مدراس ہائی کورٹ نے پچھلے دنوں مرکزی حکومت کے وضع کردہ
نئے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی چند دفعات پر پابندی لگادی ۔ اس کی وجہ یہ
بتائی گئی کہ ان کے سبب ذرائع ابلاغ کو قابو میں رکھنے کی کوشش کا امکان
ہے۔عدالت نے برملا اس خدشے کا اظہار کیا کہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے میڈیا
کوکنٹرول کرنے کی سرکاری کارروائی سے ذرائع ابلاغ کی آزادی کو سلب کیا جا
سکتا ہے ۔ عدالت کے خیال میں اگر ایسا ہو جائے تو جمہوریت کا چوتھاستون
اپنی جگہ نہیں ٹک پائے گا۔ ویسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر جمہوریت کا قلعہ
ہی ڈھے جائے تو بیچارہ ستون کیا کرے گا؟ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے عدالت کی
فکر مندی قابل ستائش ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں بہت تاخیر
ہوچکی ہے اور موجودہ میڈیا فی الحال الا ماشاء اللہ کسی قانون کا محتاج
نہیں ہے ۔ ان میں بیشتر پر ایمرجنسی کے متعلق لال کرشن اڈوانی کا یہ تبصرہ
من و عن صادق آتا ہے کہ ’’ان کو جھکنے کے لیے کہا گیا تو یہ سجدہ ریز
ہوگئے‘‘۔ فی زمانہ جھکنے کے لیے کہنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی کیونکہ
گودی میڈیا کے مہا رتھی سرکار کے آگے سجدے کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتے
ہوئے سے سر اٹھانابھی گوارہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں پر علامہ اقبال کا یہ
شعر (ترمیم کی معذرت کے ساتھ) صادق آتا ہے؎
یہ مصرع لِکھ دیا کس شوخ نے ٹی وی کی چھتری پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
مدراس ہائی کورٹ ے قبل بمبئی ہائی کورٹ نے بھی 16؍ اگست کو ایک حکم نامہ
جاری کرکے اس قانون کی ان دفعات پر روک لگا دی تھی جن میں میڈیا کے لیے
پریس کونسل کی ہدایات پر عمل کرنا اور ٹی وی چینلز کو متعلقہ ادارے کی
رہنما ئی کو ماننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ای ڈی
اور سی بی آئی کی مانند سرکار اپنا ایک پٹھو ان اداروں پر مسلط کرکے اپنی
من مانی کرتی رہے۔ کئی عدالتوں کے یہ رائے ہے کہ اس قانون کی خلاف ورزی
کرنے والے ناشرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی ۔ سوال یہ ہے کہ
میڈیا کے سہارے اقتدار میں آنے والی سرکار کو آخر ذرائع ابلاغ سے اس قدر
خوف کیوں محسوس ہونے لگا ہے؟ مودی انتظامیہ کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی اور
عدم اعتماد کایہ سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پچھلے دنوں ہندی کے سب سے بڑے اخبار
دینک بھاسکر پر چھاپہ پڑا۔ اس کے بعد ابھیسار شرما کے نیوز کلک نامی پورٹل
پر ای ڈی نے چھاپہ مارا کیونکہ وہ بھی حکومت کا ناقد ہے۔ ابھی حال میں نیوز
کلک کے علاوہ نیوز لانڈری کو نشانہ بنایا گیا کیونکہ سرکاری یا نجی
اشتہارات سے بے نیاز صارفین کی اعانت سے چلتا ہے ۔ اس لیے دل کھول کر حکومت
کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فی الحال غیر
