مفادات کے نظریات اور نظریات کے مفادات !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالقصص ، اٰیت 61 تا 75 !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
افمن
وعدنٰه وعدا
حسنا فھولاقیه کمن
متعنٰه متاع الحیٰوة الدنیا
ثم ھو یوم القیٰمة من المحضرین
61 ویوم ینادیھم فیقول این شرکآءی
الذین کنتم تزعمون 62 قال الذی حق علیھم
القول ربنا ھٰٓؤلاء لآء الذین اغوینا کما غوینا تبرانآالیک
ماکانواایانا یعبدون 63 وقیل ادعواشرکاءکم فدعوھم فلم
یستجیبوالھم وراواالعذاب لوانھم کانوایھتدون 64 ویوم ینادیھم
فیقول ماذااجبتم المرسلین 65 فعمیت علیھم الانباء یومئذ فھم لایتسا
ءلون 66 فاما من تاب واٰمن وعمل صالحافعسٰی ان یکون من المفلحین 67 و
ربک یخلق مایشاء ویختار ماکان لہم الخیرة سبحٰن اللہ وتعٰلٰی عمایشرکون 68
وربک یعلم ماتکن صدورھم وما یعلنون 69 وھواللہ لاالٰه الّا ھو له الحمد فی الاولٰی
والاٰخرة وله الحکم والیه ترجعون 70 قل ارءیتم ان جعل اللہ علیکم الیل سرمداالٰی یوم
القیٰمة من الٰه غیراللہ یاتیکم بضیآء افلا تسمعون 71 قل ارءیتم ان جعل اللہ علیکم النہار
سرمداالٰی یوم القیٰمة من الٰه غیراللہ یاتیکم بلیل تسکنون فیه افلا تبصرون 72 ومن رحمتهٖ
جعل لکم الیل والنہار لتسکنوا فیه ولتبتغوامن فضلهٖ ولعلکم تشکرون 73 ویوم ینادیھم فیقول
این شرکاءی الذین کنتم تزعمون 74 ونزعنا من کل امة شھیدا فقلنا ھاتوابرھانکم فعلمواان الحق
للہ وضل عنھم ماکانوایفترون 75
تُم لوگوں کو اِس دُنیا کی اِس رَواں زندگی میں یہ جو سامانِ زندگی دیا جاتا ھے وہ تُمہاری اِس زندگی کی آرائش و زیبائش کے لیۓ ہوتا ھے اور تُمہارا جو سامانِ زندگی اِس زندگی کے سامان زندگی سے مقدار میں زیادہ اور معیار میں بہتر ہوتا ھے وہ تُمہاری اِس زندگی کے بعد ملنے والی اُس زندگی کے لیۓ جمع ہوتا رہتا ھے جو زندگی تُمہاری اِس قلیل تر زندگی سے ایک طویل تر زندگی ہوتی ھے اور تُم کو وہ اَعلٰی تر سامانِ زندگی اُس دن دیا جاتا ھے جس دن تُم کو اِس عارضی زندگی سے ایک عارضی موت کے بعد نکال کر اُس دائمی زندگی کے دائمی دور میں داخل کیا جاتا ھے لیکن یاد رکھو کہ اِس جانے والے دن کے بعد اُس آنے والے دن تُم کو اُس نئی زندگی کا وہ نیا سامانِ زندگی دینے سے پہلے تُم سے یہ سوال ضرور پُوچھا جاتا ھے کہ آج تُمہارے وہ رہبر و رہنما کہاں ہیں جن کو تُم نے دُنیا میں اپنے جُھوٹے مَن کے جُھوٹے گمان کے تحت اللہ کے اقتدار و اختیار میں شریک کیا ہوا تھا اور تُم نے اللہ کی غلامی کو چھوڑ کر اُن لوگوں کی غلامی قبول کی ہوئی تھی لیکن جن چھوٹے مُشرکوں سے یہ سوال پُوچھا جاتا ھے اُن کے بولنے سے پہلے ہی اُن کے وہ بڑے مُشرک بولنا شروع کردیتے ہیں جن کے بارے میں یہ سوال پُوچھا جاتا ھے اور وہ بڑے مُشرک کہتے ہیں کہ بیشک یہ وہی لوگ ہیں جن کو ھم نے گُم راہ کیا تھا اور ھم نے اِن کو اسی طرح گُمراہ کیا تھا جس طرح ھم خود گُمراہ ہوۓ تھے لیکن آج ھم آپ کے سامنے اِس اَمر میں اِن سے اظہارِ برات کرتے ہیں کہ یہ لوگ ھماری پُوجا نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی خواہشِ نفس کی پُوجا کرتے تھے ، اِس کے بعد اُن بڑے مُشرکوں سے کہا جاتا ھے کہ اَب تُم بھی اپنے اُن بڑے پیروں ، اُن بڑے دستگیروں اور اُن بڑے پنڈتوں اور پروہتوں کو بلاؤ جن کی تُم پُوجا پاٹ کیا کرتے تھے ، اللہ کا یہ حُکم سن کر یہ لوگ۔