ٹی و ی سکرین پرچلنے والی خبر اور تصویریں دیکھ کر میں
کھانا کھاتے کھاتے رک گیا تیز بھوک چند نوالوں سے ہی اڑ گئی طبیعت بوجھل
اور اداس سی ہو گئی دل و دماغ کو شل کرنے والی خبر نے میری حالت غیر کر دی
ظاہر باطن پر اداسی غم کے اثرات اترتے چلے گئے اداسی پریشانی غم کی شدت اس
قدر بڑھی کہ ٹی وی آف کر کے اٹھ کر باہر کھلے آسمان تلے آکر لمبے لمبے سانس
لینے لگا خبر کی تفصیلات نوک دار خنجر کی طرح میرے رگ و پے کو کاٹ رہی تھیں
کہ کوئی انسان کس قدر گر سکتا ہے کہ انسانیت درندے کا روپ دھار کر شیطان کو
بھی شرمندہ کر دے میں بار بار اپنے دل و دماغ کو واقعہ کی جزیات سے ہٹا کر
اِدھر ادھر کی سوچو ں میں مصروف کر نا چاہ رہا تھا لیکن دماغ بار بار اُسی
واقعے میں الجھ رہا تھا بارہ سالہ معصوم ذہنی طور پر معذور بچی کا چہرہ بار
بار میری سوچوں میں آکر بچھو کی طرح کاٹ رہا تھا خبر کے مطابق بارہ سے چودہ
سالہ معصوم ذہنی معذور بچی پر جنسی درندے کی بار بار درندگی کہ وہ بیچاری
حاملہ ہو گئی ذہنی معصوم بارہ سالہ بچی جس کو اپنی خبر نہیں جو قدرت کا
معصوم پھول ہوتی ہے سمجھ شعور عقل و فہم سے عاری قدرت کا معصوم پھول کس طرح
جنسی درندے نے معصوم پھول کو درندگی کا نشانہ بنایا رہا توبہ میری روح بار
بار کٹ رہی تھی کہ کوئی انسان اِس قدر گھٹیا درندہ عفریت بن سکتا ہے کہ
معصوم معذور بچی جس کو اپنی خبر نہیں ہو ش نہیں کس طرح شیطانی درندے نے اُس
کی پامالی کی یہ واقعہ تو میڈیا پر آنے کی وجہ سے لوگوں کو پتہ چل گیا اِس
ملک میں پتہ نہیں کہاں کہاں کیسے کیسے جنسی درندے اِس طرح کی حرکات کرتے
ہیں بیچارے متاثرہ خاندان اپنی عزت کو بچانے کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں آپ
زینب کیس سے لے کر بے شمارکیسوں کا اگر مطالعہ کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے
کہ کس طرح انسان دوسال سے دس سال کی معصوم بچیوں کو ٹافیوں کھلونوں کا لالچ
دے کر اپنی جنسی درندگی کا شکار کر تے ہیں اِن جنسی درندوں کے واقعات سن کر
نارمل انسان عقل و شعور کھو دیتا ہے کہ کس طرح نازل پھول جیسی بچیوں کو
بانجھ بنجر معاشرے کے جنسی درندے مسلتے ہیں پھر اِن بچیوں کو بے رحمی سے
موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں حیران کن ہو شر با دلوں کو چیرنے والے حقائق یہ
بھی سامنے آتے ہیں کہ ایسے جنسی درندے ایک بار ایسے شیطانی درندگی کا
مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ نفسیاتی مادی مجرم بن کر بار بار ایسے جنسی واقعات
کا موجب بنتے ہیں ایسے جنسی درندے معاشرے میں شرافت نیکی کا لبادہ اوڑھ کر
کتنے آرام سے معصوم بچیوں کا شکار کرتے ہیں اور پھر کتنے مہینوں سالوں تک
اس درندگی کو جاری رکھتے ہیں عام انسان اگر کوئی غلطی گناہ کرے تو اُس کا
ضمیر جاگ جاتا ہے اور وہ پھر ساری زندگی عرق ندامت میں غرق رہ کر اپنے گناہ
کی تلافی کی کو شش کرتا ہے ایک گناہ ساری زندگی اُس کو ندامت کی آگ جھلساتا
