ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی : اِک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا

 ڈاکٹرغلام شبیررانا
اردو اور انگریزی زبان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والے کے ممتاز پاکستانی ادیب،ماہر لسانیات ، محقق،مترجم اور مزاح نگار ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی سوموار ، بیس ستمبر ۲۰۲۱ ء کو مختصر علالت کے بعد راہیٔ ملک عدم ہو گئے ۔ رنگ ،خوشبو ،حُسن و خوبی ،فصاحت و بلاغت ،محبت و مروّت اور اپنی گل افشانی ٔگفتار سے دلوں کو مسخرکرنے و الامزاح نگار اور کالم نگار اب ملکوں ملکوں ڈھوندنے سے بھی نہیں ملے گا۔ادب میں سنجیدگی ،شگفتگی ،مقصدیت اور شائستگی کو فروغ دینے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دینے والا جری تخلیق کار دیکھتے ہی دیکھتے زینۂ ہستی سے اُتر گیا اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ایسے کثیر الجہات تخلیق کار کے دنیا سے اُٹھ جانے کی جاں کاہ خبر سُن کر دِل بیٹھ گیا۔ سلطان مسجد،خیابان حافظ، ڈیفنس فیز پانچ میں اُن کی نمازجنازہ ادا کی گئی اور ڈیفنس فیز آٹھ کے شہر خموشاں کی زمین نے اُرد وزبان و ادب کے اِس آ سمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔وہ یگانہ ٔ روزگار دانش ور جس نے طنز و مزاح ،سفر نامہ ،تحقیق و تنقید اور لسانیات پر اپنی ستائیس تصانیف سے ارد وادب کی ثروت میں اضافہ کیا اب ماضی کا حصہ بن چکاہے ۔ایک روشن خیال اور بیدار مغز ادیب کی حیثیت سے ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی کو صحافت اور کالم نگاری میں گراں قدر خدمات انجام دینے کی بنا پر آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی کی جانب سے انھیں دو مرتبہ ( ۱۹۹۴،۱۹۹۶)بہترین کالم نگار کا ایوارڈ ملا ۔فروغ ِ علم و ادب کے سلسلے میں اُن کی خدمات پر حکومت سندھ نے انھیں طلائی تمغے اور نقد انعام سے نوازا ۔پاکستان آرٹس کونسل،کراچی کے سینئیر رکن کی حیثیت سے اُنھوں نے وطن عزیز میں ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کے جو مساعی کیں وہ تاریخ ادب کے اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔پاکستان امریکن کلچرل سنٹر کے رکن کی حیثیت سے انھوں نے پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے کی تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کے موضوع پر کُھل کر لکھا ۔ روزنامہ ’’ جنگ ‘‘ میں اُن کے کالم طویل عرصے سے بے حد مقبول تھے ۔اُنھوں نے سال ۱۹۹۳ء میں پاکستان آ رٹس کونسل ،کراچی کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
تعلیم
بی کام،بی او ایل ،ایم۔اے( سیاسیات ) ،ایم۔اے ( صحافت ) ،ایل۔ایل۔بی ،ادیب فاضل ،ایف بی آئی ایم ( لندن ),پی ایچ۔ڈی
ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی نے سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن میں مختلف عہدوں پر چھتیس برس خدمات انجام دیں او ر دو بڑے ہسپتالوں کے منتظم بھی رہے ۔وہ سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کے سینئیر ترین ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔ اُنھوں نے پچیس سال تک سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کے مجلہ ’’ ماہ نامہ بہبود ‘‘ کی ادارت کی۔ اُنھوں نے کچھ عرصہ شعبہ ابلاغیات جامعہ کراچی میں اعزازی پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ اُنھوں نے حکومت بلوچستان کے سوشل سیکیورٹی مشیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔ ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی نے شاعری ،مکتوبات ،کالم نگاری ،افسانوں ،سفرنامہ ،خود نوشت ،ناول اور ادبی صحافت کے موضوع پر جو کام کیا وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سا ل ۲۰۰۳ ء میں تخلیق ادب کے پچاس برس مکمل ہونے پر اُن کی علمی و ادبی خدمات کی گولڈن جو بلی منائی گئی۔اس موقع پر حکومت سندھ کی طرف سے انھیں ایک لاکھ وپے نقدانعام اور گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ دبئی کی کمپنی ’’ التعارف ‘‘ کی طرف سے انھیں گولڈ میڈل اور پچاس ہزار روپے سے نواز ا گیا۔
