اگر سکندر علی بھٹو اپنے نوخیز چھوٹے بھائی کو
اس وقت کی نوعمر ادکارہ نرگس سے معاشقہ لڑانے سے نہ روکتے اور ایک روز ساحل
سمندر پہ بچھی اس بینچ سے پکڑ کے نہ لے آتے اور پٹائی نہ کرڈالتے تو ریاست
جونا گڑھ کے دیوان کا یہ سرکش و چھبیلا بیٹا ذوالفقار علی شاید کسی روز اس
اداکارہ کا شوہر بننے میں کامیاب ہوجاتا اور پھر وہیں کہیں بمبئی کے کسی
کیسل میں باقی عمر یونہی چھیل چھبیلے پن میں گزار دیتا مگر قدرت کو تو کچھ
اور ہی منظور تھا ۔۔۔ مغل دور سے چلی آرہی مسلم بےحسی کو سزا دلانی مقصود
نہ ہوتی تو اسے کبھی ذریعہ نہ بنایا جاتا اور تاریخ وہ موڑ نہ مڑتی کہ جو
اسکا مقسوم تھا ۔۔۔ یہاں اسی شخصیت کا اک عمومی سا جائزہ لینا مقصود ہے اور
اس تجزیئے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن وہ واقعات جو تارخ کے ریکارڈ کا
حصہ بن چکے ہیں انہیں بہرحال کبھی جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔۔۔
بلاشبہ بھٹو ہماری تاریخ کا وہ عجیب و غریب کردار تھا کہ جسے بیشتر لوگ
ابتک درست طور پہ نہیں سمجھ پائے حتیٰ کہ بڑے بڑے اہل فکر و نظر کہلانے
والے بھی سخت کنفیوژ ہوئے اور دوسروںکو بھی آج تک کرتے چلے آرہے ہیں مثلاً
جہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا محب وطن اپنے ایٹم بنانے کی وجہ سقوط ڈھاکا
پہ انتہائی رنج پنچنے کو قرار دیتا ہے اور بھٹو کو ایٹمی صلاحیت کے حصول کے
لیئے خط لکھے جانے کا تذکرہ کرتا ہے تو ساتھ ہی یہ تجزیہ کرنا بھول جاتا ہے
کہ مشرقی پاکستان جس حکومت کی گندی پالیسیوں کے سبب ہم سے الگ ہوا اس حکومت
میں بھٹو ہی کا کردار تو سب سےاہم تھا اور اسی لیئے ‘حمودالرحمان کمیشن
رپورٹ’ میں جن چار افراد کو اس سانحے کے ذمہ داروں میں نامزد کیا گیا ہے ان
میں ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہے اور اگر اس کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں
نورمبرگ ٹرائل کی طرز پہ سزایابی ممکن بنادی جاتی تو اسے1979 میں نواب محمد
احمد خان قتل کے جرم سے پہلے ملک کو دو لخت کرنےاور سقوط مشرقی پاکستان کی
سازش کا حصہ بننے پہ ہی پھانسی دی جاچکی ہوتی
کون ہے جو اس بات کو جھٹلادے کہ جب یہ سانحہ رونماء ہوا اس وقت بھٹوصدر
یحییٰ کا دست راست تھا اور اس وقت وزیرخارجہ ہونے کے علاوہ نائب وزیراعظم
بھی تھا اس لیئے وہ یحیٰی حکومت کے برے اور غلط فیصلوں میں برابر کا شریک
تھا اور اس نے سقوط کا عمل مکمل ہوجانے تک کبھی بھی صدر یحییٰ کے کسی اقدام
یا فیصلے کی ذرا بھی مخالفت نہیں کی بلکہ 25 مارچ 1971 کو ڈھاکا میں فوجی
آپریشن کے بارے میں اسکا وہ بیان سارے قومی اخبارات کی زینت بنا تھا کہ ‘
خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا’ اوریہی وہ خونی آپریشن تھا کہ جس نے محض
3 ماہ پہلے متحدہ پاکستان کے فریم میں رہ کے الیکشن لڑنے اور کامیابی حاصل
کرنے والوں بنگالی سیاستدانوں کو 100 روز کے اندر اندر مملکت پاکستان کا
باغی بناڈالا تھا ۔۔۔ درحقیقت اس خونی آپریشن کے حق میں دیا گیا یہ توصیفی
