ترجیحات اور توجیحات

ہردور میں ہماری ریاست کو بیرونی دشمنوں سے زیادہ میرجعفر کی باقیات، منفی سیاست، زرد صحافت،مادرپدرآزادطبقات، چور سیاستدانوں جبکہ رشوت خوراورکام چور انتظامیہ نے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ہمارے ہاں" رواداری" اور"بردباری" کادامن چھوڑ کر"برادری" کاہاتھ تھام لیاگیا ، جس کے نتیجہ میں ہم منقسم ،منتشر،متشدد اورمتعصب ہوتے چلے گئے ۔ پراگندہ سیاست کی نحوست سے ہماری ریاست کی رگ رگ میں منافرت اورصوبائیت کازہر سرائیت کرتا گیا، اٹھارویں ترمیم کے نام پر"وفاق" میں "نفاق" کابیج" بونے" والے عناصر" سیاسی بونے "ہیں،اس ترمیم کے ہوتے ہوئے ہم ہجوم سے دوبارہ ایک متحد و مستعد قوم بن سکتے ہیں اورنہ تعمیرو ترقی ہمارامقدربنے گی ۔اٹھارویں ترمیم نے" فیڈریشن" کو"ڈپریشن" کے سوا کچھ نہیں دیا،"وفاق" اورسندھ کے درمیان "نفاق "کی فضا اٹھارویں ترمیم کاشاخسانہ ہے، اس ترمیم سے جس جس سیاستدان نے فائدہ اٹھایاوہ باری باری بے نقاب اورکافی حدتک انتخابی سیاست سے بیدخل ہوگیا ۔میں سیاسی بونوں کوکہتا ہوں، ریاست کیلئے سیاست کرنا مستحسن جبکہ ریاست کے ساتھ سیاست کر نا منافقت اورناقابل برداشت ہے۔جو عناصرسیاست کیلئے ریاست کوتختہ مشق بناتے یا بلیک میل کرتے ہیں ان کیخلاف راست اقدام کیوں نہیں کیاجاتا۔بدقسمتی سے ڈھیل اورڈیل کی سیاست نے پاکستان اوراس کی معیشت کوڈی ریل کردیا۔ہماری ریاست، سیاست اورصحافت شعبدہ بازی اورشعبدہ بازوں کے شکنجے میں ہے۔پچھلے دنوں سہیل وڑائچ نامی صحافی نے کاہنہ کے ایک باریش شعبدہ باز کاانٹرویوکرکے اپنا، اپنے چینل اورہماری صحافت کاقدچھوٹا کیا ،اس پروگرام میں باریش "چورن فروش" کاجوشاندار گھر ،مہنگی گاڑیوں اورمسلح سکیورٹی گارڈزکا جوجلوس دکھایا گیا، ان میں سے اُس کااپناکچھ بھی نہیں تھا اوراس جھوٹ میں سہیل وڑائچ بھی شامل تھا۔شاید کچھ انسان محض "اِنعام "اور "طعام" کیلئے دنیا میں آئے ہیں،تاہم اس قسم کے کرداروں کوہرگز"دوام" نصیب نہیں ہوتا۔

یادرکھیں شہرت بھی منفی اورمثبت ہوتی ہے ،ملعون فرعون اورپلید یزید کو بھی بہت شہرت ملی لیکن یہ دونوں عزت سے محروم ہیں جبکہ ہرعہد کا مورخ امام حسین علیہ السلام کی شجاعت اور نیک شہرت کامداح اوران کے افکار وکردارکی شہادت دیتا ہے ۔تاریک راہوں پرگامزن نام نہاد ٹک ٹاک سٹار یادرکھیں منفی شہرت شہوت سے بدتر ہے۔ہم میں سے ہر کسی نے اپنی زندگی میں کئی بار ستاروں کوآسمان سے ٹوٹ کر گرتے اور بے نام ونشان ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔کوئی ٹک ٹاک سٹار ملک وقوم کیلئے سرمایہ افتخار نہیں ہوسکتا ۔"فلم سٹار" اور"پورن سٹار" کے بعد "ٹک ٹاک سٹار" کی" اصطلاح "کے بل پر ہم پاکستان کے بیش قیمت بیٹوں اورقوم کی انمول بیٹیوں کی "اصلاح "اور"فلاح "کا راستہ ہموار نہیں کرسکتے۔مینارپاکستان میں جوواقعہ ہوا اس میں ملزم فریق کو مدعی بنادیا گیااورچارسو نامعلوم افراد کیخلاف ایف آئی آر درج کردی گئی ،15پر کال کے باجود ایس ایچ اونہیں پہنچا تو تخت لاہور پربراجمان" تاریک انصاف" کی "بیزار سرکارــ"نے فرض شناس ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ساجدکیانی ،ایس ایس پی سیّد ندیم عباس اورایس پی حسن جہانگیرکوان کے عہدوں سے ہٹا تے ہوئے" انصاف" کاخون کردیا۔