ہدایت کا قُرآنی اور غیر قُرآنی مفہوم !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالقصص ، اٰیت 51 تا 60 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لقد وصلنا
لھم القول لعلھم
یتذکرون 51 الذین
اٰتینٰھم الکتٰب من قبلهٖ
ھم بهٖ یؤمنون 52 واذایتلٰی
علیھم قالوااٰمنابهٖ انه الحق من
ربنا اناکنا من قبلهٖ مسلمین 53 او
لٰئک یؤتون اجرھم مرتین بماصبرواویدر
ءون بالحسنةالسئة ومما رزقنٰھم ینفقون 54
واذاسمعوااللّغواعرضواعنه وقالوالنا اعمالنا ولکم
اعمالکم سلٰم علیکم لانبتغ الجٰھلین 55 انک لاتھدی من
احببت ولٰکن الله یھدی من یشاء وھواعلم بالمھتدین 56 و
قالواان نتبع الھدٰی معک نتخطف من ارضنا اولم نمکن لھم حرما
اٰمنا یجبٰی الیه ثمرٰت کل شئی رزقا من لدنا ولٰکن اکثرھم لایعلمون
57 وکم اھلکنامن قریة بطرت معیشتہا فتلک مسٰکنھم لم تسکن من بعد
ھم الّا قلیلا وکنا نحن الوارثین 58 وماکان ربک حتٰی یبعث فی امھا رسولا
یتلواعلیھم اٰیٰتنا وماکنا مھلکی القرٰی الّا واھلہا ظٰلمون 59 ومااوتیتم من شئی
فمتاع الحیٰوةالدنیا وزینتہا وماعنداللہ خیراوابقٰی افلا تعقلون 60
اے ھمارے رسُول ! ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ انسان کو دینی غفلت سے بیدارکرنے کا عمل ھم نے ہمیشہ جاری رکھا ھے تاکہ انسان بھی اپنی بیداری کا عمل ہمیشہ جاری رکھے ، ھمارا یہی عمل ھے کہ جس کے باعث وہ لوگ جو اِس تازہ کتابِ ہدایت سے پہلے نازل ہونے والا کوئی نوشتہِ ہدایت پڑھ چکے ہیں تو اُن میں سے کُچھ لوگ اِس کتابِ ہدایت پر ابھی بھی ایمان لا رھے ہیں اور کُچھ لوگ اِس کے بعد بھی ضرور ایمان لاتے رہیں گے کیونکہ جب اِن لوگوں کے سامنے یہ کتاب پڑھی جاتی ھے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس کتاب میں واقعی وہی اَمرِ حق ھے جس اَمرِ حق کو ھم پہلے بھی پڑھ چکے ہیں اور پہلے بھی تسلیم کر چکے ہیں اور اَب بھی اِس اَمرِ حق کو ھم پڑھ کر اور سُن کر اپنے دل سے تسلیم سے کررھے ہیں ، بِلاشبہ یہ لوگ جو اپنے سابقہ اور موجُودہ دور کے ایمان دار لوگ ہیں وہ اللہ کے نزدیک دُھرے اَجر کے حق دار لوگ ہیں ، یہ ایمان دار لوگ عام طور پر اپنے اِس عمل سے پہچانے جاتے ہیں کہ یہ لوگوں کے بُرے عمل کو اپنے اَچھے عمل سے مٹاتے ہیں اور یہ لوگ ھمارے مُہیا کیۓ ہوۓ سامانِ رزق کو زمین کے دُوسرے انسانوں تک پُہنچاتے ہیں اور یہ لوگ جب کوئی بُرا قول سُنتے اور کوئی بُرا عمل دیکھتے ہیں تو یہ کہہ کر اُن بُرے لوگوں کے اُس بُرے قول و عمل کی بُری مجالس سے اَلگ ہوجاتے ہیں کہ ھمارے اور تُمہارے اعمال اگرچہ ایک دُوسرے سے بالکُل ہی اَلگ اَلگ ہیں لیکن اِس اِختلافِ عمل کے باوجُود بھی ھم تُمہاری اللہ سے سلامتی چاہتے ہیں اور اے ھمارے رسُول ! آپ کو تو یقینا زمین کے ہر ایک انسان کی ہدایت محبوب ھے لیکن انسان کو جو کلمہِ ہدایت سُنانا آپ کے اختیار میں ھے وہ کلمہِ ہدایت دل سے قبول کرنا ہر انسان کے اپنے اختیار میں ھے اور