بیان متحدہ مملکت پاکستان کے لیئے کسی ڈیتھ وارنٹ سے کم نہیں تھا ۔۔۔
جودراصل یکم مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کی منسوخی کے اعلان سے پیدا شدہ
مایوسی و حقارت کا تسلسل تھا اور جس سے اہل مشرقی پاکستان کی مغربی بازو سے
امیدوں کے رہے سہے دیپ بھی بجھادیئے گئےتھے کیونکہ یہ بیان ملک کی دوسری
بڑی اور مغربی بازو کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ کی جانب سے
سامنے آیا تھا-
دراصل بھٹو نے کبھی یحییٰ خان کے کسی اقدام کی مخالفت اس لیئے نہیں کی
کیونکہ ان دنوں اسی نے صدر کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا اورحکومت کا حصہ
بنے کے بعد صدر کا ہر فیصلہ دراصل بھٹو ہی کے شاطر ذہن سے برامد ہوا کرتا
تھا اور ویسے بھی اگر اسے یحیٰ سے اختلاف ہوتا تو اسے اسکا برملاء اظہار
کرنے اور حکومت چھوڑ دینے سے کس نے روکا تھا ۔۔۔؟؟ اہل علم واقف ہیں کہ ان
دنوں یحییٰ برائے نام حکمران تھا اور عملاً بھٹو ہی مختار کل تھا کیونکہ
عیاشی و نشے میں چور رہنے والا یحیٰٰ نامی بدمست شخص زیادہ تر شراب و شباب
کی رنگین محفلوں ہی میں مصروف رہا کرتا تھا اور ایسے میں اسکی جانب سے اہم
فیصلوں کے سارے اختیارات بھٹو ہی نے حاصل کرلیئے تھے اور صدر کا کردار محض
دستخط کرنے تک ہی محدود رہ گیا تھا لہٰذا یہ بڑی ناسمجھی ہوگی جو اگر ان
دنوں کیئے جانے والے اقدامات کو صرف صدر یحیٰٰ کے ہی کھاتے میں ڈالا جائے
۔۔۔ ویسے بھی کوئی یہ سوچے تو سہی کہ 1970 میں الیکشن ہوجانے کے بعد اور
مجیب سے آدھی نشستیں لینے کے بعد اس کا کیا حق تھا کہ وہ بڑی اکثریتی پارٹی
کو بائی پاس کرکے اور مارشل لاء ہٹائے بغیر ایک ڈکٹیٹر کی حکومت میں شامل
ہوجائے ، کوئی تجزیہ کار یہ بتائے تو سہی کہ ذوالفقار علی بھٹو آخر کیوں
اور کیسے اور کس استحقاق سے ایک مارشل لائی فوجی حکمران یحییٰ خان کی حکومت
میں شامل ہوا تھا – دراصل 1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ کی 160 نشستوں کے
مقابلے میں محض نصف یعنی 81 نشستیں جیتنے سے بھٹو کو صاف نظر آگیا تھا کہ
وہ کسی طرح حکمران نہیں بن سکتا جبتک کہ یہ ملک ہی دو لخت نہ ہوجائے اور
پھر اس نے بڑی چالاکی سے یحیٰٰی خان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کے اور اسکی
حکومت میں شامل ہوکے اس ٹارگیٹ کی طرف بڑی تیزی سے پیشرفت کی اور 100 فیصد
نتیجہ لینے میں کامیاب رہا
اب آتے ہیں بھٹو کے ایٹمی پروگرام کی طرف ، اور اس مد میں ڈاکٹر عبدالقدیر
صاحب عجیب و غریب کنفیوژن کا شکار دکھائی دیتے ہیں کیونکہ کبھی تو وہ بھٹو
کو ایٹمی پروگرام کا خالق ٹھہراتے ہیں تو کبھی زاہد ملک کی لکھی سانح میں
وہ یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے لیئے انہوں نے
نے بھٹو کو متعدد خطوط لکھے مگر کوئی پذیرائی نہیں ہوئی اور بالآخر چھٹیوں
پہ وطن واپس آکے انہوں نے جیسے تیسے بھٹو سے ملاقات کی اور انہیں اسکے لیئے
قائل کیا اور پھر انکی تائید میسر آنے پہ وہ واپس آکے اس پروگرام پہ کام