اپنے اُن بڑے مُشرکوں کو آواز تو ضرور دیتے ہیں لیکن یہ اُن لوگوں سے کوئی جواب حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ اُس دن کے اُس عذاب کو اپنے رُوبرُو دیکھ کر اُن لوگوں کی زبان ہی گنگ ہوجاتی ھے ، اے کاش کہ یہ لوگ اُس دن کے آنے سے پہلے ہی سنبھل کر اُس دن کے حساب کو اپنے لیۓ سہل کر جایا کریں اور یاد رکھو کہ اُس دن شرک کے اُن مُجرموں سے یہ بھی پُوچھا جاتا ھے کہ تُمہارے پاس ھمارے جو رسُول آۓ تھے اُن کو تُم نے اپنے انکارِ توحید اور اقرارِ شرک کے بارے میں کیا جواب دیا تھا اور اِس سوال کا جواب بھی اِن میں سے صرف اور صرف وہی لوگ دے پاتے ہیں اور صرف وہی لوگ خدا کے عتاب و عذاب سے بَچ پاتے ہیں جو مرنے سے پہلے ہی شرک سے توبہ کرلیتے ہیں اور جو توبہ کے بعد اپنی بہترین عملی صلاحیتوں کے ساتھ اپنی توبہ پر قائم رہتے ہیں اور اے ھمارے رسُول ! آپ کا خالق و پروردِگار اپنے جہان میں اپنی قُدرت سے جو چاہتا ھے وہ پیدا کرتا رہتا ھے اور اِس جہان میں اُس نے جس انسان سے جو کام لینا ہوتا ھے اُس انسان کا اور اُس کے اُس کام کا بھی وہ خود ہی فیصلہ کرتا رہتا ھے اور کسی بھی انسان کا یہ کام نہیں ھے کہ وہ اپنی اتباعِ ذات کے لیۓ اپنی مرضی کی شخصیات کو مقرر کرے اور پھر اُن کی وہ اتباع کرے جو اتباع اُس نے یا اُس جیسے کسی دُوسرے انسان نے اپنے لیۓ خود ہی مقرر کی ہوئی ہوتی ھے اور تیرا پروردِگار بخوبی جانتا ھے کہ شرک کی اِن شیطانی رسومات اَدا کرنے والے لوگوں کی زبان سے کیا ظاہر ہوتا ھے اور دل میں کیا کُچھ چُھپا ہوا ہوتا ھے ، آپ اِن لوگوں کو بتا دیجیۓ کہ عالَم کا خالق و مالک وہی ایک اللہ ھے جو اپنے عالَم کی اِس شاہی اور آقائی کا حق دار ھے ، اِس دُنیا میں بھی اُس کی اِسی شاہی کا یہی تعارف ھے اور اِس دُنیا کے بعد کی ہر ایک دُنیا میں بھی اُس کی اِسی بادشاہی کا یہی تعارف ھے اور آپ اِن لوگوں کو یہ بھی بتا دیجیۓ کہ تُم پر دن اور رات بھی وہی اللہ بدل بدل کر لاتا ھے تاکہ تُم کام کے وقت کام اور آرام کے وقت آرام کر سکو ، تُم سوچو تو سہی کہ اگر وہ تُم پر رات کو یومِ قیامت تک اِس طرح مُسلسل کردے کہ اُس رات پر دن ہی نہ آۓ یا تُم پر وہ تُمہارے دن کو یومِ قیامت تک اِس طرح مُتواتر کر دے کہ اُس دن پر رات ہی نہ آپاۓ تو عالَم میں ایسی کون سی با اختیار ہستی ھے جو تُم کو دن کی زندہ حرکت و حرارت اور شب کی پُر سکون راحتِ جان دے سکے ، یہ صرف اور صرف اسی کی رحمت و مہربانی ھے جو تُم کو دن کو کام کی طاقت دیتی ھے اور شب کو آرام کی راحت دیتی ھے اور مَت بُھولو