ازقلم
بابرالیاس.... چیچہ وطنی
یاد رکھنے والی بات ہے کہ عقیدہ نہ علم کا محتاج ہے نہ عقل کا, عقیدہ تو
بلا تامل اور بے چون و چرا دل سے قبول کر لینے کا نام ہے,
عقل تو دلیل, مشاہدہ و اکتشاف کی محتاج ہے اور علم اسکی یہ احتیاج پوری
کرتا ہے لیکن اس کائنات کے باسی بدیسی ہو کر رہ گۓ ہیں اور انکی اعتقادی
کائنات زیر و زبر ہو چکی ہے ,اسکی بڑی وجہ عقل کی طفولیت ہے کہ ابھی ایک
چیز کو پسند کیا, قبول کیا اور دوسرے ہی لمحے عقل کی نگاہ کسی دوسری چیز پر
مرکوز ہو جاتی ہے اور اس سیماب کو قرار نہیں....
ابو جہل عقل اور دلیل کا محتاج تھا, محتاج ہی رہا اور محتاج ہی جہنم واصل
ہوا,
دوسری طرف اسکے بخلاف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے ابو جہل سے سنا کہ
امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ
میں آسمانوں سے پار گیا ہوں اور اللہ کی آیات کبری دیکھ آیا ہوں تو قربان
جاؤں بے دھڑک تصدیق رسول کر دی کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بلا شبہ سچ
فرمایا ہے.
یہ ہی عقیدہ ہے اور چمنستان حیات مستعار میں اسی سے بہار ہے بلکہ اہل ایمان
کے لیے یہ ہی کیفیت ؤ حالت بہار آفریں ہے, خالق کائنات کی عطا کردہ حیات کا
لمحہ لمحہ اس سے بہار آشنا ہے,جب عقل و خرد کے ببول کے پاس مس کرتی ہوئی
گزرتی ہے تو عقل چیخ اٹھتی ہے,
قران کریم نے ایمان بالغیب کو اسی لیے اعلی, قوی اور معتبر قرار دیا ہے,
فضلیت بیان کی ہے, عقلی, مشاہداتی اور استدلالی ایمان کو ثانوی بلکہ بعض
اوقات تسیرے درجہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے,
کیونکہ جو شخص دلیل, مشاہدہ اور تقابل کے بعد کوئی عقیدہ قائم کرتا ہے وہ
پہلے دلیل, مشاہدہ اور تقابل کو قبول کرتا ہے, پھر عقیدے کو اور جو انسان
بلا دلیل و بلاتامل عقیدہ قبول کرتا ہے تو اس نے عقیدہ کو اولیت دی اور
کہنے والے پر اعتماد کیا,
عقیدہ کی اولیت تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے واقعہ معراج کی خبر
براہ راست امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نہیں سنی بلکہ دشمن رسول
سے سنی, چونکہ بات سرکار کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منسوب تھی, بات
صادق و مصدق کی طرف منسوب تھی لہذا اسی نسبت سے تصدیق کے بلیک ہول سے پل
بھر میں گزر گۓ ,
عقل, علم, دلیل, مشاہدہ و تقابل کا مریض ابو جہل بھونچکا رہ گیا,جہاں تھا
وہیں رہا, اسکے سامنے کائنات کی مسافتوں کو سمیٹنے کی کوئی فکری, نظری اور
مشاہداتی یا اکتشافی دلیل نہیں تھی لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ کے سامنے
نبوت کے امام اعظم سیدنا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات
اکمل تھی,
اسلام عزیز و عظیم امانت ہے, امت مسلمہ اس دین مبین کی امین ہے, اور ہم اگر
اسکی حفاظت میں کوتائی کریں تو یقیناً یہ بہت بڑی خیانت ہو گئ, حفاظت دین
ایک اہم فریضہ ہے, جو لوگ دین میں تبدیلی و تحریف کی کوشش کریں گۓ تو جہنم
کی وادی انکی منتظر ہو گئ.
عقیدہ ختم نبوت بھی ضروریات دین میں داخل ہے اور اسکا انکار یقیناً کفر ہے,
سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد سب سے پہلے جس فتنہ
عظیمہ سے صحابہ کرام رضی اللہ کو مقابلہ کرنا پڑا وہ یہی انکار ختم نبوت کا
فتنہ تھا.
یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہے اسکے متعلق زیادہ تفصیل ترک دیں صرف یہ دیکھیں کہ
صحابہ اکرام رضی اللہ کا طرز عمل کیا تھا کہ انہوں نے منکرین ختم نبوت کے
ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ ایک منصف مزاج اور سمجھ دار مسلمان کے لیے یہ
ایسی بدیہی دلیل ہے کہ جسکے بعد مزید دلائل و برہان کی احتیاج باقی نہیں
رہتی.
اللہ کریم قران کریم میں فرماتا ہے کہ
(الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی
وَرَضِیتُ لَکُمُ الْاءِسْلامَ دِینا) القرآن:•
آج آپ کے دین کو آپکے لیے مکمل کردیا ہے، اور اپنے نعمتوں کو آپ کے لیے
تمام کردیا ہے اور دین اسلام کو آپ کےلئے چنا ہے•
مہر عالمستاب کی تابانی, ماہ منور کی نور افشانی, انجم نوری کی ضیاباری,
خاکدان ارضی کی تیرگی دور کرنے میں ناکام رہیں تا آنکہ مطلع ہدایت سے نور
نبوت کی شعاع نور افروز طلوع ہوئی, دنیا کی قسمت بیدار ہوئی, ابو البشر
حضرت آدم علیہ ألسلام نے فرش خاک کو اپنے قدم مبارک سے اعزاز افلاک بخشا,
یہ صبح سعادت دنیا کی سب سے پہلی صبح صادق تھی,
گردش لیل و نہار کے ساتھ نجوم نبوت کا طلوع و غروب بھی رہا, تمام گزرے ہوۓ
انبیاء علیہ السلام کے نام سے ہم واقف ہیں اور باقی کے ناموں سے بھی ہم
واقف بھی نہیں ,یہ سلسلہ نبوت جاری رہا یہاں تک کہ مکہ مکرمہ سے آفتاب
رسالت طلوع ہوا, محفل انجم برخاست ہوگی اور یہ سلسلہ نبوت و رسالت سید
المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ختم ہوا,
حدیث مبارکہ ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین
و جمیل محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس
کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ اینٹ بھی
کیوں نہ لگادی گئی۔
آپ ﷺ نے فرمایا: میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم
کرنے والا ہوں۔‘‘
قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارۃً یا کنایۃً عقيدہ ختم
نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا
ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی
نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔
پاکستان کے آئین 1973ء میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری نبی نہ
ماننے والے کو غیر مسلم قرار دیا گیا...
یاد رکھیں
عشق کا "ع" عقیدت سے ہے، اور "ش" شدت سے عقیدت شدت اختیار کرجاتی ہے، تب
"ق" قبولیت میں بدل جاتی ہے۔
|