قانونی سرکاری جارحیت سے جری قومی صحافت نبرد آزما ہے۔ اس ڈرانے دھمکانے
کی حکمت عملی کا اثر آوٹ لوک جیسے دلیر جریدے کے اوپر بھی پڑا ہے ۔
’ آؤٹ لک ‘ میگزین راجن رہیجا گروپ کی ملکیت ہے ۔ 1995 میں اسے معروف
صحافی ونود مہتا کی ادارت میں شروع کیا گیاتھا ۔ فی الحال اس ادارے کے تحت
’ آؤٹ لک انگریزی ‘ ، آؤٹ لک ہندی‘ ،آؤٹ لک منی ‘، آؤٹ لک بزنس ‘
اور آؤٹ لک ٹریولر‘ جیسے جریدے نکل رہے ہیں ۔ یہ انتہائی شرمناک صورتحال
ہے کہ حکمراں جماعت کے جبر نے اس غیر جانبدارانہ صحافت کے علمبردار ادارے
میں مدیر اعلیٰ کی برخواستگی اور منتظم اعلیٰ کو استعفیٰ دینے پر مجبور
کردیا ۔ روبن بنرجی کو 2018 میں آؤٹ لک میگزین کے ایڈیٹر مقرر کیا گیا
تھا اور 2019 میں انہیں چیف ایڈیٹر ، ’آؤٹ لک منی‘ اور ’ہندی آؤٹ لک ‘
بنایا گیا ۔ اسی سال انہیں گروپ ایڈیٹر ان چیف بھی نامزد کر دیا گیا ۔ یہ
تیز رفتار ترقی اس بات ثبوت ہے ان کا رکردگی بہترین تھی لیکن جب انہوں نے
پیگاسس اور ٹویٹر قوانین جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا تو انتظامیہ پر سرکاری
دباو آگیا ۔ ویسے تو چیف ایگزیکٹو رائے نے اس امر کی تردید کی لیکن کمپنی
کےسابق منیجنگ ڈائریکٹر سنیل مینن کا استعفیٰ کسی اور جانب اشارہ کرتا ہے۔
انہوں نے اپنے ٹویٹ لکھا کہ ‘یہ باب اب بند ہونا چاہیے۔ روبن بنرجی میرے
آخری ایڈیٹر تھے ، شکریہ‘‘۔
سنیل مینن نے اپنے استعفیٰ کو روبن بنرجی سے الگ کر کے ان کا نجی فیصلہ
بتایا حالانکہ یہ ساری چیزیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ ویسے مینن نے یہ
اعتراف کیا کہ ادارہ جس سمت گامزن ہے ، وہ خود کو اور اپنے اقدار کو اس کے
موافق نہیں پاتے۔اس ایک جملے میں پوری داستان سمائی ہوئی ہے۔ روبن بنرجی کا
قصور یہ تھا کہ 33 دنوں کی چھٹی کے بعد دفتر پہنچ کر انہوں نے سینئر
ایڈیٹرز سے اگلی کور اسٹوری کے لئے’ اباجان اوریوگی‘ کے موضوع کا انتخاب
کیا ۔ اس کے دو گھنٹے بعد انہیں نوکری سے برخاست کردیا گیا۔ ان پر بے
ضابطگی کا جھوٹا الزام لگایا گیا ۔بنرجی سوال کرتے ہیں 12؍ ستمبر کو انہوں
نے طبیعت کی ناسازی کے سبب چھٹی بڑھا نے کی درخواست کی اور 16؍ کو دفتر سے
رجوع کرلیا ۔ ایسا کرنا بے ضابطگی کیسے ہوگیا ؟چیف ایگزیکٹیو اندرنیل رائے
میگزین کے ڈیجیٹل لانچ میں ان کی غیر حاضر ی کا بہانہ بنا رہے ہیں مگر اس
دوران تو وہ منظور شدہ تعطیلات پرتھے۔ یہ سارے لنگڑے لولے بہانے ہیں اصل
بات وہ ہے جس ذکر کرنے کی جرأت ادارے کے منتظمین میں نہیں ہے۔
موجودہ حکومت کی ان حرکتوں کے سبب یہ ملک پریس کی آزادی کے معاملے میں دن
بہ دن نیچے اترتا جارہا ہے۔ اس معاملے میں ہندوستان کےموجودہ مقام
کااندازہ’رپورٹرود آؤٹ بارڈرز‘ (آر ایس ایف) نامی عالمی تنظیم کی جانب
سے جاری کردی پریس فریڈم انڈیکس سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس درجہ بندی کے مطابق
دنیا کےجملہ 180 ممالک میں ہندوستان 142 ویں نمبر پرہے ۔ذرائع ابلاغ کی
آزادی کے معاملے میں تین چوتھائی ممالک کی حالت وطن عزیز سے بہتر ہےاورہم
