جامعہ مسجد و مدرسہ جواہر المدارس، منور چورنگی گلستان
جوہر میں نماز عصر کے بعد میرے والد صاحب کی نماز جنازہ ہے، وہاں پہنچنے
میں مشکل پیش آرہی ہو تو آپ مجھ سے رابطہ کر لیجئے گا، اس مسجد کے قریب ہی
ہمارے عزیز ہیں میت وہاں ہوگی اور نماز عصر کی اذان کے بعد میت کو مسجد میں
لائیں گے۔تدفین ڈیفنس کے قبرستان میں ہوگی۔ وہاں سارا انتظام ہو چکا ہے۔۔۔
افنان علوی کی یہ ساری باتیں سننے کے بعد کچھ دیر اداسی رہی اور پھر حلقہ
احباب میں افنان علوی کے والداور ہمارے بزرگ دوست عظمت ریحان علوی صاحب کی
فوتگی و جنازے کی خبر دینا شروع کردیں۔ خبر سن کر کثیر تعداد ششدر رہی اور
ایک دوست نے تو کہا کہ گذشتہ روز ہم نے محمود آباد میں ایک ساتھ ہوٹل پر
چائے پی تھی اور ڈھیر ساری باتیں ہوئیں تھیں،پھر ایک لمبی سی آہ بھر کر
بولے،جانا تو سبھی نے ہے آج وہ گئے ہیں یقینا اسی طرح ایک روز ہماری بھی
جانے کی خبر ہوگی۔
19ستمبر اتوار کا دن تھا،نماز عصر سے قبل ہی ہم چلدیئے، مسجد و مدرسے کو
بھی معلوم کرنا تھا، منور چورنگی کے قریب پہنچے تو پولیس والے زیادہ تعداد
میں نظر آئے ان ہی کے ساتھ ٹریفک پولیس والے بھی موجود تھے، ایک اہلکار سے
مسجد کا پوچھا تو اسنے کہا کہ ہم تو آج ہی اس علاقے میں آئے ہیں، انہی کے
ایک اور ساتھی نے اک جانب اشارہ کیا اور ہم اس طرف چل پڑے، جوں جوں مسجد کے
قریب پہنچ رہے تھے سادہ اور وردی میں حفاظتی اداروں کے اہلکاروں کی تعداد
زیادہ نظر آرہی تھی، مسجد کے دروازے کے سامنے بھی پولیس موبائلیں اور
اہلکار کھڑے تھے، مسجدکے دروازے سیکیورٹی گارڈ موجود تھے، ان کا کہنا تھا
کہ ابھی اندر جانا منع ہے جب آذان ہوگی تب آپ مسجد میں داخل ہوسکیں گے،
بہرکیف اثرارپر جامعہ تلاشی لینے کے بعد جانے دیا گیا، مسجد کے اندر بھی
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار موجود تھے، قرآن کریم کو لے کر آذان
کے ہونے تک تلاوت کرتے رہے،مرحوم عظمت ریحان علوی صاحب کی میت کو لایا گیا،
افنان علوی سمیت دیگر دوست احباب سے بھی سلام دعا ہوئی، اسی دوران صدر
پاکستان ڈاکٹر عارف علوی بھی مسجد میں داخل ہوئے اور تیسری صف میں بیٹھ گئے،
صدر مملکت ہمارے بزرگ دوست عظمت ریحان علوی کے سگے ماموں ہیں اور یہ بات
مرحوم متعدد بار بتا چکے تھے۔۔۔
باجماعت نماز عصر کی ادائیگی سے قبل صدر صاحب پہلی صف میں آئے اور امام
مسجد نے بعد نماز، نماز جنازہ کی ادائیگی کا اعلان کیا، نماز عصر ادا کرنے
کے بعد عظمت ریحان علوی صاحب کی نماز جنازہ ادا کی گئی صدر ڈاکٹر عارف علوی
صاحب سمیت متعدد نے مرحوم کا چہرہ دیکھا، پھر میت کو مسجد سے باہر میت بس
تک لایا گیا اور وہیں سے قبرستان کی جانب سفر کا آغاز ہوا، صدر صاحب اپنے
مرحوم بھانجے کے بیٹوں سے ملے انہیں تسلی دی اور پھر اپنے قافلے کے ساتھ
روانہ ہوئے۔ افنان نے ہم سے اپنے دونوں بھائیوں سے ملوایا انہیں ہم نے تسلی
دی جس کے بعد وہ بھی قبرستان کی جانب روانہ ہوگئے۔۔۔
گلستان جوہر شہر قائد کے مصروف ترین مقامات میں سے ایک ہے، اس مصروف کالونی
میں صدر مملکت کا اپنے بھانجے کی نماز جنازہ میں آنا اور خاموشی سے چلے