چارسوافراد مختصر وقت میں باری باری کسی میت کوکندھا نہیں دے سکتے ،کسی بارات میں شریک چار سولوگ باری باری دولہا کے ساتھ تصاویرنہیں بنوا سکتے توپھر چارسوشہریوں کاہجوم ایک ساتھ ملعون خاتون کوکس طرح چھیڑ سکتا ہے ۔ مینارپاکستان واقعہ کے تفتیشی آفیسرکا محض سی ڈی آر کی بنیادپر بیگناہ شہریوں کوگرفتارکرنا ایک بھونڈا مذاق ہے ۔ ملعون خاتون کی طرف سے شناخت پریڈ کے دوران گرفتار افراد کو شناخت کرنے میں ناکامی کے باوجود اس معاملے کولٹکانا اورالجھاناایک سوالیہ نشان ہے،بوگس ایف آئی آر خارج جبکہ سوشل میڈیا پردعوت گناہ دینے کی پاداش میں بدنام زمانہ ٹک ٹاکر کیخلاف قانونی کارروائی کی جائے ۔ ٹک ٹاک پرسرگرم "بل بتوڑیاں" اور"کوڈو" اپنی اپنی حدمیں رہیں ، انہیں اپنے مذموم شوق کیلئے اسلامی ریاست کوتختہ مشق بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

بدقسمتی سے اِسلامی فلاحی ریاست کونظریاتی طورپر"بنجر" بنانے کیلئے سرگرم مخصوص " کنجر" کئی دہائیو ں سے انعامات اورمراعات سمیٹ رہے ہیں جبکہ اسلامیت اورپاکستانیت کی محبت میں تعمیری نظریات کواپنے خون سے سیراب کرنیوالے قابل قدر" کرداروں" کوریاستی"اداروں" نے زندہ" دیواروں" میں چنوادیا ہے۔عمر شریف درس قرآن نہیں دیتا تھا،اس نے زندگی بھردولت اورشہرت کمائی اوربیمار ہوا توریاست یادآگئی ، امیرکبیرفنکاروں نے بھی اس کی مالی مدد کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت فنڈریزنگ کرنے کی بجائے حکومت پربوجھ ڈال دیا ، میں نے آج تک ریاست کو کسی حافظ قرآن ، امام مسجد،نعت خواں اورٹیچر کا سرکاری وسائل سے علاج کرواتے ہوئے نہیں دیکھا ،کیا ہمارے قومی وسائل پرصرف سیاستدانوں اورفنکاروں کاحق ہے۔ریاست کیلئے نظریاتی صحافت کادم غنیمت ہے ،تاہم ہماری مخصوص اورمنحوس صحافت جو پچھلی کئی دہائیوں سے اب سراپاتجارت ہے ،اس کی" ترجیحات" اور"توجیحات" پرغورکریں ، فلاں اداکارہ کی ڈانس ویڈیووائرل ہوگئی ،فلاں ٹک ٹاک سٹار کا بیاہ ہوگیا ،معذرت کے ساتھ اگر یہ صحافت ہے توپھر جہالت اورذلالت کیا ہے، اس قسم کے صحافیوں سے تووہ افراد بہتر ہیں جو پبلک ٹرانسپورٹ کے اندر اپنے اونچے" سَروں ـ" اور"سُروں"کے ساتھ اپنا سامان تجارت فروخت اوراپنے بیوی بچوں کی رزق حلال سے پرورش کرتے ہیں۔ریاست کی بقاء جبکہ معاشرت کی اصلاح اور فلاح کیلئے قومی سیاست کے ساتھ ساتھ قومی صحافت بھی اپنی سمت اورترجیحات تبدیل کرے۔مجھے ڈر ہے ہمارے کچھ صحافی" صحافت "کی آزادی بچاتے بچاتے اپنی عزت سے ہاتھ نہ دھوبیٹھیں ۔معاشرے کاکوئی طبقہ اورشعبہ ریاست کے اندر ریاست نہیں بناسکتا،اہل سیاست اوراہل صحافت ریاست کی رٹ تسلیم کرنے کے پابند جبکہ آئین و قانون کوجوابدہ ہیں۔سیاست یاصحافت کسی صورت ریاست سے مقدم یامقدس نہیں ہوسکتی۔جس طرح ریاست کی سرحد ہوتی ہے اس طرح صحافت کی بھی حدودمتعین کرنا ہوں گی ۔

