پاکستان میڈیا رائیٹرز کلب کے ممبران کے ہمراہ مجھے گذشتہ
روز شہنشاہ صحافت محترم حافظ شفیق الرحمن صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا حافظ
صاحب سے میری ملاقاتیں کئی پروگرامز میں ہو ئیں لیکن ان سے کھل کر بات نہ
ہو سکی میرے دوست افتخارخان نے مجھے کہا کہ اس بار ایک شام حافظ صاحب کے
ساتھ رکھتے ہیں یہ سن کر خوشی ہوئی اور میں نے آنے کی حامی بھر لی 16ستمبر
کو ہم کچھ دوست جن میں مرزا شعیب ،افتخار خان،ناصف اعوان،ظفر خان ظفر،عمر
افتخار، اسد نقوی اور راقم ڈاکٹر چوہدری تنویر سرور شامل ہیں شام کے وقت
حافظ صاحب کے گھر پہنچے انہوں نے بڑے جوش و خروش سے تمام دوستوں کا استقبال
کیا میں مصروفیت کی وجہ سے ایک گھنٹہ لیٹ پہنچا تب تک حاٖفظ صاحب کچھ گفتگو
فرما چکے تھے لیکن میرے پہنچنے پر دوبارہ حافظ صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا
اس سے پہلے کے میں ان کی گفتگو کے بارے میں بات کروں کچھ حافظ صاحب کی
زندگی کے بارے میں مختصراً بیان کرنا چاہوں گا۔
کل مجھے حافظ صاحب سے ہی معلوم ہوا کہ وہ راج گڑھ کے علاقے میں بھی رہائش
پذیر رہے ہیں اور انہوں نے سیاست کا آغاز بھی یہاں سے کیا تھا وہ اپنے
علاقے میں دو بار کونسلر بنے آپ اس سے ان کی شخصیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں
کہ وہ ایک دبنگ شخصیت کے مالک ہیں وہ جس میدان میں اترے کامیابی نے ان کے
قدم چومے ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو ہر میدان کے فاتح ہوں اﷲ تعالی کی
ایسے لوگوں پر خاص رحمت ہوتی ہے سیاست کے دور میں حافظ صاحب جیل میں بھی
رہے طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ سیاست میں ہیں آپ شروع میں استاد بھی رہے
ہیں اور پڑھاتے رہے ہیں ۔
حافظ صاحب جب صحافت کے شعبے میں آئے تو اس میں بھی ایک کامیاب صحافی کے طور
پر ابھر کر سامنے آئے آپ کے قلم سے ہزاروں تحریریں ،کالمز اور اداریے سپرد
قرطاس ہوئے اور قارئین سے داد تحسین حاصل کر چکے ہیں آپ جو بھی تحریر کرتے
ہیں ہمیشہ صاف گوئی اور دیانتداری سے کرتے ہیں آپ کسی موضوع پر بھی تبصرہ
کرتے ہیں بے باک کرتے ہیں آپ اردو ادب کے حوالے سے اپنی ایک الگ پہچان
رکھتے ہیں آپ کو اردو ادب پر پورا عبور حاصل ہے اور اگر آپ کو اس پر بات
کرنے کو کہا جائے تو آپ کئی کئی دن تک بول سکتے ہیں آپ ایک انتہائی شفیق
انسان ہیں اسی وجہ سے آپ کے دوستوں کا دائرہ کار بہت وسیع ہے پاکستان کے
علاوہ بیرون ملک میں بھی آپ کے مداح ہیں جو آپ سے پیار کرتے ہیں حافظ صاحب
کی شہرت ان کا کام اور شخصیت ہے آپ کی شخصیت اخلاص سے بھرپورہے آپ باہمی
محبت اور ہمدردی کے داعی ہیں آپ کی زندگی سادہ مگر پر وقار ہے اب صحافت ہی
ان کا اوڑھنا بچھونا ہے آپ ایک صحافتی تنظیم سے بھی وابستہ ہیں بطور ایڈیٹر
بھی آپ اخبارات میں اپنے فرائض سرانجام دے چکے ہیں اسی وجہ سے آپ صحافت کی
ایک معتبر شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔
آپ جب گفتگو فرماتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کوئی اہل علم بات کر رہا ہے حافظ
صاحب کے الفاظ میں عربی ،فارسی،اردو اور پنجابی کے اشعار،ضرب المثل،کہاوتیں
اور محاورے بھی شامل ہوتے ہیں ہم سے بات کرتے ہوئے حافظ صاحب نے کہا کہ آپ
کو اپنے الفاظ کے ذخیرے میں اضافہ کرنا چاہیئے ان کا کہنا ہے کہ لکھنے کے
لئے پڑھنا ضروری ہے اور پڑھنے کے لئے پڑھانا ۔۔۔بہت اچھی بات کی آپ اپنے
ارد گرد دیکھیں جتنے بھی استاد ہیں وہ آج اردو ادب کے معروف ادیب ہیں حافظ
صاحب موقع محل کے مطابق بات کرتے ہیں ادھر ادھر کی باتیں نہیں کرتے جس
موضوع پر بھی بات کر رہے ہوں ایسے لگتا ہے جیسے انگشتری میں نگینے جڑ دیے
گئے ہوں حافظ صاحب کو اﷲ تعالی نے بیان سحر سے نوازا ہے وہ اپنے قلم و زبان
سے جہاد کر رہے ہیں یہ بولتے بھی بہت خوب ہیں اور لکھنے میں بھی ان کا کوئی
ثانی نہیں ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ اچھا لکھنا چاہتے ہیں تو اچھا پڑھیں اس کے لئے
انہوں نے محمد حسین آزاد کی کتاب آب حیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب سے
پہلے آپ اس کتاب سے پڑھنے کا آغاز کریں جب یہ کتاب اچھی طرح پڑھ لیں سمجھ
لیں پھر ابوالکلام آزاد کی کتاب غبار خاطر کو پڑھیں ظفر علی خان کی کتاب
مذہب و سائینس جو کہ انگریزی زبان کا ترجمہ ہے وہ بھی پڑھیں ڈپٹی نذیر احمد
کا کوئی ایک ناول پڑھ لیں بیگمات کے آنسو خواجہ حسن نظامی کی کتاب بھی
پڑھیں حر ف و حکایت بھی پڑھیں اشرف صبوعی کی ایک کتاب دلی جو ایک شہر تھا
یہ بھی پڑھیں آپ ان کتابوں کے الفاظ دیکھیں اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ
کریں تا کہ آپ اچھا لکھ سکیں پڑھتے وقت جو الفاظ ،فقرے یا محاورے اچھے لگیں
ان کو لکھ لیں اس کے علاوہ مختار مسعود کی کتاب آواز دوست ، لوح ایام اور
حدیث شوق پڑھیں ان کا کہنا تھا کہ جس نے مختار مسعود کو نہیں پڑھا اس نے
اردو ادب کو نہیں پڑھا اس بات کے ساتھ ہی یہ بیٹھک تمام ہوئی اور آخر میں
دوستوں کی تواضع کی گئی اور انہوں نے سب کا شکریہ ادا کیا کہ آپ سب لوگ
میرے غریب خانے پر تشریف لائے ۔
|