آخری ایک چوتھائی میں سسک رہے ہیں ۔ آر ایس ایف نے اس کا یہ جواز پیش کیا
کہ ملک میں میڈیا کی آزادی کو پامال کیا جارہا ہے ، سنسرشپ کے نئے آلات
وضع کیے جارہے ہیں ۔ اسی کے حوالے سے عدلیہ فکر مند ہے۔ یہاں پر صحافیوں کو
من مانے طریقہ پر جیل میں ڈالا جارہا ہے ۔ اس کی سب سےمشہور مثال صدیق کپن
ہے۔ اس کے علاوہ ماہِ جون میں اے بی پی کے سلبھ شریواستو کو اترپردیش میں
شرب مافیا نے قتل کردیا اور گزشتہ ماہ آندھرا پردیش میں چنا کیشولو نامی
ٹی وی ۹ کے صحافی پر وینکٹ سبیاّ نامی پولس قاتلانہ حملہ کردیا۔
میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والی موقر تنظیم آر ایس ایف ٓر ایس ایف
نے’میڈیا کی آزادی پر حملہ آور ‘ ( پریڈٹر آف پریس فریڈم ) کی بھی ایک
فہرست جاری کی جس میں 37 سربراہان حکومت کا نام شامل ہے۔ اس لسٹ میں بدنامِ
زمانہ شمالی کوریا کے کم جونگ اُن ، میانمار میں فوجی بغاوت کی قیادت کرنے
والے آرمی چیف من آنگ ہلانگ، پاکستان کے عمران خان اور سعودی عرب کے
شہزادہ محمد بن سلمان کی صف میں نریندر مودی کو بھی کھڑا کردیا ہے ۔آر ایس
ایف نے نریندر مودی کے بارے میں کہا ہے کہ’ میڈیا ہاؤس پر قابض ارب پتی
سرمایہ داروں سے ان کی قربت ہے ۔ وہ مودی کوقوم پرستی کے مقبول نظریے کی
ترویج اور تفریق و توہین آمیز تشہیر کو فروغ دینے میں تعاون کرتےہیں۔
اقتدار پر قابض ہونے کے بعد مودی 26 ؍مئی 2014 سے پریس پر حملہ آور ہیں
نیز غلط معلومات کی تشہیر کررہے ہیں ۔آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق نریندر
مودی نے 2001 میں گجرات کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد نشرو اشاعت کے ذرائع کو
کنٹرول کرنے کا طریقہ ایجاد کیا اور 2014 میں وزیراعظم بننے کے بعد اسے خوب
آزمایا۔
ذرائع ابلاغ سے متعلق مودی سرکار کی دوہری حکمت عملی کو اس رپورٹ میں واضح
کیا گیا ہے۔ پہلے طریقۂ کار کے تحت بڑے میڈیا گھرانوں کو بہت ساری غلط
جانکاری دی جاتی ہے۔ وہ مودی جی کی تفرقہ انگیز اور توہین آمیز تقاریر کے
ساتھ غلط معلومات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔ مودی کی تفرقہ
انگیزی پر سوال اٹھانے والوں کو خاموش کرنے کے لیے قانون کا سہارا لیا
جاتاہے جس سے پریس کی آزادی کو خطر ہ لاحق ہے ۔ عدلیہ اسی سے پریشان ہے ۔
آوٹ لک جیسے واقعات سے ظاہر ہےصحافیوں کوسرکار کی تنقید کرنے پر ملازمت سے
نکال دیا جاتا ہے۔ اے بی پی پونیہ پرسون واجپائی بھی اس کی ایک مثال ہیں۔اس
کے علاوہ بی جے پی آئی ٹی سیل نامی صحافتی غنڈہ گردی کا راز بھی فاش کیا
گیا ہے۔ رپورٹ میں سوشل میڈیا پرآن لائن ٹرولنگ کے ماہر ایک منافرت
پھیلانے والے جنگجو فوج کا تذکرہ ہےجو صحافیوں کاقتل تک کرنے کی دھمکی دے
ڈالتی ہے۔ آر ایس ایف کی رپورٹ میں آنجہانی گوری لنکیش کے قتل اوررانا
ایوب و برکھادت جیسے مودی مخالف صحافیوں کو نشانہ بنانے کی تفصیل موجود ہے
۔ اس چشم کشا رپورٹ میں ملک کے اندر میڈیا کی موجودہ صورتحال کا بخوبی
اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
(۰۰۰۰جاری)
|