رہتا ہے لیکن یہ جنسی درندوں کی کونسی نسل ہے یہ عفریت نما جنسی جانور کہاں
سے آگئے ہیں کہ مسلسل جنسی درندگی کتنے آرام سے شرافت کا لبادہ اوڑھ کر کئے
جاتے ہیں پچھلے چند مہینوں سے جنسی بے راہ روی درندگی اِس قدر بڑھ گئی ہے
کہ وطن عزیز کا کونہ کونہ اِس آگ سے جھلس رہا ہے اسلام آباد میں عثمان مرزا
پھر ظاہر جعفر نے جس طرح جنسی آزادی شیطانیت کے ریکارڈ توڑ کے شیطان بھی سر
چھپا کر بیٹھ گیا ہو گا کہ کس طرح دونوں جنسی درندوں نے ڈھٹائی جرات اور
پاگل پن کے مظاہرے کئے پھر سڑک پر رکشہ میں سوار شریف زادیوں پر آوارہ قماش
جوانوں کے حملے اور جنسی دست انگیزی اور پھر مینار پاکستان پر سینکڑوں
جوانوں نے بے شرمی شیطانیت کے سارے ریکارڈ ہی توڑ دئیے مختلف پارکوں میں
لڑکیوں پر جنسی حملے چھیڑ خانی تنگ کر نے کے واقعات کی فصل سے اُگ آئی ہے
آپ اخبار اٹھائیں میڈیا کو دیکھ لیں یا پھر ٹی وی چینل کو آن لیں بے لگام
جنسی درندوں کی یلغار آ پ کو ہرطرف نظر آئے گی یہ جنسی بے لگام آزادنسل کسی
بھی خوف سے طاری کس طرح دھڑلے سے خواتین پر حملہ آور نظر آتے ہیں اور پھر
سردیواروں میں مارنے کو دل آتا ہے کہ اِن کی جنسی درندگی معصوم معذور بچیوں
تک کو پامال کر تی نظر آتی ہے ایک واقعے سے وطن عزیز کے لوگ ابھی سنبھلتے
نہیں کہ اُس سے زیادہ خطرناک خوفناک واقعہ اورسامنے آجاتاہے کہ عقل و شعور
دماغ شل ہو کر رہ جاتا ہے ابھی عوام اُس حادثے سے نہیں نکلتے کہ پچھلے
واقعہ سے زیادہ ہولناک واقعہ سامنے آجاتا ہے یہاں تک کے پے در پے ایسے جنسی
واقعات نے عوام انسانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ یہ جنسی درندوں کی فوج
کہاں سے ملک پر حملہ آور ہو گئی ہے جس کو کوئی خوف ڈر نہیں یہ آزاد بے لگام
جنسی جانوروں کا ریوڑ ہے جو دیہات اور شہروں پر حملہ آور ہو گیا ہے اور
درندگی کے ریکارڈ پر ریکارڈ توڑے جا رہے ہیں آپ پاکستان کا کوئی گاؤں شہر
علاقہ دیکھ لیں ہر جگہ آپ کو یہ جانوروں کا ریوڑ نظر آئے گا جو بے لگامی سے
اپنی ناپاک شیطانی خواہشات کی تکمیل میں لگا ہوا ہے اب وہ وقت آگیا ہے جب
معاشرے اور ریاست کو اپنا کردار ادا کر نا ہوگا والدین اور معاشرے کو ایسے
جنسی درندوں کی اصلاح کر نا چاہیے ریاست کو کڑی سزائیں دینی چاہیں تاکہ یہ
جانوروں کا ریوڑ جو ہر جگہ پر حملہ آور ہے اِس کو کنڑول کیا جاسکے تربیت
اصلاح کا عمل ہر گھر سے ہونا چاہیے دوسروں کی بہو بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں
ہونے کا سبق دینا ہو گا اور تربیت کرنی ہو گی پھر ریاست نظام عدل کو اتنا
مربوط طاقت ور برق رفتار بنائے کہ ایسے جنسی درندوں کو سلاخوں کے پیچھے بند
کیا جاسکے اگر والدین معاشرے اور ریاست نے اپنا اپنا کردار ادا نہ کیا تو
جنسی درندوں کی بے لگامی اِس قدر بڑھ جائے گی کہ پھر کوئی ماں بہن بیٹی گھر
سے نہیں جائے گی ہر گلی محلے گاؤں شہر میں ان درندوں کی حکومت ہو گی فوری
اِن بے لگام جانوروں کو لگام ڈالنی ہو گی ۔
|