اہم تصانیف
بقلم خود بخود ،سماجی تحفظ( اپریل ،۱۹۸۳ء ) ، پہاڑ تلے ( طنز و مزاح )، کتنے آدمی تھے ، حواس ِ خستہ ،اردو زبان و ادب ،تاریخ ِ ادب اردو ،اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں ،Tears and Cheers ،سر ی لنکا کا سفرنامہ( East is East) ،Wandering and wondering ،بہ نظرغائر
ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی کی تصنیف ’’ یو ں نہیں یوں اور کچھ دیگر ‘‘ کی تقریب رو نمائی پچیس جولائی ۲۰۱۹ء کو آرٹس کونسل کراچی کے منظر اکبر ہال میں ہوئی ۔ جنرل ( ر) معین الدین حیدرسابق گورنر سندھ اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے ۔ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی کی تصنیف ’’ اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں‘‘میں طنز و مزاح پر مبنی اُردو مضامین شامل ہیں ۔ موضوعات اور موادکے اعتبار سے اس انتہائی دلچسپ کتاب کا دیباچہ محمد فیضی نے تحریر کیا ہے جب کہ مصنف کا تعارف سید ضمیر جعفری نے تحریر کیاہے ۔اس کتاب میں جن مشاہیر کی آرا شامل ہیں ان میں پروفیسر عنایت علی خان، مشتاق احمد یوسفی اور ڈاکٹر وزیر آغا شامل ہیں ۔
ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی نے سال ۱۹۶۲ ء میں عوامی مزاج کے کالم نگار اور مزا ح نگار مجید لاہوری ( عبدالمجید چوہان : ۱۹۱۳۔۱۹۵۷)کے ادبی مجلہ ’’ نمک دان ‘‘ سے مزاح نگاری کا آغاز کیا ۔وہ اردو زبان میں مزاحیہ کالم ’’ ابن منشا ‘‘ کے قلمی نام سے لکھتے تھے ۔ سال ۱۹۸۲ء میں انھوں نے انگریزی زبان میں کالم نگاری کا آغاز کیا اور اُن کے کالم عالمی شہرت کے حامل انگریزی اخبارت کی زینت بنے ۔ اختتام ہفتہ پر ڈیلی نیوز میں شائع ہونے والا ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کا مقبول کالم ’ ’ Crocodile Tears ‘‘ قارئین میں بہت مقبول تھا۔یہ کالم شروع میں کئی برس تک روزنامہ ’’ جنگ ‘‘ میں شائع ہوتاتھا۔سال ۱۹۹۰ء کے بعد سے یہ کالم روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے لگاجسے قارئین کی طر ف سے بہت پذیرائی ملی ۔روزنامہ ایکسپریس کے لیے اُن کا کالم ’’ حسب منشا ‘‘ عصری آ گہی پروان چڑھانے میں بہت معاون ثابت ہوا۔روزنامہ ڈان میں پندرہ برس سے جمعہ کی اشاعت میں شامل ہونے والا اُن کا لکھا ہوا کالم بھی اپنی مثال آپ ہے ۔معاشرتی زندگی کے تضادات پر انھوں نے بے باکی سے لکھا اور عوامی فلاح کے منصوبوں سے پہلو تہی کرنے والے حلقوں کے روّیے کو اپنے قلم کی زد پر رکھتے ہوئے طنز و مزاح کا ہدف بنایا ۔
اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’ یو ں نہیں یوں اور کچھ دیگر ‘‘ میں ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی نے غلطی ہائے مضامین کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے ۔اُن کا خیال ہے کہ کچھ اشعار طویل عرصے سے غلط پڑھے جا رہے ہیں مگر کسی محقق کو اس کی کوئی پروا نہیں ۔ اپنی تحقیقی کتاب ’’ یو ں نہیں یوں اور کچھ دیگر ‘‘کو انھوں نے اہم بنیادی مآخذ، اصل مخطوطات اور مسودات کے عمیق مطالعہ کے بعد آٹھ سال کے طویل عرصے میں مکمل کیا ۔
ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی نے تخلیق ِ ادب میں گہری دلچسپی لی اور تقریباً ہر صنفِ ادب میں اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھائیں۔اُن کی ادبی تخلیقات کا عمیق مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اُنھوں نے لفظیات،اسلوبیات،جمالیات ،تصورات ،نظریات اور علم بشریات کے حوالے سے ستاروں پر کمند ڈالی ہے ۔ اپنی شگفتہ بیانی سے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی مزاحیہ تحریر کو زر نگار بنانے کافن خوب جانتے تھے۔ معاشرتی زندگی میں لوگوں کی سوچ کے مختلف پہلو تضادات ،بے ہنگم ارتعاشات اور نا ہمواریوں کے مظہر ہوتے ہیں ۔ ایک زیرک مزاح نگار کی حیثیت سے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی جس ہمدردانہ شعور کو رو بہ عمل لاتے ہیں اُسے دیکھ کر قاری اش اش کر اُٹھتاہے ۔پُتلی کے مانند آ نکھ سے مستور اشیا کو وہ دنیا کی سب سے بڑی صداقت سے تعبیر کرتے تھے ۔بادی النظر میں جن لوگوں کی بد اعمالیوں کی بنا پر انھیں قابل نفرت سمجھا جاتاہے حقیقت میں وہ خطرنا ک ٹھگ نہیں ہوتے بل کہ بُری صحبت میں پھنس جانے کے باعث وہ خواب غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔عالمِ خواب میں سر گرمِ سفر رہنے والے ایسے بے حس انسانوں کو طنز و مزاح کے کچوکے کسی حد تک جگا سکتے ہیں ۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے انھوں نے اپنے ایک مضمون ’’ تُو ہی ناداں چند کووں پر قناعت کر گیا ‘‘میں لکھا ہے :
’’تقریباً ساٹھ سال قبل ہم انٹر کلاس کے طالب علم تھے ۔ہمارے اُردو کے استاد پر وفیسر اظہار چودھری صاحب زبر دست حس مزاح کے مالک تھے۔ ایک روز وہ’’ کیسے کیسے‘‘ کی ردیف والی آتشؔ کی مشہور غزل پڑھا رہے تھے ۔ جب وہ اس شعر پر پہنچیـ ؂
تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
تو ان کی رگِ ظرافت پھڑکی ۔ کہنے لگے ، شاعر اپنے محبوب کو با ور کرانا چاہتا ہے کہ تم اگر حسن و جمال میں یکتا ہو تو کسی غلط فہمی میں نہ رہنا ، تمھارے عاشق بھی کوئی گئے گزرے نہیں ہیں۔ ان میں بھی ایک سے ایک چھنٹا ہوا ’’پیس‘‘ مو جود ہے جنھیں دنیا کے حسین ترین پھولوں(گل ، لا لہ ، ارغواں)کے مقابل رکھا جا سکتا ہے۔ پھر انھوں نے دو دلچسپ مثالیں دیں۔ بولے ’’ ایسا نہیں ہے کہ ایک مردا نہ وجاہت کا شہکار ہے اور اس کے پہلو میں کوئی کوا پری ہے یا پری جمال جارہی ہے اور اس کے ساتھ کوئی مکرانی چلا آرہا ہے۔ آتشؔ نے کمال خوب صورتی سے اس نظریے کی تر دید کی ہے کہ ۔
پہلوئے حور میں لنگور ،خدا کی قدرت
زاغ کی چونچ میں انگور خدا کی قدرت
اس روز ہمیں آتشؔ کے اس شعر کا مفہوم بھی ذہن نشین ہوگیا اور پہلی مرتبہ زاغ کے معنی بھی معلوم ہوئے۔ بات ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ اس سے پہلے کہ پروفیسر صاحب اگلا شعر شروع کرتے ۔ کلاس میں ایک لڑکے نے کھڑے ہوکر ان سے یہ معصومانہ سوال کیا’’ سر شہید کے معنی تو ہوتے ہیں اﷲ کی خاطرمرنے والا یہاں اس لفظ کا کیا مطلب ہے؟‘‘ سر نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا اور لڑکے کو قہر آلود نظروں سے گھورتے ہوئے جواب دیا ’’ یہاں اس کا مطلب ہے معشوق کی خاطر جینے والا۔‘‘بہر حال یہ دیکھیے کہ حضرت زاغ(کوے) نے آتشؔ کے شعر کی تفہیم میں کتنا اہم رول ادا کیا ہے ۔ اور ہم ہیں کہ انھیں ’’ کوا ٹر ٹر اتا ہے ، دھان پکتے ہیں‘‘ جیسے ذاتی دشمنی پر مبنی محاوروں کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں۔ سیدھی سادی بات نہیں کرتے کہ ’’ دشمن کے برا چاہنے سے کسی کا برا نہیں ہوتا‘‘ اس کہاوت کو مثبت معنی میں بھی لیا جاسکتا تھا کہ کوا ٹرٹرا کر کسانوں کو دھان کی فصل پک جانے کی نوید دیتا ہے اور انھیں ترغیب دیتا ہے کہ کٹائی کی تیاری کرلو۔‘‘(1)
تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے نے عصری ،سیاسی ،معاشرتی اورسماجی حالات پرجو اثرات مرتب کیے ہیں وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ایک عبقری دانش ور کی حیثیت سے ڈاکٹر ایس ۔ایم معین قریشی نے محض روایت ہی کو زاد راہ نہیں بنایابل کہ افکار ِ تازہ کی مشعل فروزاں کرکے جہانِ تازہ کی جانب سفر جاری رکھا۔اپنے سفر نامے میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے مختلف اسلامی ممالک کے بارے میں کئی چشم کشاصداقتوں کی لفظی مرقع نگاری کی ہے ۔ اُن کی تحریروں نے اردو زبان و ادب کو فکر وخیال ،مطالعۂ احوال ،جہاں بینی اور لسانیات کے حوالے سے ثروت مند بنا دیا۔ملیشیا جیسے اسلامی ملک میں حلال فوڈ کے بہت کم ہوٹل ہیں اور وہاں کے ہوٹلوں میں شراب کا چلن عام ہے ۔اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے لکھا ہے :
’’ ہم لوگ لاکھ گناہ گار سہی لیکن باہر جا کر حلال گوشت کے معاملے میں بہت محتاط ہوجاتے ہیں ہمیں ’’ لی جنڈ آف دی سیز ‘‘ کا ایک عشائیہ یادہے جس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ شریک تھے ۔۔۔۔۔کھانے سے پہلے تمام مہمانوں کے سامنے سرخ شراب (Red Wine) کی بڑی بڑی بوتلیں رکھ دی گئیں ۔کہاگیاکہ یہ خاص شراب بھوک کو مہمیز کرنے کی خاطر بطور Starter ( شروعات )پیش کی جارہی ہے ۔۔۔۔۔ویٹر نے مودبانہ لہجے میں پوچھا ’’ سر آپ کے لیے چکن گرل بھی لے آؤں ۔یہ ہماری آج کی خاص ڈش ہے ؟‘‘ہمارے دوست نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے منع کرتے ہوئے اُسی ڈانوا ڈول زبان سے کہا’’ ہر گز نہیں تمھاری مرغی حلال نہیں ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے شراب کا گلاس منھ سے لگالیا ۔یہ پوری کیفیت ( جس میں جبہ برابر جھوٹ یا مبالغہ نہیں) نامور مزاح نگار غالب عرفان کے اس شعر کی غماز تھی :
تمھاری دعوت قبول مجھ کو مگر تم اتنا خیال رکھنا
بئیر کسی بھی برانڈکی ہو چکن فرائڈ حلال رکھنا ‘‘ ( 2)
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے ایسا متنوع انداز بیاں اپنایا جس میں ندرت ،جدت اور ہمہ گیروسعت کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں پاکستان میں اردو کی ظریفانہ شاعری کے ارتقا پر ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی گہری نظر تھی ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں اقدار و روایات کی زبوں حالی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے معاشرتی زندگی کی پیچ در پیچ اُلجھی ہوئی بساط پر اپنی نظریں مر تکز کر دیں ۔اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے انھوں نے وہ جو کھم لیا جس کے معجز نما اثر سے آنسو بھی مسکر اہٹوں میں بدل گئے ۔ کسی بھی مقام پر وہ جب مضحکہ خیز صورت حال کو دیکھتے تھے تو اسے من و عن پیش کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتے تھے ۔اُن کے ظریفانہ اختصاص نے اُنھیں علمی و ادبی حلقوں میں معزز و مفتخر کر دیا۔اس عالمِ آب و گِل میں مفاد پرست استحصالی عناصر نے مصائب و آلام کی جو بساط پھیلا رکھی ہے اس نے الم نصیب جگر فگار انسانیت کو ناقابل اندمال صدمات سے دوچار کر دیاہے ۔اپنے ایک مضمون میں انھوں نے لکھا ہے :
’’ مزاحیہ اردو شاعری کے حوالے سے پاکستان ایک زرخیز خطہ رہا ہے ہمارے شعراکے نام بھی معیاری ہیں اور کلام بھی ۔ناموں کاذکر میں نے اس لیے کیاکہ کہ ہندوستان میں غالباًیہ سمجھ لیاگیاہے کہ کلام کے ساتھ ساتھ شاعرکانام بھی مزاحیہ ( بل کہ مضحکہ خیز ) ہونا چاہیے جیسے مچھر ،بوگس،بمباٹ ،پاگل اور ماچس وغیرہ ۔‘‘ (3)
تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں جہالت عجب گُل کِھلا رہی ہے ۔حالات اس قدر لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہو تے جا رہے ہیں کہ حساس تخلیق کار خود کو جزیرہ ٔ جہلا میں محصور محسوس کرتے ہیں وہ بچ کے کہاں جائیں جب کہ چا ر سُو ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہے جس کی ہر موج میں حلقہ ٔصد کام نہنگ ہے ۔کُو ڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے والے ان جہلا نے تو اپنی غاصبانہ روش سے رُتیں بے ثمر ، بستیا ں خوں میں تر ،کلیاں شرر ،زندگیاں پر خطراور آہیں بے اثر کر دی ہیں۔ شیخ چلی قماش کے مخبوط الحواس ،فاتر العقل مسخرے شیخ الجامعہ بن جاتے ہیں اور عالم فاضل لوگوں پر عرصہ ٔحیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے نہایت دردمندی سے اس صورت حال کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس قسم کے حالات کسی بھی قوم کے لیے بہت بُرا شگون ہیں ۔محسن بھوپالی نے سچ کہا تھا:
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ ٔ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
چور محل میں جنم لینے والے مشکوک نسب کے درندے اور سانپ تلے کے بچھو جب چور دروازے سے گُھس کرجاہ و منصب پر غاصبانہ قابض ہوجاتے ہیں تو گلستاں کی ہر شاخ پر چُغداپنا آشیاں بنا لیتے ہیں ۔ان حالات میں گلشن کے بارے میں کسی خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے وقت کے ایسے سانحہ کے بارے میں لکھاہے جہاں مہا مسخرے اپنی جہالت پر گھمنڈ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تخلیق تحریروں وہ سب کیفیات جلوہ گر ہیں جن سے جدید حسیت متشکل ہوتی ہے :
’’ اگر کہیں سیاست داں اور پروفیسر یک جا ہو جائیں تو پھر سمجھئے کہ ناظرین اور سامعین کے لیے بغیر ٹکٹ کا کامیڈی شو منعقد ہو گیا۔ایک طرف سے دعوے کا تیر چلتاہے تو دوسر ی طرف دلیل کی تفنگ داغی جاتی ہے سچائی پہلے ذلیل ہوتی ہے اور پھر قلیل ہوتی ہے ۔‘‘ (4)
تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت میں فراخ دلی ،خندہ پیشانی ،صبر و تحمل ،شگفتہ مزاجی اور طنزو مزاح کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ہنستے کھیلتے موجِ حوادث سے گزر جانے کا عمل جہاں کسی قوم کو کندن بنا دیتا ہے وہیں یہ رویہ اس قوم کے مہذب اور متمدن بنانے کی دلیل بھی ہے ۔ سماجی اور معاشرتی زندگی کی حقیقی معنویت کے موضوع پر ان کی تحریریں روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جاتی ہیں۔فسطائی جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ،شقاوت آمیز ناانصافیوں کی فصیل کو تیشہ ٔ حرف سے منہدم کرنے کی سعی کو شعار بناتے ہوئے اور مصائب و آلم کے پاٹوں میں پِسنے والی دکھی انسانیت کی حمایت میں انھوں نے جو طرزِ فغان ایجا د کی وہ جبر کے خلاف پیکار اور ضمیر کی للکار بن گئی ۔ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی بذلہ سنجی ،شگفتہ مزاجی ،حاضر جوابی ،بات سے بات نکالنے کی مہارت ،اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے با ندھنے کا انداز اور بے ہنگم کیفیات پر فقرے چست کرنا اور پھبتی کسنا اس کے اسلوب کا ایک نرالا روپ ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔زبان و بیان میں اس کی استعداد قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ اس تخلیق کار کے حضور سر تسلیم خم کیے ہیں اور وہ ان الفاظ کو اپنے مزاح کے اہداف پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کے لیے بر محل اور بے دریغ استعما ل کیے جا رہا ہے ۔وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے بر ملا کہہ دیتا ہے ،الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا اس کے ادبی مسلک کے خلاف ہے ۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشینے اپنی گُل افشانی ٔ گفتار سے طویل عرصہ تک ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنا ئے رکھا ۔