شیخ شرف الدین سعدیؒ ایک حکایت
میں تحریرکرتے ہیں کہ ایک شخص لوگوں کو ستایا کرتا تھا اُس نے ایک درویش کے
سر پر پتھر دے مارا وہ بیچارہ بدلہ لینے کی طاقت نہیں رکھتا تھا صبر کے
گھونٹ پی کر اس وقت تو خاموش ہوگیا لیکن اس پتھر کو ہمیشہ اپنی نگاہ میں
رکھتا تھا ایک عرصہ بعد بادشاہ اُس ستانے والے شخص سے ناراض ہوگیا اور اسے
ایک کنویں میں قید کردیا درویش کو خبر ہوئی تو اس کنویں پر آیا اور اس قیدی
کے سر پر وہی پتھردے مارا قیدی نے پوچھا کہ اتنی مدت تو کہاں رہا تو درویش
نے جواب دیا کہ میں تیرے مرتبے سے ڈرتا تھا اب میں نے تجھے کنویں میں دیکھا
تو بدلہ لینے کیلئے اس موقع کو غنیمت جانا کیونکہ داناﺅں نے کہا ہے کہ جب
تو کسی نااہل کو صاحب اختیار دیکھے تو عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ صبر کر
یہاں تک کہ زمانہ اُس ظالم کے ہاتھوں کو باندھ دے پھر اپنے دوستوں کی خواہش
اور مقصد کے مطابق اسے سزا دے یا اپنا بدلہ لے ۔
قارئین!26جون گزر گئی لیکن انتخابات کے بارے میں کیا جیتنے والے اور کیا
ہارنے والے سبھی ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں دھاندلی ، دھاندلی اور دھاندلی
۔۔۔دھندلے سے اس منظر میں الزامات کا شور و غل سنائی تو دے رہا ہے لیکن
عوام کی قسمت میں مستقبل میں کیا کیا لکھا ہے یہ دکھائی نہیں دے رہا
پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکن سے لیکر اعلیٰ قیادت تک سب لوگ زمین سے آسمان
تک قلابے ملا رہے ہیں کہ 26جون کے انتخابات ان تمام نشستوں پر شفاف تھے
جہاں سے ان کی جماعت کے امیدواروں نے فتح حاصل کی جبکہ پنجاب کی نشستوں کے
متعلق فردوس عاشق اعوان سے لیکر آزاد کشمیر کے تمام لیڈرز پریس کانفرنسز سے
لیکر ہر فورم پر دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں کچھ ایسی ہی صورتحال
پاکستان مسلم لیگ ن کی دکھائی دیتی ہے جس کا یہ کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں
وفاقی حکومت کے اشاروں پر انتظامیہ کی مدد سے مشکوک ووٹرز لسٹ مرتب کی گئی
اور کئی ایسے پولنگ اسٹیشنوں کی نشاندہی کی گئی کہ جہاں اندراج شدہ ووٹرز
سے زائد ووٹ پول ہوئے کچھ ایسی ہی باتیں اس وقت برسراقتدار جماعت مسلم
کانفرنس کے صدر وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان کہتے ہوئے دکھائی
دئے اور انہوں نے ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین سے گفت و شنید کے بعد آزاد
کشمیر کے الیکشن کو بوگس قرار دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ان انتخابات کا
کشمیر کیس پر انتہائی برا اثر پڑا ہے ۔
قارئین! ان سب قائدین کی عزت ، حرمت اور سیاسی مقام اپنی اپنی جگہ پر محترم
ہے لیکن آزاد کشمیر کے لاکھوں لوگ اس وقت ان راگنیوں سے بری طرح بیزار ہو
چکے ہیں لاکھوں کشمیری تحریک آزادی کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچتے ہوئے
دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے روز مرہ کے مسائل کا حل
بھی آنے والی حکومت کرے ۔ بے روزگاری ، عدم تحفظ ، ناانصافی اور مہنگائی کی
چکی میں پسنے والے لاکھوں کشمیری اب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے والے ہیں ۔
کیونکہ 63سالوں کے د وران ہر آنے والی حکومت اقتدار میں آنے سے قبل تو عوام
کے درد کے رونے روتی ہے لیکن کرسی اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد انہیں یہی
