باپ کے آنے کاوقت ہوتا دوسرا بیٹا اپنے بھائی کوآرام کرنے اورسانس لینے کاکہہ کراسے بٹھادیتا اورخود کام کرنے لگ جاتا۔ باپ گھرسے واپس آتا ،اپنے دوسرے بیٹے کوکام کرتے ہوئے اور پہلے بیٹے کوچارپائی پربیٹھے ہوئے دیکھتا تووہ سمجھتا کہ اس کا پہلابیٹا کام چوراوردوسرابیٹا محنت کرنے والاہے۔ پہلابیٹا یہ سب کچھ دیکھتا اورسنتا رہا لیکن خاموش رہا ۔

تین بھائی کبھی کبھی مزدوری کرنے جایاکرتے تھے۔ جوبھی مزدوری ملتی باپ کولاکردے دیتے ۔ ایک بار ان کومزدوری معمول سے زیادہ ملی۔ ایک بھائی نے اپنے دونوں بھائیوں سے کہا کہ آج کی ساری مزدوری ابوکونہیں دیتے۔ آج کی ساری مزدوری ابوکودے دی توہمارے لیے بعد میں مشکل ہوسکتی ہے۔ ابوبعد میں کہیں گے اس دن تواتنی مزدوری ملی تھی اورآج یہ ملی ہے۔ اس لیے آج ہم ابوکومزدوری کے اتنے ہی پیسے دیتے ہیں ۔ جتنے پہلے دیتے ہیں۔بعد میں جس دن مزدوری کم ملے گی ہم ابوکویہ پیسے بھی ملاکردے دیں گے۔دونوں بھائیوں میں سے ایک نے کہا کہ ہم ابواتنے ہی پیسے دیں گے جتنے پہلے دیتے ہیں۔ لیکن آج جو زیادہ پیسے ملے ہیں وہ ہم آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ پہلے بھائی نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ اس کے دونوں بھائیوں میں سے ایک بھائی نے باپ کوبتادیا کہ بھائی نے کہا ہے کہ ہم آج ابوکومزدوری کے سارے پیسے نہیں دیں گے۔

تین افرادکی راہ چلتے ایک شخص سے ملاقات ہوگئی۔ ان میں سے ایک شخص نے تنہاشخص کوالسلام علیکم کہا۔ تنہاشخص نے اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہا ۔ پہلاشخص کہنے لگا دیکھو جی سلام کاجواب بھی نہیں دیا۔ اس کے ساتھی کہنے لگے کہ اس نے سلام کاجواب دیاہے ہم نے اپنے کانوں سے سناہے۔ اس پر پہلا شخص کہنے لگا۔ میں نے نہیں سنا۔ اب یہ کیسے پتہ چلے گا کہ اس نے سچ بولا یااس نے سلام کاجواب سن لیاتھا اوراپنارعب جمانے کے لیے تنہاشخص پرالزام لگا رہا تھا ۔ اگراس نے واقعی سلام کاجواب نہیں سنا تو اس کی کئی وجہ ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ السلام علیکم کہتے ہی کسی اورخیال میں محو ہوگیایوں وہ سلام کاجواب نہیں سن سکا ۔ ایک اوروجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس کی قوت سماعت کمزورہے جس کی وجہ سے وہ سلام کاجواب نہیں سن سکا۔سلام کرنے والے شخص نے سلام کاجواب سنایانہیں سنا مگریہ بات تودوگواہوں کی گواہی سے ثابت ہوگئی کہ تنہاشخص نے سلام کاجواب دیاہے۔

سچ جاننے کا ہرایک کااپناطریقہ ہوتاہے۔ ہرایک اپنے زاویے سے سچ معلوم کرنے کی کوشش کرتاہے۔ ایک گھوڑی کے دو دعویداروں میں سے منصف نے ایک سے کہا کہ کیاتواپنی گھوڑی پہچان لے گا۔ اس نے ہاں میں جواب دیا۔ منصف اسے اصطبل لے گیا۔ واپس آئے تومنصف نے دوسرے دعویدارسے بھی وہی سوال کیا ۔ اس نے بھی ہاں میں جواب دیا۔ منصف اسے بھی اصطبل لے گیا۔ واپس آئے تومنصف نے گھوڑی ان میں سے ایک دعویدارکے حوالے کردی۔ اس سے پوچھاگیا کہ کیادوسرے دعویدارنے گھوڑی کونہیں پہچاناتھا۔ منصف کہنے لگا کہ گھوڑی کودونوں نے ہی پہچان لیاتھا میں یہ جانناچاہتاتھا کہ گھوڑی کس کو پہچانتی ہے۔

اگر ہم اپنی قومی تاریخ پرنظرڈالیں توبہت سے سچ ایسے ہیں جوابھی تک منظرعام پرنہیں آسکے۔ ایسے کون کون سے سچ ہیں جوابھی تک پردہ میں چھپے ہوئے ہیں۔ ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔

ٹیکنالوجی کے اس دورمیں سچ جاننے کے لیے ٹیکنالوجی کااستعمال بھی کیاجارہاہے۔ سننے میں آیا ہے کہ ایک مشین ایجاد ہوئی ہے جو یہ بتادیتی ہے کہ بات کرنے والاسچ بتارہاہے یانہیں۔سچ جاننے کے لیے بائیومیٹرک سسٹم متعارف کرایاگیا ۔ یہ سسٹم سچ سامنے لانے میں کتنامددگارثابت ہوا ہے ۔یہ سچ اکثر لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔کیمرہ اورآئینہ وہ سچ دکھاتے ہیں جوان کے سامنے ہوتے ہیں۔ترازو بھی سچ بتاتاہے۔ کاروباری لوگوں کوبھی سچ بتانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ کہ وہ گاہک کومال تجارت کے عیب بتادیں۔ وہ مال تجارت کی خامیاں اورعیب چھپاکرنہ رکھیں۔اکثر کاروباری افراد اچھا اورمعیاری مال ڈھیری کے اوپرلگادیتے ہیں ،غیرمعیاری اورناقص مال ڈھیری کے نیچے چھپاکررکھتے ہیں۔ پھلوں کی پیٹیاں خریدتے وقت کھول کردیکھاجائے توایسے لگتاہے کہ دنیا میں پائے جانے والے اس طرح کے پھلوں میں سب سے معیاری، شانداراورعمدہ پھل ہمارے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ جب اسی پیٹی سے پھل نکال کرخالی کیاجاتا ہے تو وہ سچ سامنے آتا ہے جوپیٹی میں چھپاہوا ہوتاہے۔


 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350648 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.