جانا قابل تعریف کے ساتھ پی باعث حیرت بھی رہا، کسی ٹی وی چینل، اخبار و
خبر رساں ایجنسی کا نمائندہ وہاں نہیں تھا، عظمت ریحان علوی مرحوم کی والدہ
علیمہ علوی منور چورنگی کے قریب ہی رہائش پذیر ہیں، علیمہ علوی صاحبہ، صدر
پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی بڑی بہن ہیں،یوں بھانجے کی نماز جنازہ میں شریک
ہوکر صدر اپنی دیگر ذمہ داریاں نبھانے چلے گئے۔۔۔
عظمت ریحان علوی مرحوم نفیس محب وطن شہری ہونے کے ساتھ ایک محنتی انسان
تھے، انہوں نے اپنی زندگی کے چالیس سال سے زائد کا وقت اپنی زمینوں کے حصول
کیلئے جدوجہد میں گذارے، ماڑی پور تھانے سے ہاکس بے تک چار سو سے زائد ایکڑ
اراضی کے حصول کیلئے انہوں نے انتھک محنت کی تاہم انہیں کامیابی حاصل نہ
ہوسکی، مرحوم کی اس جدوجہد کو کیا ان کی اولاد جاری رکھے گی، اس سوال کا
جواب تو افنان و انکے دیگر بھائی ہی دے سکیں گے تاہم اس وقت ان سے اسطرح کے
سوالات مناسب نہیں۔ ان سے مسجد میں اور اس کے بعد انکے گھر پر مرحوم کے
سوئم میں بھی ملاقاتیں رہیں اور ہر بار انہیں ہمت و حوصلے کو برقرار رکھنے
کے ساتھ مرحوم کے درجات کی بلندی کیلئے مثبت سرگرمیاں کرنے کی تجاویز دیں۔
سوئم میں جماعت اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی بھی شریک تھے اور
انہوں نے درس قرآن کے ساتھ مرحوم کیلئے خصوصی دعائیں کیں۔ اہل محلہ کے ذمہ
داران سمیت مرحوم کے دوست احباب نے بھی مرحوم کے متعلق اپنی خیالات کا
اظہار کیا، محمد حسین محنتی کا کہنا تھا کہ وہ مرحوم اک جفاکش اور اپنے قول
و فعل پر پورا اترنے والا انسان تھا، ان سے اک طویل مدت سے رابطہ رہا،
اسکولوں کے معاملات سمیت کبھی بھی ہمیں ان کی خدمات کی ضرورت ہوئی تو وہ
انہوں نے احسن انداز میں ان سرانجام دیں۔ عظمت ریحان علوی مرحوم کے ساتھ
متعدد نشستیں رہیں، ماڑی پور و ہاکس بے وہ اپنی زیر قبضہ زمینوں پر بھی لے
کے گئے، ان زمینوں کے حصول کیلئے وہ اپنی طویل مدت سے جاری جدوجہد کا بھی
ذکر کرتے رہتے تھے۔
مرحوم کے ساتھ اک محفل میں ان سے کہا کہ جب اس ملک کا صدر آپ کا رشتے میں
ماموں ہے تو کیونکر زمینوں کے معاملات میں وہ آپ کی مدد نہیں کرتے؟ یہ سوال
ایک بار نہیں کئی بار ان سے کیا گیا تاہم وہ سوال سن کر جواب میں صرف
مسکراتے رہتے اور کچھ نہیں کہتے تھے، چہرے پر اک طویل داستان کے ساتھ
خاموشی ہی ان کا جواب ہوا کرتی تھی، ایک بار اسی موضوع پر بات جاری تھی اور
ان سے سوالات بھی یکے بعد دیگر کئے جاتے رہے تاہم وہ خاموش ہی رہے م جب
جواب نہ ملا تو یہ شعر
خاموش ہیں کسی سبب تو خاموش ہی رہنے دو ہمیں
راکھ کے ڈھیر نے شعلوں کو دبا رکھا ہے ۔۔۔ ہم نے پڑھا اور موضوع ہی بدل
دیا، اب جبکہ وہ اس عارضی دنیا سے چلے گئے اور وہاں جانا سبھی کو ہے، سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے بچے اپنی زمینوں کے حصول کیلئے اپنے والد کی
طرز پر جدوجہد کرینگے؟
چار سو سے زیادہ ایکڑ کی زمین پر سے قابضین کو ہٹانے کیلئے کمربستہ ہونگے؟
اس ملک کا صدر جو ان کے والد مرحوم کا ماموں ہے وہ ماموں کیا ان کو انکا حق
دلوالنے کیلئے اپنے اختیارات کا استعمال کرینگے ؟؟؟ |