انسان کے دل کا حال تو صرف اللہ ہی بہتر جانتا ھے کہ وہ کس وقت کس بات کو قبول کرتا ھے اور کس وقت کس بات کو قبول نہیں کرتا اِس لیۓ جس وقت جو انسان اُس کلمہِ ہدایت کو دل سے قبول کرتا ھے تو اللہ اُس کو اُسی وقت ہدایت دے دیتا ھے اور جو انسان جس وقت تک اُس کلمہِ ہدایت کے لیۓ دل کا دروازہ نہیں کھولتا ھے تو وہ انسان اُس وقت تک اُس ہدایت سے محروم رہتا ھے جس وقت وہ دل کا دروازہ نہیں کھول دیتا ھے اور آپ کی جس قوم کو ھم نے اپنی جس زمینِ حرم میں رہنے کی جگہ دی ہوئی ھے اُس زمینِ حرم میں چونکہ ہر سال کے ہر آتے ہوۓ موسم میں ہر طرف سے سامانِ رزق کے قافلے آتے رہتے ہیں اِس لیۓ اُس قوم کے دل میں یہ خوف سماگیا ھے کہ اگر آپ کی وہ قوم آپ پر ایمان لے آۓ گی تو وہ اِس زمینِ حرم کے اِس منفعت بخش اقتدار سے محروم ہو جاۓ گی کیونکہ ہر قوم کی طرح اِس قوم کے اکثر لوگ بھی یہ بات نہیں جانتے کہ ماضی کی بہت سی قومیں جو اِس کی طرح اللہ کے اَحکام پر اپنی معیشت و منفعت کو ترجیح دیتی تھیں تو اُن قوموں کو ھم نے آباد کرنے کے بعد اِس طرح سے برباد کردیا تھا کہ آج اُن کے اُن سارے ویران مسکنوں کا ھمارے سوا کوئی بھی وارث نہیں ھے لیکن ھم نے کبھی بھی کسی قوم کو اپنے کسی نبی کے پیغامِ نبوت سے پہلے اور اپنے کسی رسُول کے پیغامِ رسالت سے پہلے ہلاک نہیں کیا ھے لیکن یہ ذُود فراموش انسان تو تاحال اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکا ھے کہ انسان کو عُقبٰی کی ملنے والی حیات سے پہلے اِس کو دُنیا کی جو حیات ملی ھے اِس کی مُدتِ حیات بھی اتنی ہی مُختصر ھے جتنی ایک کھیل تماشے کی مُختصر مُدت ہوتی ھے اور اِس کا سامانِ حیات بھی اتنا ہی مُختصر ھے کہ جتنا کھیل تماشے کا مُختصر سا ایک سامان ہوتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا میں جو مضمون بیان ہوا ھے اُس مضمون میں قُرآنِ کریم نے اِس اَمر کو واضح کیا ھے کہ دین یومِ اَزل سے ایک ھے اور یومِ اَبد تک ایک ھے اِس بات سے قطع نظر کہ اِس دین کو کس زمانے کی کس زبان میں کیا نام دیا گیا ھے لیکن عھدِ ابرہیم علیہ السلام اور عھدِ محمد علیہ السلام کے بعد اِس دین کا نام ہمیشہ اسلام رہا ھے اور اِس کے ماننے والوں کو ہمیشہ ہی مُسلیم کہا گیا ھے ، قُرآنِ کریم نے اپنی اِن ہی اٰیات میں اپنے اِس دعوے کے حق میں دلیل یہ دی ھے کہ نزولِ قُرآن کے زمانے میں قُرآن کے سُننے والے کُچھ اہلِ کتاب جب اِس کتاب کی اٰیات سُنتے تھے وہ پُکار اُٹھتے تھے کہ یہ تو وہی اَمرِ حق ھے جو ھم اِس سے پہلے بھی سُن چکے ہیں اور اِس سے پہلے بھی پڑھ چکے ہیں اِس لیۓ اگر اِس کا نام اسلام ھے تو ھم بھی اِس کے ماننے والے ہیں اور اگر اِس کے ماننے والوں کا نام مُسلم ھے تو بلاشبہ ھم بھی مُسلم ہیں ، انسان کے اِس فطری خیال کی وجہ یہ ھے کہ وحی جس زمانے سے جس زمانے تک نازل ہوتی رہی ھے تو اُس کی ساخت ہمیشہ ہی یہی رہی ھے کہ وہ انسانی معاشرے میں بُرے اعمال کی توبیخ کے لیۓ اَچھے اعمال کی ترویج کی تعلیم دیتی رہی ھے اور وہ ہمیشہ ہی زمین کے وسائل کی اہلِ زمین کے درمیان مُنصفانہ تقسیم اور ترسیل کی تلقین کرتی رہی ھے اور وہ ہمیشہ ہی انسان کی بُری مجالس میں بیٹھنے کی حوصلہ شکنی اور اَچھی مجالس میں بیٹھنے کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ھے جس سے ہمیشہ ہی نیکی بدی سے اور بدی نیکی سے مُمیز عن التمیز ہوتی رہی ھے لیکن جو لوگ اُن بُری مجالس سے نکل کر اَچھی مجالس کا رُخ کیا کرتے تھے تو وہ اُن بُری مجالس میں بیٹھنے والوں پر کوئی زبانی یا جسمانی تشدد نہیں کرتے تھے بلکہ انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ ایک ترکِ تعلق اختیار کر لیتے تھے اور ترکِ تعلق کرتے وقت بھی اُن لوگوں کو اپنی طرف سے سلامتی کا یہ پیغام دے کر آتے تھے کہ ھمارا فکری و نظری اختلاف اگرچہ اپنی جگہ پر قائم ھے لیکن ھمارا احترامِ آدمیت کا تصور بھی اپنی جگہ پر قائم ھے ، اہلِ دین کا یہی وہ حسین فطری و انسانی رویہ تھا جو انسان کو بظاہر تو وقتی طور پر ایک دُوسرے سے دُور لے جاتا تھا لیکن درحقیقت فکری و قلبی اعتبار سے ایک دُوسرے کے قریب لے آتا تھا اور اِس اعتقادی بُعد کے بعد جب فکری اختلاف رکھنے والے وہ اَفراد باہَم ملتے تھے تو وہ کم سے کم اختلافِ راۓ ظاہر کرنے کے لیۓ ملتے تھے اور زیادہ سے زیادہ اتحادِ راۓ قائم کرنے کے لیۓ ملتے تھے اور ملنے کے بعد جب اَلگ ہوتے تھے تو ایک دُوسرے کو سلامتی کا پیغام دے کر ایک دُوسرے سے الگ ہوتے تھے ، عھدِ نبوی میں اُن ہی اہلِ کتاب میں یہ انسانی و معاشرتی علامات پائی جاتی تھیں جو مُوسٰی علیہ السلام کی کتاب تورات کے قوانین اور عیسٰی علیہ السلام کی کتابِ انجیل کی اَخلاقی تعلیمات سے آگاہ ہوتے تھے اور اِن کا یہ قانُونی اور اَخلاقی رویہ اِس بات کی دلیل تھا کہ دین کی اَصل ایک ھے اور دین کی زمین میں تیار ہونے والی دین کی اَخلاقی فصل بھی ایک ہی ھے اور فطری طور پر انسان دین کی اِس زمین میں دُوسرے دین و اہلِ دین کو اسی طرح پہچانتا ھے جس طرح وہ اپنے دین و اہلِ دین کو پہچانتا ھے کیونکہ زمین کے مُختلف اَدیان بھی ایک ہی شجر کی اُن مُختلف شاخوں کی طرح زمین میں بکھرے ہوۓ ہیں جس طرح انسانی شجر کی وہ مُختلف شاخیں زمین میں بکھری ہوئی ہیں جن کی اَصل ایک ھے اور انسان کے اسی فکری فہم سے اتحادِ انسان و اِتحاد اَدیان کی وہ منزلِ مُراد مل سکتی ھے جس کا نام توحید ھے اور جس توحید کے مطابق اللہ واحد ھے ، اُس کا دین بھی واحد ھے اور انسان بھی توحید کی اُسی وحدت کا ایک جُزوِ واحد ھے ، اٰیاتِ بالا میں دُوسرا مضمون وہ ھے جس مضمون کے مُخاطب وہ مُشرکینِ عرب ہیں جو پہلے نبیوں پر نازل ہونے والی پہلی کتابوں کے بھی قطعی مُنکر تھے اور اپنے زمانے کے نیۓ نبی پر نازل ہونے والی اِس نئی کتاب کے بھی قطعی مُنکر تھے جس نئی کتاب کے ساتھ سیدنا محمد علیہ السلام اُن کی طرف مبعوث ہوۓ تھے اور آپ اپنی قوم کے اِس انکارِ حق کی بنا پر