ناکامی

دنیا گلوبل ویلج بن چکی ھے دنیا کے کونے کی خبر پل بھر میں دنیا کے میڈیا کے سامنے آ جاتی ھے ۔ سفر آسان ھو گئے ھیں پہلے جس سفر میں عمر کٹ جاتی تھی اب ایک دن میں ھو جاتا ھے ایشیا کے لوگ یورپ امریکہ کینیڈا آباد ھو چکے ھیں ان کے بزنس ھیں وہاں کی شہریت اختیار کر چکے ھیں تیسری نسل جوان ھو چکی ھے اب وہی ان کا دیس ھے عرب ممالک میں درجنوں فلائیٹ یورپی مما لک سے آتی جاتی ھیں ۔

انگلینڈ چلے جائیں وہاں ایشیائی ممالک سے آئے ھوئے لاکھوں افراد آباد ھیں پورے کے پورے علاقے ان کے ھیں امن و اماں کا مسئلہ نہیں ھوتا تعصب ھے مگر اس کا اظہار کھلے عام سامنے نہیں آتا جیسا پاکستان میں نظر آتا ھے سب شہریوں کو برابر حقوق حاصل ھیں ایک صوبے کا رہائشی دوسرے صوبے میں جاتا ھے تو اسے طعنہ نہیں دیا جاتا یہی حال پورے یورپ میں نظر آتا ھے ۔

ایسے بیان بازی نہیں کی جاتی جیسے بیان پاکستان کے ٹی وی پہ آتے ھیں جنھیں بریکینگ نیوز کے طور پہ بار بار چلایا جاتا ھے جلتی پہ تیل چھڑکا جاتا ھے نمک پاشی کی جاتی ھے۔

لاکھوں لوگ جو خالی ھاتھ مغربی ممالک میں گئے تھے آج وہ رئیس ھیں سیاست میں حصہ لیتے ھیں جو کمایا ھے انھوں نے اپنی محنت سے کمایا ھے کوئی انھیں بھوکا ننگا ھونے کا طعنہ نہیں دیتا حالانکہ وہ اس ملک کے شہری نہیں تھے پناہ گزیر تھے غلط ویزوں غلط طریقوں سے ملک میں آئے تھے آج وہی لوگ کروڑوں کا زرِ مبادلہ اپنے ممالک میں بھیج رھے ھیں ۔

پاکستان میں ایک ملک کے رھنے والے ھیں مگر ان کی پہچان ایک نہیں کیا ھی اچھا ھو ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جانے کے لیے ویزا لازم کر دیا جائے اور حکومت کے طرف سےسب کو وہی حقوق حاصل ھوں جو مغربی ممالک یا امریکہ کے شہریوں کو حاصل ھیں ان کی جان و مال کی حفاظت ویسے ھی کی جائے جیسے اپنے مہمانوں کی جاتی ھے ۔

جرمنی معاشی طور پہ ایک ترقی یافتہ ملک ھے یہ مثال ھے پاکستان کے لیے جب دیوار برلن گرائی گئی تو مشرقی جرمنی اقتصادی اور تعلیمی لحاظ سے مغربی جرمنی سے بہت پیچھے تھا یہاں کے لوگوں نے مشرقی جرمنی سے آنے والوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی ملازمت میں سب سے پہلا حق انھیں دیا گیا ھزاروں لوگ مغربی جرمنی کی طرف آئے یہی بس گئے بیس سال کا عرصہ گزرا ھے کہیں کوئی ذکر نہیں ھوتا کون مہاجر تھا کس نے کس کو پناہ دی اگر کوئی اپنے ملک میں روزگار کے لیے بہترین زندگی کے لیے نقل مکانی کرتا ھے تو یہ اس کا حق ھے اگر کوئی ان کی مدد کرتا ھے تو یہ اس کا فرض ھے ۔

مغربی جرمنی کا سرمایہ وہاں لگایا گیا آج وہاں یونیورسٹیز بھی ھسپتال سڑکیں موٹر وے مغربی جرمنی کے معیار کی بن چکی ھیں نئی انڈسٹریز وہاں لگائی گئی ھیں تاکہ وہاں لوگ زیادہ آباد ھوں ۔

آج کوئی مغربی اور مشرقی جرمنی کا لفظ استعمال کرتا جو بھی ھیں وہ جرمنی کے شہری ھیں کوئی حکومتی یا اپوزیشن کی پارٹی مہاجر کا لفظ یا اپنی قربانیوں کا ذکر نہیں کرتی وہ یہ ذکر نہیں کرتی اس نے اپنی قوم کے لیے کیا کیا احسان کیے ملک کے ان غیر ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی کی کن بلندیوں پہ پہنچایا یہ ان کا احسان نہیں ان کا فرض تھا لوگوں نے انھیں منتخب ایسی لیے کیا تھا انھوں نے ووٹ ایسی لیے دیا تھا یہ ووٹ کا قرض تھا جو انھوں نے ادا کیا ۔

اگر کسی ملک کی ترقی رک جاتی ھے ملک میں امن و اماں قائم نہیں رھتا تو یہ حکومت کی ناکامی ھے حکومت کی اپنی پالیسیوں پہ نظر ِ ثانی کرنے کی ضرورت ھے ترقی یافتہ ممالک پہ نظر ڈورائیں تو یہاں پچھلی حکومت کی ناکامیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا اپنے پلان بنائے جاتے ھیں عوام سے وعدے کیے جاتے ھیں اگر وعدے پورے نہیں کیے جا سکتے تو اپنی نا کامی کا اعتراف کر کے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی جاتی ھے ایسی مثال پاکستان میں نہیں ھے۔

کسی سیاسی شخصیت کو پوجا نہیں جاتا کسی کے نام سے جذباتی وابستگی کو ہتھیا ر بنا کر ووٹ نہیں وصول کیے جاتے نہ ھی کسی لیڈر کی اولاد کو ولی عہد کے طور پہ منتخب کیا جاتا ھے شاید اسی کا نام جمہوریت ھے پاکستان میں جمہوریت بہترین انتقام ھے شاید یہ جمہوریت سے انتقام ھے - اس انتقام کا نشانہ بے بس عوام بن رھے ھیں ۔ یہ تو ھمارے مہان سیاسی لیڈر بتا سکتے ھیں جو جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ھیں آمریت کے بعد جمہوریت نے عوام کو کیا دیا ۔

کیا یہ پاکستان کے سب سیاسی لیڈرز کی ناکامی نہیں کہ وہ قوم کو ایک نہیں کر سکے - اگر ساری قوم ایک ھوگئی تو سیاست کس پہ کی جائے گی ۔
Sadia Saher
About the Author: Sadia Saher Read More Articles by Sadia Saher: 41 Articles with 33017 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.