کرنے میں مصروف ہوگئے اور اس کا آغاز کراچی میں کینوپ پروجیکٹ شروع کردیا
تاہم انکا کہنا یہ بھی ہے کہ انہیں بھٹو نے ایٹمی توانائی کو دفاعی مقاصد
میں برتنے کی بجائے اس کو صرف بجلی بنانے تک ہی محدود کردیا تھا اور کینوپ
کے بعد وہ وہ چشمہ پروجیکٹ پہ لگادیئے گئے تھے اور وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ
وہ صرف صدر ضیاء الحق ہی تھے کہ جنہوں نے انہیں جوہری توانائی کو دفاعی
مقاصد میں بروئے کار لانے کا ٹارگیٹ اور لامحدود وسائل اور اختیارات دیئے
تھے کیونکہ وہ 5 جوالائی 1977 کو بھٹو کا تختہ الٹنے کے محض دو ہی دن بعد 7
جولائی کو ہی اچانک کہوٹہ میں آگئے تھے اور انہیں بجلی کے منصوبوں سے ہٹاکے
نیوکلیئربم ٹارگیٹ کے پروجیکٹ پہ مامور کردیا تھا
سچی اور صاف بات یہ ہے کہ ایٹمی پروگرام بھٹو کا ایک خاص کیتھارسس تھا
کیونکہ وہ جیسے تیسے ملک کو دولخت کراکے اقتدار میں تو آگیا تھا اور اسکا
ٹارگٹ پورا تو ہوگیا تھا مگر وہ بخوبی جانتا تھا کہ بعد میں کبھی نہ کبھی
سقوط ڈھاکا کے معاملات پہ اسے جوابدہ ہونا ہی پڑے گا اور حمودالرحمان کمیشن
رپورٹ میں اسے ذمہ داروں میں شامل کیئے جانے کے بعد تو اسکے لیئے لازم
ہوگیا تھا کہ جلد از جلد کوئی ایسا ‘خیرہ کن چمتکار’ لازمی کردکھائے کہ
اسکی چکا چوند کے سامنے اسکی حب الوطنی پہ لگے الزامات کے داغ چھپ جائیں
اور ایٹمی توانائی کے حصول کے کام میں یہ زبردست تشہیری اور خیرہ کن چمک
وافر طور پہ موجود تھی ۔۔۔ سو اس ایٹمی پروگرام کی شروعات اسی حفاظتی سوچ
کی عملی صورتگری تھی لیکن صاف ظاہر ہے کہ اس معاملے میں بھی حب الوطنی سے
زیادہ سارا معاملہ محض ڈرامہ بازی تک ہی محدود تھا وگرنہ ڈاکٹرعبدالقدیر
خان خود کو بھٹو کی جانب سےایٹم بم بنوانے کے بجائے انہیں صرف سستی بجلی
بنانے کے کام تک محدود کردیئے جانے کا شکوہ ہی کیوں کرتے ۔۔۔ اور اگر بھٹو
مخلص ہوتا تو اپنی ساڑھے پانچ سالہ مدت اقتدار میں جوہری بم بنوا بھی چکا
ہوتا ۔۔۔ لیکن اسکی حب الوطنی پہ تو 1965 کی جنگ کے دنوں ہی میں سوالات اٹھ
گئے تھے کہ جب اس نے بھارت کی جانب سے خاص ردعمل نہ ہونے کی یقین دہانیاں
کراکے ایوب خان کو آپریشن جبرالٹر کی سنگین غلطی کرنے پہ مجبور کردیا تھا
اور چھڈ بیٹ اور موناباؤ میں پاکستان کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں
بھارت کی جانب سے شدید ردعمل کے طور پہ ایک بڑی اور فل اسکیل وار چھیڑ دی
گئی تھی اور اس جنگ میں ہماری کامیابی کی اصل حقیقت محض اتنی تھی کہ ہم
جیسے تیسے محدود وسائل کے باوجود اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہے تھے
بھٹو کی سیاسی بصیرت کی باتیں کرنے والے اسکی کسی بات کا شاز ہی دفاع
کرسکیں ، کیونکہ وہ یہ نہیں جھٹلاسکتے کہ بحیثیت وفاقی وزیر بھٹو نے 1957
میں لکھے اپنے خط میں اس وقت کے صدر اسکندر مرزا کو قائداعظم سے بھی بڑا
لیڈر اور پاکستان کا اصلی محسن کیسے اور کیونکر قرار دیا تھا ( یہ اصلی خط