کہ ہر زندگی پر آنے والی ہر موت کے بعد تُم کو ایک نئی زندگی دی جاتی ھے اور ہر نئی زندگی کے بعد تُم سے پہلی زندگی کے اعمالِ زندگی کا حساب لیا جاتا ھے ، تُمہارا سَچا خُدا تُمہارے جُھوٹے خُداؤں کے بارے میں تُم سے سوال کرتا ھے ، تُمہارے ہر عمل کی دلیل طلب کرتا ھے ، تُمہارے اعمال زندگی پر شہادت طلب کرتا ھے جس کے بعد سارے انسانوں کی ہوا و ہوس کے وہ سارے ہی باطل معبود نیست و نابُود ہو جاتے ہیں اور اُس حسابِ زندگی کے بعد ہر انسان کو اُس کے اَچھے اعمالِ زندگی اور اُس کے بُرے اعمالِ زندگی کا ایک خوشگوار یا ایک ناگوار بدلہ دیاجاتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی ہر سُورت و ہر اٰیت کے ہر مقام کی طرح قُرآنِ کریم کی اِس سُورت کی اِن اٰیات کے اِس مقام پر بھی انسان کو ملی ہوئی اِس عارضی زندگی کے بعد انسان کو ملنے والی اُس دائمی زندگی کا ذکر کیا گیا ھے جو ہر انسان کو اِس زندگی کے بعد ملتی ھے اور جس دائمی زندگی کی راحتوں اور جراحتوں کا سارا دار و مدار اِس عارضی زندگی کے اُن مُثبت یا مَنفی اعمال و اَفعال پر ہوتا ھے جو مُثبت یا مَنفی اعمال و افعال اِس فانی زندگی میں اُس لاثانی کے لیۓ کیۓ جاتے ہیں اور جن اعمال و افعال کا خُدائی مقصد انسان سے دُنیا میں کم کام لینا اور عُقبٰی میں انسان کو زیادہ سے زیادہ معاوضہ دینا ھے ، قُرآنِ کریم کی دیگر مُتعلقہ اٰیات کی طرح اِن اٰیات کا مرکزی اور مقصدی مضمون بھی توحید کے اقرار اور شرک کے انکار کے اُس مضمون پر مُشتمل ھے جو مضمون عالَم کا مقصدِ تخلیق اور اہلِ عالَم کا مقصدِ تعلیم ھے کیونکہ قُرآنِ کریم کا یہی وہ مضمون اور مقصدِ مضمون ھے جس کے لیۓ قُرآنِ کریم نازل ہوا ھے اور قُرآنِ کریم کا یہی وہ مقصدی مضمون ھے جس کو دُنیا کی اِس زندگی میں انسان نے سمجھنا اور اِس پر عمل کرنا ھے اور انسانی زندگی کا یہی وہ واحد عمل ھے جس کے بارے میں عُقبٰی کی زندگی میں پہلا اور آخری سوال ہونا ھے اور اسی سوال کے درست جواب پر انسان کی اُس زندگی میں انسان کی نجات و عدمِ نجات کا فیصلہ ہونا ھے اور توحید کو ترک کر کے شرک کو اختیار کرنے کا یہی وہ جُرم ھے جو اللہ تعالٰی کے نزدیک انسان کا ایک ناقابلِ معافی اور ناقابلِ تلافی جُرم ھے ، اِس لیۓ قُرآنِ کریم اپنے اِس مضمون کو بار بار بیان کرتا ھے تاکہ انسان مرنے سے پہلے نجات و عدمِ نجات کا کم اَز کم یہ ایک اصول ضرور جان لے کہ انسان جو خطاکار ھے اُس کے ہر ارادی و غیر ارادی خطا پر نظر ثانی کی اُمید کی جاسکتی ھے لیکن جُرمِ شرک پر نظر ثانی کی کبھی بھی اور کوئی بھی اُمید نہیں کی جاسکتی کیونکہ خالق کی ذات کے ساتھ مخلوق کی کسی چھوٹی یا بڑی ہستی کو شریک کرنا نہ صرف خالق کے خالق ہونے کا انکار کرنا ھے بلکہ خالق کے ساتھ اعلانِ جنگ بھی کرنا ھے اور خالق نے چونکہ مخلوق کو اپنی اطاعت و فرماں برداری کے لیۓ پیدا کیا ھے اور اطاعت کے لیۓ پیدا کی گئی مخلوق کا اپنے خالق کے ساتھ جنگ کرنا خالق کی توہین کرنا