چین 72 برسوں سے شاہراہ ترقی پر رواں دواں۔ تحریر: ارشد قریشی
( Arshad Qureshi, Karachi)
کہ امریکا میں بھی وباء کے خاتمے کے بعد معاشی اعتبار سے بہت بہتری آئے گی، تاہم اس کے بعد اس کی معیشت میں نمو کی شرح سست ہو کر 1.9 فیصد سے 1.6فیصد تک محدود ہو جائے گی۔ اس کے برعکس چینی معیشت کی شرح نمو 2021ء سے 2025ء تک 5.7 فیصد تک رہے گی۔ جس کے بعد 2026ء سے 2030ء تک اس شرح نمو کا اندازہ 4.5 فیصد کا لگایا گیا ہے۔ |
|
|
یکم اکتوبر 1949 کو آزادی حاصل کرنے والا چین آج بڑے فخر سے اپنی72 ویں جشنِ آزادی منانے جارہا ہے،آج سے 72 سال پہلے طویل ترین خانہ جنگی کے بعد جب چین نے آزادی حاصل کی تھی تو چین کے عظیم رہنما چیئر مین جناب ماوزے تنگ نے دارلحکومت بیجنگ کے مرکز میں واقع تھیان من کے مرکزی دروازے کے جبوترے پر کھڑے ہوکر عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا تھا اس اعلان کے بعد پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس نے چین کی حیثیت کو تسلیم کیا تھا اس اہم موقع کے دو برس بعد اکیس مئی 1951 کو چین اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ طور پر سفارتی تعلقا ت قائم ہوئے۔
چین اقوام متحدہ کے بانی ممالک میں شامل ہے اس وجہ سے چین کو سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق بھی حاصل ہے دوعشروں تک مغرب کی چین دشمنی کی وجہ سے اسے اقوام متحدہ میں اپنے جائز مقام سے محروم رہنا پڑا۔ 25اکتوبر1971چین کی سفارتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ عالمی ادارے میں چین کی مراعات بحال کردیں ۔چین کی اقوام متحدہ میں یہ غیر معمولی کامیابی دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ چین ہر فورم پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتا رہا ہے مراعات کی بحالی کے بعد چین چھوٹے اور کمزور اقوام کے تحفظ کے لئے موثر کردار ادا کر رہا ہے اقوام متحدہ میں سیٹ کی بحالی کے بعد چین نے عالمی برادری سے تعلقات کو فروغ دےنے پر توجہ دی 1970کے عشرے کے اختتام تک چین نے 120ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرلئے تھے جن میں امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام بھی ایک اہم پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے شنگھائی تعاون تنظیم ،کوریا کی جوہری قوت کے حوالے سے چھ ملکی مذاکرات ،چین افریقن تعاون تنظیم ،بیجنگ سربراہ اجلاس ایشیاءیورپ میٹنگ سے لے کر لندن میں جی ٹونٹی سربراہ اجلاس تک چین نے ہر فورم میں اپنے فعال کردارکی وجہ سے اپنی حیثیت منوالی ہے ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی قوت ہونے کے ناطے بھی چین نے عالمی معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور قوموں کی برادری میں چین کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے چین دنیا کا تیسرا ملک ہے جس نے انسان بردار خلائی جہاز خلاءمیں بھیجے 72 سال قبل جب چین آزاد ہوا تھا تو خلاءکو تسخیر کرنے سمیت وہ کامیابیاں خواب معلوم ہورہی تھیں جنہیں آج چین نے اپنی محنت کی بدولت تعبیر کاجامہ پہنایا ہے ۔
کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی قیادت میں چین نے سرکاری ملکیتی اداروں کا ایک مربوط نظام قائم کیا ، غربت کو ختم کیا اور صحت کی دیکھ بھال ، انڈوومنٹ انشورنس اور نو سالہ لازمی تعلیم کی عالمی کوریج حاصل کی۔ اگرچہ چین نے حالیہ دہائیوں میں تیزی سے ترقی کی ہے اور اس کی مجموعی قومی طاقت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ، یہ اب بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کا فی کس جی ڈی پی قریباً 10 ہزار امریکی ڈالر ہے ، جو دنیا میں 68 ویں نمبر پر اور میکسیکو و ترکی کے برابر ہے۔ چینیوں کیلئے ایک کمیونسٹ معاشرہ بنانا ایک آئیڈیل ہے جہاں سب اپنا بہترین کریں ، اپنی ضروریات کے مطابق سامان تقسیم کریں ، مساوی حقوق اور مشترکہ خوشحالی سے لطف اندوز ہوں۔ چین میں اس وقت قریباً 3 کروڑ نجی کاروباری ادارے ہیں جو چینی کاروباری اداروں کی کل تعداد کا 90 فیصد ہیں۔ چین کی معیشت کے ایک اہم حصے کے طور پر ان اداروں نے قومی ٹیکس آمدنی میں 50 فیصد اور جی ڈی پی میں 60 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ 70 فیصد سے زیادہ تکنیکی ایجادات کیں اور 80 فیصد سے زیادہ شہری روزگار فراہم کیا۔ پاکستان میں چین کے شہرت یافتہ کاروباری ادارے جیسا کہ چیلنج ، شائومی ، وی وو اور اوپوکام کررہے ہیں۔ چین کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ مکمل صنعتی کیٹیگریز ہیں جو بھرپور لیبر فورس اور اعلیٰ سطح کی ٹیکنالوجی سے مزین ہیں۔ یہ مطالبات کے مطابق مختلف قسم کی مصنوعات تیار کرتا ہے جو مختلف ممالک کی طرف سے بڑے پیمانے پر پسند کیے جاتے ہیں۔ درآمد کنندگان ، اپنی قومی کھپت کی سطح اور مارکیٹ کے تقاضوں کی بنیاد پر ، عام طور پر چین سے مارکیٹ میں آنے والی اشیاء درآمد کرتے ہیں۔ شنگھائی سے 350 کلومیٹر دور ایک چھوٹا ساشہر ہنگدیان ، دنیا کا سب سے بڑا فلم اور ٹیلی ویژن شوٹنگ مرکز ہے اور اسے فلم کی دنیا میں ’’چینی ہالی ووڈ‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہر سال قریباً 500 فلمیں اور ٹی وی سیریز شوٹ کی جاتی ہیں ، بشمول بلاک بسٹر فلمیں جیسے ہیرو ، دی ممی 3 وغیرہ۔ ہنگدیان چین کی فلم اور ٹیلی ویژن انڈسٹری کا عالمی سطح پر ایک آئینہ ہے۔ حالیہ برسوں میں ہواوئے برادرز ، بونا فلم گروپ اور وانڈا پکچرز جیسی کمپنیاں چین میں بڑے پیمانے پر مشہورہیں۔ بہت سے بین الاقوامی فلمی ستارے جیسے جیکی چن ، ژانگ زی اور ’’لی بنگ بنگ‘‘ اب بھی دنیا کیلئے بہترین کام کررہے ہیں۔ ڈائریکٹرز میں ژانگ یی مو ، انگ لی اور وو یو سین دنیا بھر میں مقبول ہیں۔
کورونا وائرس کی وباء اور اس کے نتیجے میں چین کی معاشی حکمت عملی اسے امریکا کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے میں معاون ثابت ہو گی۔ یہ بات ایک نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ ایک برطانوی تھنک ٹینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق بیجنگ 2028ء تک، اِس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ اس سے قبل یہ اندازہ 2033ء کا تھاچینی معیشت کی تیز رفتار بہتری کی وجہ بیجنگ اور واشنگٹن کا کورونا وائرس کی وباء سے پیدا شدہ حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی میں فرق کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں چین کی 'وباء سے مہارت کے ساتھ نمٹنے‘ کی تعریف کی گئی ہے، جہاں انتہائی آغاز میں ہی لاگو کیا جانے والا لاک ڈاؤن، کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کو قابو میں رکھنے میں معاون رہا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکا میں بھی وباء کے خاتمے کے بعد معاشی اعتبار سے بہت بہتری آئے گی، تاہم اس کے بعد اس کی معیشت میں نمو کی شرح سست ہو کر 1.9 فیصد سے 1.6فیصد تک محدود ہو جائے گی۔ اس کے برعکس چینی معیشت کی شرح نمو 2021ء سے 2025ء تک 5.7 فیصد تک رہے گی۔ جس کے بعد 2026ء سے 2030ء تک اس شرح نمو کا اندازہ 4.5 فیصد کا لگایا گیا ہے۔
اس تھنک ٹینک کی رپورٹ میں جاپان کے بارے میں یہی اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ 2030ء کی دہائی کے اوائل تک بدستور دنیا کی تیسری بڑی معیشت رہے گا جس کے بعد بھارت یہ جگہ لے سکتا ہے۔ جبکہ جرمنی جو اس وقت چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے وہ پانچویں پوزیشن پر چلا جائے گا۔ بھارت اس وقت دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے۔ جبکہ گزشتہ برس کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان دنیا کی چالیسویں بڑی معیشت ہے۔۔
چینیوں کی زبردست معاشی ترقی کا اہم راز یہ ہے کہ انہوں نے سب ہی ممالک سے دوستانہ اور امن پسندانہ تعلقات رکھے ہیں۔ یوں کسی غیر ضرروری مسائل میں الجھے بغیر وہ خاموشی سے معاشی ترقی کرتے رہے۔ لیکن صدر بارک اوباما کی آمد کے بعد امریکی اسٹیبلشمنٹ کھل کر مختلف معاملات پر چینیوں سے منہ ماری کرنے لگی ۔ خاص طور پر قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ‘ بحیرہ جنوبی چین دونوں بڑی قوتوں کے مابین وجہِ تنازع بن گیا۔ جب امریکہ کی جانب سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہی وقت تھا کہ چین نے فیصلہ کیا کہ اب اسے عسکری طور پر بھی مضبوط ہونا پڑے گا۔ اسی تناظر میں 2010ء کے بعد سے چینی حکومت نت نئے ہتھیار بنانے کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کرنے لگی۔ امریکا چین کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ لیکن امریکی حکمران طبقے کی چال بازیوں سے متنفر ہو کر چین نے فیصلہ کیا کہ دنیا میں نئی منڈیاں تلاش کی جائیں تاکہ چینی معیشت محض امریکا پر انحصار نہ کرے۔ یہ معاملہ بھی چین کے نئی شاہراہ ریشم منصوبے کو عملی شکل دینے کا سبب بن گیا۔
بلاشبہ اس قوم کو بھرپور انداز میں اپنی آزادی کا جشن منانے کا حق ہے جن کے ملک نے 72سال کامیابی کا سفر کامیابی سے طے کیا اور اب بھی شاہراہ ترقی پر پوری رفتار کے ساتھ دوڑا جارہا ہے اور اس کی رفتار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر ابھرے گا۔
|