آج بھی سرکاری آرکائیوز میں موجود ہے) اور اسے اپنی اٹوٹ وفاداری کا یقین
دلایا تھا اور جبکہ اسکے محض چند ہی ماہ بعد جب یوب خان نے اسکندرمرزا کا
تختہ پلٹ دیا تو وہ اسی ‘عظیم لیڈر اور محسن’ سے بیوفائی کرکے ایک مارشل
لائی ڈکٹیٹر حکمران کی کابینہ کا حصہ کیونکر بن گیا تھا ۔۔۔؟ سچ تو یہ ہے
کہ وہ وڈیرہ شاہی کے ماحول میں پلا ہوا وہ مفاد پرست تھا کہ جسکے خون میں
ہی بیوفائی تھی اور جس کے باپ ( سر شاہنواز بھٹو) نے بھی اپنے محسن یعنی
نواب آف جونا گڑھ سے بحیثیت ریاستی وزیراعظم ( دیوان) زبردست بیوفائی کی
تھی اوراسکی پیٹھ میں خنجر گھونپ کے اسے بھارت میں ضم کروانے میں اہم ترین
کردار ادا کیا تھا اور اگلی نسل میں یہی کام بھٹو نے بھی کیا اور اسکندر
مرزا کو اسکا لکھا گیا یہ خط اور اورا سکے بعد کے اقدامات بھٹو کی موقع
پرستی اور خوشامد کے بل پہ اور ہر قیمت پہ آگے بڑھنے کی سوچ کے بھرپور عکاس
اور ورثے میں ملی محسن کشی کی روایت کا تسلسل تھے اور یہ صرف اسکندر مرزا
تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ایوب خان بھی اسی کی زد میں آئے اور وہ شخص جو
ایوب خان کو ڈیڈی ڈیڈی کہتے نہ تھکتا تھا بعد میں اپنے دور حکمرانی میں جب
ایوب خان کا انتقال ہوا تو اسلام آباد میں اس خوف سے اسکی نماز جنازہ
پڑھانے دینے کے لیئے بھی تیار نہ ہوا تھا کہ کہیں عوام کا بڑا اجتماع آگیا
تو کہیں دارالحکومت میں دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے ایوب خان کے لیئے عوامی
جذبات کا وفور سامنے نہ آجائے
لیکن جب ایوب خان مضبوط صدر تھا تب ذوالفقارعلی بھٹو کی دربارداری بھی اپنے
عروج بھی تھی اور اس نے اس وقت خوشامد کی ہر ہر حد کو عبور کر ڈالا تھا اور
کون سا اہل علم ہے جو اس بات سے انکار کرسکے کہ بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی ڈیڈی
پکارا کرتا تھا ۔۔۔ حالانکہ ایسا کبھی کسی جمہوری تو کیا بادشاہت کے نظام
والے طرز حکومت میں نہیں دیکھا گیا تھا کہ کوئی شخص کسی حکمران کی خوشامد
میں اس قدر گر جائے کہ اسے اپنے باپ کی جگہ لابٹھائے یہ تو ایوب خان کی
خوشامد پسند طبیعت پہ پھینکا گیا مسکے کا وہ جال تھا کہ جس میں ایوب خان
کئی برس تک اور اس وقت تک پھنسے رہے کہ جبتک انکی حکومت کمزور نہ پڑگئی اور
وہی بھٹو اچانک انہیں کمزور پڑتا پاکے انکا حریف بن کے سامنے نہ آگیا ،
ایوبی حکومت میں بھٹو کی خوشامد کی ایک بڑی مثال فاطمہ قائداعظم کی بہن
محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ روا رکھی گئی ایسی بدسلوکی تھی کہ جسکے بارے میں
جان کے ہر محب وطن کا سر آج بھی شرم سے جھک جاتا ہے کیونکہ بھٹو نے انکے
خلاف الیکشن میں ایوب خان کے الیکشن ایجنٹ کی حیثیت میں پستی کے ہوشرباء
ریکارڈ قائم کردیئے تھے ۔۔۔ سبھی جانتے ہیں کہ اپنے عظیم بھائی کی سیاسی
جدوجہد میں ساتھ دینے کے لیئے مادر ملت نے شادی نہیں کی تھی لیکن مادرملت
کے شادی نہ کرنے کے اسی فیصلے کو لے کر بھٹؤ نے انکی پاکدامنی پہ وہ وہ
گھناؤنے الزام لگائے تھے کہ آج بھی انہیں دہرایا نہیں جاسکتا ۔۔۔ اور اسی
