اقوام متحدہ کی193 رکنی جنرل اسمبلی کا 76واں
سالانہ اجلاس شروع ہو چکا ہے۔رواں سال کے اجلاس کا مرکزی خیال’’ کوویڈ19سے
صحت یابی کی امید، پائیدار تعمیر نو، کراہ ارض کی ضروریات کا ردعمل، حقوق
انسانی کا احترام اوت اقوام متحدہ کا احیائے نو ‘‘ہے۔نیو یارک میں منعقدہ
اجلاس میں جمعۃ، 24ستمبر کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اسلام آباد سے
ویڈیو لنک پر خطاب کریں گے۔ امریکہ نے دنیا سے کہا تھا کہ وہ کووڈ کی وجہ
سے جنرل اسمبلی میں ریکارڈ کی ہوئی تقریر پر اکتفا کریں ۔ مگر اسمبلی کی
اہمیت اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے سے کون ذی شعور حکمران پیچھے رہ سکتا
ہے۔ امریکی درخواست کے باوجود دنیا کے 83سربراہان مملکت(بادشاہ ، صدور)
اور43سربراہان حکومت(وزرائے اعظم) ، تین ڈپٹی وزرائے اعظم جنرل اسمبلی سے
خطاب کرنے نیو یارک میں ہیں۔وزرائے خارجہ سمیت دیگر اعلیٰ سطحی وفود بھی ان
کے ہمراہ ہیں۔صرف 23ممالک نے اپنے وزرائے خارجہ کو خطاب کے لئے بھیجا ہے۔ان
23ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔جس روز عمران خان اسلام آباد بیٹھ کردنیا
سے دنیا سے خطاب کریں گے ، بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اس دن واشنگٹن
میں امریکی صدر جوزف بائیڈن کی میزبانی میں منعقدہ چار ممالک کی تنظیم’’
کواڈ‘‘ کے پہلے بالمشافہ سربراہ اجلاس میں شریک ہوں گے۔ جس میں جاپان کے
وزیراعظم یوشیہیدی سوگا اور آسٹریلیا کے وزیراعظم سکاٹ موریسن بھی شامل ہوں
گے۔اسی روز توانائی سے متعلق بھی اعلیٰ سطحی ڈائیلاگ ہو رہا ہے۔بھارتی وزیر
اعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب 25ستمبر کوہو گا۔بھارتی وزیر خارجہ ایس جے
شنکر بھی مودی کے ہمراہ ہیں۔بھارتی وزیر خارجہ یو این سیکورٹی کوسنل میں
اصلاحات کی لابنگ کر رہے ہیں۔ بھارت جی20اورجی4ممالک کے وزرائے خارجہ کے
اجلاس میں بھی شرکت کر کے لابنگ کر رہا ہے ۔ وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن
بننا چاہتا ہے جب کہ بھارت خود سلامتی کونسل کا بڑا ڈیفالٹر ملک ہے۔وہ
73سال سے کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پامالی اور خلاف ورزی
کررہا ہے۔کوئی ملک اسے ان قراردادوں کا احترام اور عمل کرنے کے لئے دباؤ
نہیں ڈالتا۔افغانستان رواں سال جنرل اسمبلی کے تمام مباحث پر چھایا ہوا ہے۔
امریکہ اس کے اتحادیوں کے سر پر افغانستان سوار ہے۔ طالبان کی واپسی بھارت
کو زیادہ پریشان کر رہی ہے۔ اس کے مفادات زمین بوس ہو چکے ہیں۔ بھارت کی
ساری توجہ پاکستان پر مرکوز ہے۔ وہ کابل پر طالبان کے غلبے کو اپنی شکست
تصور کر رہا ہے۔ اس میں صداقت بھی ہے کہ پاکستان کے لئے ایک طرف سے دشمنوں
کے خطرات میں کمی ہوئی ہے۔بھارت اور اس کے اتحادی چین کی بڑھتی ہوئی طاقت
سے بھی خوفزدہ ہیں۔یو این سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئٹرس نے جنرل اسمبلی کے
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہو ئے عالمی لیڈروں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ
اس وقت ہم اپنی زندگی کے شدید ترین بحرانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے
ہماری دنیا کو اتنے زیادہ خطرات اور تقسیم کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔کرونا
وائرس کی عالمی وبا اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بحران کے علاوہ افغانستان،
ایتھوپیا اور یمن سمیت بہت سے ملکوں میں جاری افراتفری ان بحرانوں میں شامل
ہے۔گوئٹرس امریکہ یا کسی دیگر ملک کانام لئے بغیرتنقید کرتے ہیں کہ امیر
ممالک کے سیاسی عزائم کمزور ہیں اور بعض اوقات وہ خود غرضی کا مظاہرہ کرتے
ہوئے ویکسین کا ذخیرہ کرتے ہیں یا بسا اوقات اس قیمتی ویکسین کو ضائع کر