ھے اور مخلوق کی طرف سے اپنے خالق کی توہین کرنا خالق کے قانُون میں ایک ناقابلِ برداشت اور ایک ناقابلِ معافی جُرم ھے اور قُرآن کا انسان کے اِس ناقابلِ معافی جُرم کا بار بار ذکر کر کے انسانی ذہن کو یہ سوچنے ، یہ سمجھنے اور یہ فیصلہ کرنے کا موقع دینا ھے کہ وہ اپنی زندگی میں ترکِ شر و اختیارِ خیر کی تو عُمر بھر کوشش کرتا رھے ھے لیکن ترکِ شرک کا ایک ہی بار فیصلہ کر لے کہ اُس نے شرک کسی حال میں بھی نہیں کرنا ھے بلکہ اُس نے جب تک دُنیا میں جینا ھے تو اسی خیال ، اسی تصور اور اسی عزم و ارادے کے ساتھ جینا ھے کہ اُس نے زندگی کی پہلی شعوری سانس سے لے کر زندگی کی آخری شعوری سانس تک زندگی کے کسی بھی لَمحے اور کسی بھی لَحظے میں اللہ تعالٰی کی ذات و صفات میں اور اُس کے اقتدار و اختیار میں کسی کو شریک نہیں کرنا ھے ، اٰیاتِ بالا میں رَدِ شرک و مُذمتِ شرک کے بارے میں جو کُچھ کہا گیا اور جتنا کُچھ کہا گیا ھے وہ سمجنے والے انسان کے لیۓ اتنا زیادہ ھے کہ وہ عُمر بھر بھی اسی پر غور کرتا رھے تو وہ اُس کے فکر و عمل اور اُس کی نجاتِ دُنیا و عُبٰی دونوں کے لیۓ کافی سے زیادہ ھے لیکن جو انسان عقل و فکر کا اَندھا ھے اُس اَزلی اندھے کو سُورج کی روشنی دکھانا کارِ بے کار ھے اِس لیۓ لازم ھے کہ ہر صاحبِ بصیرت انسان اپنی ہر صبح کا آغاز قُرآن کے اِسی موضوع اور اسی مضمون سے کرے اور اپنی ہر شام کا خاتمہ بھی قُرآن کے اسی موضوع کے اسی مضمون پر کرے تاکہ اُس کو یہ بات ہمیشہ یاد رھے کہ انسانی زندگی میں ارادی یا غیر ارادی طور پر سرزد ہونے والا سب سے بڑا جُرم یہی جُرم ھے جس کا نام شرک ھے لیکن اِس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ھے کہ انسان شرک تو نہ کرے مگر باقی تمام اَخلاقی و معاشرتی جرائم پورے دھڑلے سے کرتا رھے مگر اِس کا یہ مطلب ضرور ھے کہ توحید اور شرک کا یہ نازک معاملہ سمجھنے کے بعد جرائم کے دُوسرے پہلو خود بخود ہی انسان کی سمجھ میں آتے چلے جاتے ہیں اور انسان خود بخود ہی شعوری و لاشعوری طور پر اُن سے بچتا چلا جاتا ھے ، قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا کے بین السطور میں جو بات سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ھے وہ یہ ھے کہ جو لوگ شرک کا جُرم کرتے ہیں وہ اپنے قلبی و ذہنی اور شعوری و لا شعوری مفادات کے حصول کے لیۓ کرتے ہیں اور جو لوگ انسانوں سے شرک کا جُرم کراتے ہیں وہ بھی اپنے فکری و نظری مفادات کے حصول کے لیۓ شرک کراتے ہیں ، بنیادی طور پر یہ انسان کے ذہنی و قلبی مفادات کے حصول کا ایک بہت ہی سہل الحصول شیطانی طریقہ ھے جو شیطان نے انسان کے دل میں ڈالا ہوا ھے حالانکہ اِس طریقے سے انسان کو ذلت و رُسوائی کے سوا پہلے بھی کبھی کُچھ نہیں ملا ھے اور آئندہ بھی ذلّت و رسوائی کے سوا کبھی کُچھ نہیں مل سکتا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 473068 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More