لیئے جب آج پیپلز پارٹی ایک ہی سانس میں اپنے قائد عوام کا نام اور دوسری
سانس میں قائداعظم کا نام لیتی ہے تو اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کوئی اور
معلوم نہیں ہوتی ، ایسی ہی مضحکہ خیز صورتحال اس وقت بھی دیکھی گئی تھی کہ
جب کچھ عرصہ قبل نامور سیاسی رہنماء معراج محمد خان کا انتقال ہوا تھا کہ
جنکی سچائی اور جرات کی ایک دنیا معترف تھی اوردلچسپ بات یہ کہ پیپلز پارٹی
کے کئی اکابرین نے انکی وفات پہ انہیں انکی عظیم جمہوری جدوجہد پہ زبردست
خراج عقیدت پیش کیا تھا اور انہیں عظیم سیاسی ورثہ قرار دیا تھا لیکن یہ سب
بیانات انکی بدترین منافقت کے مظہر تھے کیونکہ کون نہیں جانتا کہ بھٹو نے
اپنے دور میں اپنے اس دست راست قراردیئے گئے وزیر کی ذرا سی تنقید پہ انکے
ساتھ کس قدر بہیمانہ سلوک کیا تھا اور جھوٹے مقدمات بنواکے اور جیل میں ڈال
کے اتنا تشدد کروایا تھا کہ انکی آنکھیں ہمیشہ کے لیئے خراب ہوگئیں تھیں کہ
جسکا وہ بعد میں ہر انٹرویو میں تذکرہ کرتے تھے اور اہل نظر واقف ہیں کہ اس
سے بھی زیادہ برا سلوک انہوں نے اپنی ہی پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل جے اے
رحی کے ساتھ روا رکھا تھا کہ جسکے بارے میں وہ اپنے آخری دنوں میں بتاتے
ہوئے آبدیدہ ہوجاتے تھے ۔۔۔!
لیکن آج جبکہ بھٹو کو مرحوم ہوئے چار دہائیاں گزر چکیں، تو اب بھی کئی
سیاسی جگالیئے بلکہ جگاڑیئے لوگ ایسے ہیں کہ جواس موقع پہ ضیاءالحق کے
حوالے سے پرانے و گڑے مردے اکھیڑنا ضرور یاد رکھتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ
ہے کہ ساتھ ہی بھٹو سے متعلق کئی ایسے پرانےمگر حقیقی سوالات کا جواب دینے
سے یکسر گریز کرتے ہیں کہ جو آج بھی تشنہء جواب ہیں ۔۔ اور جنکی روشنی ہی
میں اس ملک کی نسبت بھٹو کے حقیقی کردار کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ اور یہی
وہ مسخرے لوگ بھی ہیں کہ جو ضیاء الحق پہ تبرا بھیجتے ہوئے یہ حقیقت
بھلادیتے ہیں کہ بعد میں برسرقتدار آنے والی بھٹو کی بیٹی بینظیر نے اپنے
باپ کے اسی قاتل یعنی ضیاء الحق کے دورکے آدھے سے زیادہ وزراء کواپنے سیاسی
مفاد کے لیئے پارٰٹی ٹکٹ بھی دیئے اور اسی ‘گروہ قاتلاں’ کو اپنی کابینہ
میں بھی شامل کیا تھا ۔۔۔ جسکی ایک بڑی مثال یوسف رضاگیلانی ہیں کہ جنہیں
تو بعد میں وزیراعظم بھی بنایا گیا تھا لیکن جو کہ 1984 میں ضیائی ریفرنڈم
کے سب سے بڑے حامی اور نقیب بنے ہوئے تھے ۔۔۔ تو پھر اس طرز عمل کی روشنی
میں کیا یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ جو لوگ ضٰیاءالحق پہ لعنت بھیجتے ہیں وہ
ساتھ ساتھ اپنے باپ کے قاتلوں کوساتھ بٹھانے اور وزارتیں دینے کی خوشامد
کرنے پہ اس مفاد پرست اور خودغرض بی بی کو بھی ذہن میں رکھیں اور جب کبھی
مارشل لاء کو مطعون کریں تو پھر ایوبی مارشل لاء اور پھر یحیٰٰ خانی مارشل
لاء کا دست و بازو بننے والے اپنے قائد عوام پہ بھی دونوں ہاتھوں سے لعنتیں
بھیجنا نہ بھولیں۔۔؟؟
|