ہمارے اخبارات کا مادرپدرآزادی بلکہ بربادی کی راہ پرگامزن مردوزن کو ٹک ٹاک سٹار لکھنا گناہِ بے لذت کے سوا کچھ نہیں۔"مہنگائی" کیخلاف دوہائی دینے والے ٹی وی چینل کمرشل اور"فنون" کی آڑ میں نوجوان نسل کی رگ رگ میں شہرت کا" جنون" اور "بے حیائی" کازہراتاررہے ہیں، کیا ان پر کسی ضابطہ اخلاق کااطلاق نہیں ہوتا ۔متعدد کمرشل"ایڈز" معاشرے کیلئے مہلک" ایڈز" سے بدترہیں ۔"روشن خیالی "کے بل پر اخلاقیات کی آبیاری کاسوچنا "خام خیالی" ہے۔پچھلے دوسال سے کیبل پربظاہربھارتی چینل بندہیں جوایک مثبت اقدام ہے تاہم "پی ٹی وی" پربھارت میں بھارتی فنکاروں کی مدد سے تیار ہونیوالے اشتہارات نشر کرنے پرکوئی قدغن نہیں،حکومت کے پاس اپنے اس دوہرے معیارکاکیا جواز ہے۔حکمران،علماء اورعوام یادرکھیں اسلامی معاشرے کیلئے" مہنگائی" سے بڑا خطرہ" بے حیائی "ہے ۔عوام چندماہ کیلئے "مہنگائی" کاماتم چھوڑیں کیونکہ ہمیں فوری طورپر بے راہ روی اور" بے حیائی" کاسیلاب روکنے کیلئے "حیاء "کا بندباندھناہوگا ۔ہمیں پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی طرح نظریاتی سرحدوں کوبھی ناقابل تسخیر بنا ناہوگا۔ چندروز قبل خیابان چورہ شریف لاہور میں عالمی چادر اوڑھ تحریک پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ سالانہ کانفرنس سے امیرعالمی چادر اوڑھ تحریک پاکستان و سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف پیر سیّد احمد مصطفین حیدر شاہ گیلانی مجددی نے اپنے پرجوش اورپرمغزخطاب میں کہا ،"تاریخ اسلام کے بڑے سانحہ کربلا میں سیدہ زینب ؑ سمیت اہل بیت پاکیزہ خواتین نے حجاب کاتقدس پامال نہیں ہونے دیا۔عریانی و فحاشی کے محرکات سے مجرمانہ چشم پوشی کرنے کی بجائے مستقل اورموثرسدباب کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ کانفرنس میں شریک قوم کی باوفا اورباصفاء بیٹیوں کو پیر سیّد احمد مصطفین حیدر شاہ گیلانی مجددی اور پیر سیّد احمد سبطین حیدر شاہ گیلانی مجددی نے خوب صورت چادروں کابیش قیمت تحفہ پیش کیا ۔ایک طرف مٹھی بھر کوتاہ اندیش اورگمراہ عناصر قوم کی بیٹیوں کی چادریں اورعزتیں نوچ رہے ہیں اوردوسری طرف پیر سیّد محمدکبیر علی شاہ گیلانی مجددی کے قابل رشک فرزندان سیّد احمد مصطفین حیدر شاہ اور سیّد احمد سبطین حیدر شاہ سراپارحمت اور سرورکونین سیّدناحضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی روح پرورسنت کو تازہ کرتے ہوئے قوم کی بیٹیوں کے سروں پرچادریں اوڑھارہے ہیں،اس بینظیر خدمت اورسعادت پر سیّد احمد مصطفین حیدر شاہ اسلامی ریاست کی طرف سے اعلیٰ اعزازات کے مستحق ہیں۔ریاست تعلیمی نصاب کی مدد سے انقلاب برپاکرتے ہوئے قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کیلئے اخلاقیات پرفوکس کرے۔معاشرے میں بیٹیوں کااحترام واکرام یقینی بنانے کیلئے نقاب ،حجاب اور چادر کو یونیفارم اورعام لباس کاناگزیرحصہ بنایاجائے۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 89927 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.