ہمہ وقت اِن خیالات میں گھرے رہتے تھے کہ آپ کی قوم جلد اَز جلد اللہ تعالٰی کی اُس کتاب پر ایمان لے آۓ اور دُنیا و آخرت میں سرخ رُو ہو جاۓ اِس لیۓ ان اٰیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی علیہ السلام کو بتایا ھے کہ آپ کی تعلیم کا آپ کی قوم کے لیۓ صرف کانوں سے سُن لینا ہی کافی نہیں ھے بلکہ اِس تعلیم کا اُن کے دل میں اپنی پُوری صحت و صداقت کے ساتھ اُترنا بھی لازم ھے اور دلوں کا حال صرف اللہ تعالٰی جانتا ھے اِس لیۓ یہ بات بھی صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا ھے کہ آپ کا پیغام کس کے کانوں سے گزر کر کس کے دل میں اُترا ھے اور کس کے دل میں نہیں اُترا ھے اور جب بھی جس کے دل میں یہ پیغام اُترتا ھے تو اللہ تعالٰی اُس کو ہدایت دے دیتا ھے اور جس کے دل میں جس وقت تک یہ پیغام نہیں اُترتا اُس کو اُس وقت تک ہدایت نہیں دی جاتی ، اٰیاتِ بالا میں فطرت کے ایک اصول کے طور پر جو دو باتیں بیان کی گئی ہیں اُن میں پہلی بات یہ ھے کہ جن لوگوں کے کان اور دل وحی سے مانوس ہیں اُن میں سے کُچھ لوگ آپ کے زمانے میں بھی آپ کی دعوت پر ایمان لائیں گے اور آپ کے زمانے کے بعد بھی آپ کی دعوت پر ایمان لاتے رہیں گے اور جہاں تک آپ کی اپنی قوم کا تعلق ھے تو اِس کا دل نرم ہوتے ہوتے ہی نرم ہو گا اور جیسے جیسے اِس کا دل نرم ہو گا ویسے ہی ویسے اِس کے اَفراد کبھی انفرادی طور پر اور کبھی اِس کے مُختلف قبائل اجتماعی طور پر اِس دین کو قبول کرتے چلے جائیں گے ، اٰیاتِ بالا کا یہ ایک سیدھا سادا بیانیہ ھے جس کو ہر صاحبِ بصیرت انسان اپنی خُدا داد بصیرت سے سمجھ سکتا ھے لیکن عُلماۓ روایت کی روایات نے اِن اٰیات کے اِس مضمون میں اپنی خانہ ساز شانِ نزول کے جو ٹانکے لگاۓ ہیں اُن میں پہلا ٹانکا یہ ھے کہ انسان اپنی ہدایت و ضلالت کا ذمہ دار نہیں ھے بلکہ اِس کی ہدایت و ضلالت کا ذمہ دار خود اللہ تعالٰی ھے جو جس کو چاہتا ھے اُس کو ہدایت دیتا ھے اور جس کو چاہتا ھے اُس کو گُمراہ کر دیتا ھے اور اہلِ روایت کی ہدایت و گُم راہی کا یہ وہ گُم راہ کُن روایتی تصور ھے جس کی رُو سے ہر ایک انسان یومِ حساب کی ہر ایک باز پرس اور ہر ایک جزا و سزا سے آزاد ہو جاتا ھے ، اہلِ روایت نے اِن اٰیات کے اِس مضمون میں دُوسرا ٹانکا یہ لگایا ھے کہ اِن اٰیات میں سے تیسری اٰیت حبشہ سے آنے والے ایک عیسائی سفارتی مشن کے ایمان لانے سے مُتعلق ھے اور چَھٹی اٰیت ابو طالب کے ایمان نہ لانے سے متعلق ھے حالانکہ یہ اٰیات نہ تو کسی عیسائی وفد کے ایمان لانے سے متعلق ہیں اور نہ ہی ابو طالب کے ایمان نہ لانے سے متعلق ہیں ، اِن اٰیات کی حقیقت صرف یہ ھے کہ یہ اللہ تعالٰی کے اُس فطری قانُون سے متعلق ہیں جس فطری قانُون کے تحت کُچھ لوگ ایمان لاتے ہیں اور کُچھ لوگ کافر کے کافر ہی رہ جاتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 468825 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More