دیتے ہیں۔ دوسری طرف، افریقی ملکوں کے 90 فی صد افراد ویکسین کی ایک خوراک
سے بھی محروم ہیں۔ یہ ایک طرح سے ہماری دنیا کی اخلاقی اقدار کے خلاف فرد
جرم ہے۔ امیر اور غریب ملکوں کے درمیان اس تفریق کو مٹانے کی ضرورت ہے۔
ایک طرف دنیا کے امیر لوگ راکٹ کی ایک سیٹ کا55ملین ڈالرزاداکرتے ہوئے خلاء
کی سیر کر رہے ہیں تو دوسری طرف پوری دنیا کو مہلک وبا نے گھیرا ہوا ہے اور
ہر طرف بھوک و افلاس کا غلبہ ہے۔لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ افریقی ممالک میں
انسانی ڈھانچوں کی تصاویر دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جن میں صرف
سانس باقی ہے۔ غذا کی کمی کی وجہ سے ہڈیوں کے ساتھ گوشت نظر نہیں آتا۔
امیر ممالک اور دنیا کے دولت مندمدد کریں تو دنیا میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔
آب و ہوا کی تبدیلی بھی بڑابحران ہے۔2015 کے پیرس معاہدے کے تحت دنیا کے
درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کم کرنا تھا، تاکہ گلوبل وارمنگ کی
رفتار کو سست کیا جا سکے۔مگر زہریلی گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار بھی یہی
امیر ممالک ہیں۔یو این سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ''ہمیں فوری طور پر
اپنے کرہ ارض پر بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں
گے''۔ اقوام متحدہ کے سربراہ کو تشویش ہے کہ فوجی بغاوتیں پھر واپس آ رہی
ہیں۔رواں سال جنوری سے کئی ملکوں میں فوج نے حکومتوں پر قبضہ جما لیا۔ ان
میں میانمار، مالی اور گنی شامل ہیں۔ سوڈان میں بھی ناکام فوجی بغاوت کی
کوشش کی گئی۔سیکرٹری جنرل نے بڑے ملکوں کے درمیان اختلافات کی نشاندہی کرتے
ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے سلامتی کونسل کی حقیقی اقدام کرنے کی صلاحیت
کمزور پڑ گئی ہے اور بین الاقوامی تعاون کا فقدان نظر آرہا ہے۔چین اور
امریکہ کے درمیان مخاصمت میں اقتصادی اور ترقیاتی چیلنجوں سے نمٹنا ناممکن
ہو گیا ہے جب دو بڑی اقتصادی طاقتں آمنے سامنے کھڑی ہوں۔سیکرٹری جنرل
گوئٹرس افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد کی اپیل کر رہے ہیں۔وہ بھی
انسانی حقوق با الخصوص خواتین کے حقوق کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہیں
امید ہے کہ یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں اور یہ وقت خود کو تبدیل کر نے کا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ایک روایتی اجلاس ہوتا ہے۔ تا
ہم اس میں دنیا کی قیادت عالمی موضوعات پر بات کرتی ہے۔ مسائل کے حل تجویز
کئے جاتے ہیں۔ عالمی سفارتکاری ، لابنگ اور اپنی بات منوانے کا یہ سب سے
بڑا فورم ہے۔ آپ دنیا بھر کی سیاسی اور سفارتی قیادت سے بات چیت کر سکتے
ہیں۔ انہیں اپنا ہمنوا بنانے کا سلیقہ ہو تو ایسا ہر گز مشکل نہیں ہے۔
ملکوں کے سفارتکار پہلے سے ہی مشنز کے ساتھ معاملات طے کرتے ہیں۔ آپ میں اس
بات کا بھی سلیقہ ہو کہ آپ کی بات عالمی موثر میڈیا کی مدد سے دنیا بھر کے
عوام تک پہنچے۔ یہ کام آپ کے مترجم بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ اگر عمران خان
صاحب اس موقع پر امریکہ کا دورہ کرتے ہیں تو وہ بھارت کے خلاف عالمی اتحاد
بھی قائم کرنے کی جانب ایک قدم ہی سہی ، چل سکتے ہیں۔ اگر آپ کی توجہ صرف
ٹیکسوں لگا کر مال کمانا ہے، قومی خزانہ بھرنا ہے۔ صرف بے روزگاری اور
مہنگائی میں اضافہ کرنا ہے تو پھر اسلام آباد میں ہی آپ کی موجودگی کار آمد
ثابت ہو سکتی۔مگر قومی خزانے صرف ٹیکسوں سے نہیں بھرے جاتے۔ وزیراعظم عمران
خان کی اس وقت موجودگی من ہٹن،نیویارک میں اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹرزکے
16ایکٹرز کمپلیکس کو درکار ہے۔ جہاں کا کونہ کونہ عالمی حکمرانوں اور
سفارتکاروں، میڈیا ، پالیسی سازوں سے بھرا ہو اہے۔
|