عوام کیڑے مکوڑے اور رینگنے والے حشرات الارض دکھائی دیتے ہیں اور اس کے
بعد پانچ سال تک جب تک نئے الیکشن کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا نہ تو انہیں
عوام کے مسائل سے کوئی سروکار ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ان کی کوئی بات سننا
گوارا کرتے ہیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو بے نظیر بھٹو شہید کی المناک وفات
کے بعد قدرت نے وفاق میں ایک سنہری موقع دیا کہ وہ بے نظیر بھٹو شہید کے
مشن کو پورا کرے اور جنرل مشرف کے دس سالہ دور آمریت کے بعد جمہور کی آواز
بن کر لوگوں کے مسائل حل کرے لیکن خدا جانے کہ یہ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں
کا امتحان ہے یا پاکستان پیپلزپارٹی کی آزمائش کے تین سالوں کے دوران
مہنگائی اپنے تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے ، بے روزگاری انتہاﺅں کو چھو رہی ہے ،
خود کش دھماکوں سے لیکر ڈرون حملوں تک ایک سے ایک واقعات ملک کے طول و عرض
میں پیش آرہے ہیں اور عوامی امیدیں اس وقت مایوسیوں کی تاریکی میں تبدیل
ہوتی جا رہی ہیں ۔
پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کی قیادت کے لئے اس وقت فتح کی نوید سے بڑھ
کر فکر کا مقام ہے کہ وہ اس انتہائی کٹھن صورتحال میں اقتدار سنبھالنے جا
رہے ہیں کہ جب لاکھوں کشمیری اپنے اپنے مسائل کے حل کےلئے جذبات کا شکار
ہیں اور یہ جذباتی کیفیت اظہار کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ۔چوہدری
عبدالمجید ، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ، چوہدری یاسین ، سردار قمرالزمان ،
سردار یعقوب ، محمد مطلوب انقلابی سے لیکر پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر
کی تمام قیادت کو مل بیٹھنا ہو گا اور عوامی مسائل حل کرنے کےلئے ذاتیات سے
بلند ہو کر منصوبہ بندی کرنا ہو گی عوام تمام سیاسی قیادت سے اس حد تک
بیزار ہوتے جا رہے ہیں کہ وہ غالب کی زبان میں کہتے دکھائی دیتے ہیں ۔
کس کو دے کے دل کوئی نواسنج ِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو؟
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ؟
ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں؟
عدو کے ہو لئے جب تم ، تو میرا امتحاں کیوں ہو
اس وقت صدارت ، وزارت عظمیٰ ، سپیکر شپ ، وزارتوں سے لیکر مشاورتوں تک ہر
عہدے کےلئے ہر کوئی لابنگ کر رہا ہے اور جس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے
اس جانب کسی کی بھی توجہ نہیں ہے سیاسی قائدین یاد رکھیں کہ اگر آج انہوں
نے وقت کی آواز نہ سنی تو کل وہ بھی قصہ پارینہ بن کر سنگسار بھی ہوں گے
اور درویش کے پتھر ان کا پیچھا بھی کریں گے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک ضدی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا
”تم میری سنتے ہی نہیں ہو اپنی ہی کہے جا رہے ہوآخر کسی دوسرے کا مشورہ
قبول کیوں نہیں کرتے ۔؟“
شوہر نے جواب دیا
”نیک بخت شکر کر کہ میں اپنے دل کی کرتا ہوں اگر دوسروں کے مشورے مانتا تو
آج تم میری بیوی نہ ہوتی“
قارئین !سیاسی قائدین سے گزارش ہے کہ بے شک وہ اپنے دل کی کریں اور کسی
دوسرے کے مشورے نہ مانیں لیکن اپنے دل میں عوام کے درد کو بھی تھوڑی سی جگہ
دے دیں۔ |