سچے عاشق رسول، کالم نگار، مصنف، صحافی، مؤرخ، دانشور،
ماہر تعلیم اور سابق وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر صفدر محمود 77 سال کی عمر میں
13ستمبر 2021ء کو لاہور میں انتقال فرماگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔(
بیشک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف جانے والے ہیں)
ڈاکٹرصفدر محمود 30 دسمبر 1944ء کو گجرات کے نواحی قصبے ڈنگہ میں پیدا
ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز اور پنجاب یونیورسٹی سے شعبہ
سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ ابتداء میں کچھ عرصہ شعبہ تدریس سے
وابستہ رہے۔ 1967ء میں سول سروس کا امتحان پاس کیا اور 1974ء میں سیاسیات
کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر صفدر محمود متعدد اعلی
انتظامی اور حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ ادارہ قومی تحقیق و حوالہ،
وزارت اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر رہے۔ حکومت پنجاب کے محکمہ اطلاعات و
ثقافت اور بعد ازاں محکمہ تعلیم پنجاب کے سیکرٹری اور مرکزی وزارت تعلیم کے
سیکرٹری کی حیثیت سے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔انہوں نے کئی حکومتوں کو
بنتے اور ٹوٹتے بھی دیکھا ۔حکومت پاکستان نے تاریخ(ہسٹری) کے شعبے میں
نمایاں خدمات کے اعتراف میں انہیں 14 اگست 1997ء کو صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن
کارکردگی سے نوازا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بیس سے زائد کتابیں لکھیں جن
میں "سچ تو یہ ہے، مسلم لیگ کا دور حکومت (1954ء تا 1974ء)، پاکستان کیوں
ٹوٹا، تاریخ و سیاست، دردآگہی (مضامین)، سدا بہار (مضامین)، اقبال، جناح
اور پاکستان، تقسیم ہند، افسانہ اور حقیقت، علامہ اقبال، تصوف اور اولیاء
کرام، بصیرت، امانت، حیات قائد اعظم، آئین پاکستان ، روشنی اورحکمت شامل
ہیں۔ ان کا پسندیدہ موضوع تحریک پاکستان اور بانی پاکستان کی شخصیت ہی
رہا۔مرحوم اس حوالے سے ہر اعتراض اور غلط تحریر کا مدلل جواب دیا کرتے
تھے،اور اپنی ہر بات کو ثابت کرنے کے لیے مستند حوالوں کا سہارا لیتے
۔ڈاکٹر صفدر محمود بیورو کریٹ ہوتے ہوئے بھی ایک ادیب، محقق اور مورخ کے
طور پر مقبول اور مشہورتھے۔تصوف ، روحانیت ،ادیبوں،نقاد حضرات اور صحافیوں
میں ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا۔وہ ریٹائرمنٹ کے بعد نظریہ پاکستان
میں اپنی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ ابتدا میں کچھ عرصہ وہ نوائے وقت میں
"صبح بخیر" کے عنوان سے کالم لکھا کرتے رہے۔ بعدا زاں دیگر قومی اخبارات
میں روحانی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر کالم لکھنے کا سلسلہ شعور کی حالت
میں رہنے تک جاری رہا۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے وہ ایک مستند استاد کا
درجہ حاصل کرچکے تھے ۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں وہ ہمیشہ
جذباتی رہے، پاکستان سے ان کا عشق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ نوائے وقت کے
چیف ایڈیٹر ڈاکٹر مجید نظامی سے بے حد متاثر تھے۔ڈاکٹر صفدر محمود کا شمار
ان لوگوں میں ہوتا ہے ،جنہیں تاریخ و سیاست کے مختلف پہلوؤں کو قریب سے
دیکھنے کا موقع ملا ۔اس اعتبار سے ان کی معلومات اور تحقیق کو زیادہ وسیع
اور مستند قرار دیا جاسکتا ہے۔بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بارے میں
لکھی جانے والی شاید ہی کوئی کتاب ہوگی جس میں ڈاکٹر صفدر محمود کی کتابوں
سے اقتباس اور حوالے شامل نہ ہوں ۔وہ امریکہ اور برطانیہ کی مختلف
یونیورسٹوں اور اداروں میں پاکستان کے بارے میں بھی لیکچر دیتے رہے ۔علمی
حلقوں میں وہ امور پاکستان کے ماہرین میں شمار کیے جاتے تھے۔اگریہ کہا جائے
تو غلط نہ ہوگا کہ کچھ عرصہ سے پاکستانیت کو ایک باقاعدہ اور موثر علم کی
حیثیت حاصل ہو چکی ہے ،جن لوگوں نے اس شعبہ علم کی تنظیم سازی اور اس کے
بنیادی اسلوب کو متعین کرنے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ان میں
ڈاکٹر صفدر محمود کا نام سرفہرست نظرآتاہے ۔ان کے مضامین ملکی اور بین
الاقوامی اعلی معیار کے تحقیقی و علمی جریدوں میں تسلسل سے شائع ہوتے رہے
۔ان میں خاص طور پر امریکی ،برطانوی اور جرمنی کے ریسرچ جرنلز قابل ذکر ہیں
۔مرحوم کیمبرج یونیورسٹی کے میگزین کے ریفری بھی رہے ۔1997ء میں وہ یونیسکو
کے ایگزیکٹو بورڈ کے تین سال کے لیے رکن منتخب ہوئے۔اسلامی ممالک کی تنظیم
آئی سسکو کے عالمی ایجوکیشن کمیشن کے نائب صدر منتخب ہونے کا اعزاز بھی
انہیں حاصل ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ متعدد بین الاقوامی سیمیناروں اور
کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کرتے رہے ۔پاکستان اور پاکستان سے
باہر ان کی کتابوں اور ریسرچ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اب تک انکی
کئی کتابوں کا ترجمہ جرمن، عربی ،ازبک ،سندھی اور چینی زبانوں میں ہوچکا ہے
۔انٹرنیشنل آفیئر کے حوالے سے ایک انگلش رسالہ جس کا نام "کرنٹ آفیئر"تھا
،ان کی ادارت میں سالہا تک شائع ہوتا ہے ۔ یہ رسالہ آج بھی لائبریریوں میں
دیکھا جاسکتا ہے ،اگر اس میگزین کو پاکستان کی حقیقی تاریخ کا نام دیا جائے
تو غلط نہ ہوگا۔ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب "بصیرت " میں ایک جگہ لکھتے ہیں
کہ محدود سے لامحدود میں منتقل ہونے کا نام موت ہے اور اسی موت نے انہیں ہم
سے جدا کردیا ،وہ گجرات کے نواحی قصبے "ڈنگہ " میں پیدا ہوئے اور اسی قصبے
کے قبرستان میں مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے ہیں ۔
|