اُن کی شگفتہ تحریریں زندگی کی بے اعتدالیوں ،نا ہمواریوں ،بے ہنگم تضادات اور ہیجان انگیز ارتعاشات کے بارے میں ہمدردانہ شعور کی آئینہ دار ہیں ۔اسلوب اور زبان و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اوراُن کی ادبی تخلیقات پڑھ کر قاری مسرت کے پر کیف لمحات میں کھو جاتا ہے ۔ایک فعال ،مستعد اوربے حد زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے کارِ جہاں اور بنی نوع انساں کے مسائل و معا ملات کی تفہیم پر گہری توجہ دی ہے ۔بے لوث محبت ،بے باک صداقت ،خلوص ،دردمندی ،انسانیت نوازی اور انسانیت شناسی اس کے رگ وپے میں سرایت کر گئی ہے ۔ایک سنجیدہ اور حساس تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے معاشرتی زندگی کے مسائل کو اس مہارت سے اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔اُن کی ظریفانہ تخلیقات اُن کے خلوص ،دردمندی سنجیدگی اور دلی کرب کاثمر ہیں ۔جس طرح ہر دیوانگی کے سوتے فرزانگی ہی سے پھوٹتے ہیں اسی طرح ظرافت کے پس پردہ بھی سنجیدگی اور متانت کار فرما ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے پُر لطف اسلوب میں معاشرتی زندگی کی اجتماعی کیفیات اور سماجی میلانات کو موضوع بنایا گیاہے۔اُن کے اسلوب کی انفرادیت حسن و رومان ،عشق و عاشقی ہجر و فراق ،ازدواجی زندگی کے مسائل اور سماجی زندگی کے حسین موضوعات کو پُر لطف استعاروں سے مزین کر دیتی ہے۔وادی ٔ جنون کے پیچ در پیچ راستوں پر چلنے والوں کے لیے یہ شاعری خضر ِ راہ ثابت ہو سکتی ہے ۔وادی ٔ جنوں کے آ بلہ پا مسافروں کی بو العجبی اور دیوانگی کا مداوا کرنے کے لیے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشیجیسا فرزانہ زندگی بھر خون دل میں انگلیاں ڈبو کر قہقہوں کے مضامین نو کے انبار لگانے میں مصروف رہا ۔وطن ،اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ڈاکٹر ایس ایم معین قریشیکے خمیر میں شامل تھی ۔ہنسی مذاق،تبسم اور قہقہہ ،طنز و مزاح اور چھیڑ چھاڑ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی جبلت قرار دی جا سکتی ہے ۔ اُن کے شگفتہ اسلوب میں ہنسنے کا یہ عمل ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے ۔کہیں تو وہ سماجی اور معاشرتی مسائل کی بوالعجبی پر ہنستے ہیں تو کہیں وہ خود اپنی بے بسی پر کھلکھلا کر ہنسنے لگتے ہیں ۔اپنے آپ پر ہنسنے کے لیے اُنھیں قادر مطلق کی طرف سے بہت بڑے ظرف سے نوازا گیاتھا۔وہ اپنے غم کا بھید بالکل نہیں کھلنے دیتے تھے بل کہ اپنی بات اس لطیف انداز میں کہہ جاتے کہ محفل کشت ِ زعفران بن جاتی ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اُن کی شگفتہ بیانی تزکیہ ٔ نفس کی ایک موثر صورت تھی ۔وہ ہوائے جور و ستم میں بھی رخ ِ وفا کو فروزاں رکھنے کے آرزومند تھے اور اپنی شگفتہ تحریروں میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے پیہم ہنسنااور مسکرانا اس لیے معمول بنا رکھا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاشرتی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اُن کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں۔اُن کی زندگی کی دھوپ چھاؤں،نشیب و فراز اور سارے موسم اُن کی شگفتہ تحریروں میں جلوہ گرہیں ۔ اُن کے منفرد اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت اُن کی شخصیت جو بہ ظا ہر ایک وحدت کی صورت میں مو جود ہے در اصل کئی اجزا سے مل کر تشکیل پاتی ہے ۔یہ اجزا زندگی کے مختلف مظاہر سے متشکل ہو تے ہیں، ان میں سے شادی و غم توام ہیں ۔