وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے اعلان کردہ پیکج پر
تحریک انصاف کے تمام مقامی حلقے خوشی سے نہال ہورہے تھے۔ شہری بھی خوش تھے
کہ چلیں دیر آید درست آید کے مصداق دیرینہ مسائل تو حل ہورہے ہیں ،مگر کئی
ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی بھی منصوبے پر کام شروع نہیں ہو
سکا،یونیوورسٹی آف گوجرانوالہ جواب ہر خاْص و عام کا مطالبہ بن چکا ہے ،اس
کا صرف اعلان ہی نہیں کیا گیا، بلکہ تین ارب فنڈز مختص کرنے کی بھی خوشخبری
بھی سنائی گئی،کافی سوچ بچار اور کھینچا تانی کے بعد بالآخر اراضی کا
انتخاب بھی کر لیا گیا ،سابق ڈپٹی کمشنرمحمد سہیل خواجہ کی کاوشوں سے اراضی
کے انتخاب کے بعد اسکو یونیورسٹی کے نام بھی منتقل کروالیا ۔سہیل خواجہ کی
گوجرانوالہ کی تعمیر ترقی کے لئے کی جانے والی کاوشیں قابل تعریف ہیں ۔ وہ
جلد سے جلد گوجرانوالہ میں بڑے برے ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے خواہشمند
تھے۔ انہوں نے یونیورسٹی کے خواب کو حقیقت بنانے کے لئے ہی کردار ادا نہیں
کیا۔ بلکہ گوجرانوالہ میں رنگ روڈ کی تعمیر کا تصور دیا ، گیارہ کلو میٹر
طویل لینیئر پارک کے قیام کے لئے دن رات جدوجہد کی، گرین بیلٹس کی تزئین و
آرائش کے لئے انقلابی اقدامات کئے۔ ایک منٹ میں پچاس ہزار پودے لگانے کا
عالمی ریکارڈ بنانا انکی دن رات محنت اور جانفشانی کا مظہر ہے۔اگرچہ ا س
ایشو پر انہیں تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ محمد سہیل
خواجہ جتنا عرصہ بھی گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر رہے اپنے ہونے کا احساس
دلاتے رہے۔یونیورسٹی سے بات آگے نکل گئی تو قارئین ہم واپس یونیورسٹی کی
طرف آتے ہیں،سابق ڈپٹی کمشنر کی کوششوں سے رتہ جھال کے قریب سو ایکڑ اراضی
کی منتقلی کے بعد ابتدائی ایک ارب فنڈز کے اجراء کی تیاریاں کی جارہی تھیں
کہ سہیل خواجہ تبدیل ہوگئے اور انکی جگہ دانش افضال ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ
تعینات ہوئے، انکی تعیناتی کو آج کافی دن گزر چکے ہیں مگر ان کی طرف سے
یونیورسٹی کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آرہی،تحریک انصاف کے ٹکٹ
ہولڈرز ،پارٹی عہدیدار جن میں سے بعض اراضی کے انتخاب اور یونیورسٹی کے نام
منتقلی کا کریڈٹ لے رہے تھے ،ان کی طرف بھی اس معاملے میں خاموشی ہے۔ جس پر
شہریوں کی طرف سے شکوو شبہات کا اظہار کیا جار ہا ہے،بعض حلقو ں کا کہنا ہے
کہ موجودہ حکومت دانستہ طور پر گوجرانوالہ کو نظر انداز کر رہی ہے،میگا
پراجیکٹ کا اعلان صرف اعلان تک ہی محدود رہے گا۔ یونیورسٹی کے معاملے میں
بھی صرف اہل گوجرانوالہ کو بہلایا اور یونیوسٹی ،یونیورسٹی کھیلا جا رہا
ہے۔خیر ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ اور اپنا اپنا نقطہ نظر ہے ،جس کے مطابق وہ
اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتا ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی حلقوں سے
ماسوائے حکومتی قصیدہ گوئی اور پارٹی قیادت کی تعریفوں کے پل باندھنے کے
سوا کوئی ردعمل دیکھنے کو نہیں مل رہا ،سب سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ
مسلم لیگ ن کے ممبرا ن اسمبلی جنہیں تین تین مرتبہ اہل گوجرانوالہ نے منتخب
کر کے اپنے نمائندے بنا کر اسمبلیوں میں بھیجا انہیں بھی جیسے سانپ سونگھ
چکا ہے،اپنے لوگوں کے حقوق کی بات کر ہے ہیں نہ ہی شہر کی کھنڈر بنتی حالت
زار کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔یونیورسٹی ،چلڈرن ہسپتال کی تعمیر نہ ہونا
المیہ ہے۔ جبکہ منتخب عوامی نمائندوں کی خاموشی ظلم،اور حکمران جماعت کے
رہنماؤں کی طرف سے مسلسل لاروں لپوں پر بھی قیادت کی قصیدہ گوئی کرتے رہنا
شہر اور شہریوں کی آواز نہ بننا،خوشامد کی بدترین کی بدترین مثال ہے
|