یاس و ہراس کی فضا میں بھی وہ قنوطیت سے دامن بچا کر حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھنے پر اصرار کرتے تھے۔ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے اسلوب میں سیاسی ،معاشرتی اور سماجی شعور کی ارفع سطح کا اندازہ اس امرسے لگایا جا سکتاہے کہ انھوں نے تخلیق ِ فن کے لمحوں میں اپنے شگفتہ اسلوب کو کسی خاص موضوع یا پسندیدہ سلسلے کا پا بند نہیں رکھا ۔اُن کے اسلوب میں فکر و خیال کا دھنک رنگ منظر نامہ قاری کے لیے نشاط افزاثابت ہوتاہے ۔موجودہ زمانے میں کتابوں پر تبصرہ کرنے والوں نے جو طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے اُس پر گرفت کرتے ہوئے انھوں نے لکھاہے :
’’ کئی سال قبل ہم نے ایک ممتاز شاعرہ کے مجموعہ کلام پر بھر پور تنقیدی مضمون لکھاتھاجس کی بڑی تحسین ہوئی یہا ں تک کہ ایک روز مرحوم جون ایلیاہمارے دفتر آئے اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایسا ہی ایک مضمون ہم اُن پر لکھ دیں ۔البتہ ایک سکہ بند نقاد اور محقق نے ایک دِن بھری محفل میں ہم پر چوٹ کی ’’ آپ خود تو شاعری جانتے نہیں،پھر بھلا شاعری کے معیار کو کیسے پرکھ سکتے ہیں ؟ہم نے وہیں کھڑے کھڑے اُنھیں جواب دیا ،’ ’ جناب میں انڈہ دینا بھی نہیں جانتالیکن آ ملیٹ کے معیار کا اندازہ کر سکتاہوں ۔‘‘ (5)
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تخلیقی تحریروں میں طنز اور ظرافت میں پائی جانے والی حد ِ فاصل کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ اپنی تحریروں میں اصلاح اور مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اُنھوں نے طنز کا بر محل استعمال کیا ہے ۔وطن اور اہل وطن کی محبت سے سر شار ہو کر اُنھوں نے معاشرتی زندگی کے تضادات کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔اُن کا خیال ہے کہ طنز کے وسیلے سے نہ صرف سماج اور معاشرے کو خود احتسابی پر مائل کیا جا سکتا ہے بل کہ اس کے معجز نما اثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام بھی ممکن ہے ۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے معاشرتی اور سماجی زندگی کے عیوب اور کجیوں کوطنز کا ہدف بنایا ہے ۔
بڑھتی ہوئی عمر میں جب اعضا مضمحل ہو جائیں اور عناصر میں اعتدال بھی عنقا ہونے لگے تو سفر کی تمنا بالعموم ختم ہو جاتی ہے مگر ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے اپنی ضعیفی کے باوجود دنیا کے متعددممالک کے سفر کیے اور وہاں کی سیاحت کاحال زیب قرطاس کیا ۔اُن کے سفر کارِ جہاں کے بارے میں اُن کی خاص سوچ اور عرفان ذات کے متعدد پہلو سامنے لاتے ہیں سفرنامہ کی صنف میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے اپنے مشاہدے اور تجربے کو افکارتازہ سے مزین کر کے جو گُل کِھلائے ہیں وہ قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔کارِ جہاں سے انسان زرومال اکٹھا کرتاہے مگر دنیا کے سفر اُسے تخلیق کائنات کے اسرار و رموز سے آ گاہ کرتے ہیں اور وہ قلبی و روحانی نشاط سے فیض یاب ہوتاہے ۔زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم کے سلسلے میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے پوری دنیا کے سیاحتی سفر کو بہت اہم قراردیا۔دنیا کے مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کو اُنھوں نے ہمیشہ خود آ گہی کا ایک وسیلہ سمجھا اور دنیا کے مختلف ممالک کی تہذیب و ثقافت کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ۔ منظر نگاری ،سراپا نگاری اور جزئیات نگاری کا یہ انداز ان کے اسلوب کا انفراد قرا دیا جا سکتاہے ۔یونان کے سفر نامہ ’’ کیا کیا طلسم دفن ہیں ‘‘ میں انھوں نے لکھا ہے :
’’ یورپ میں بوڑھوں کا پسندیدہ مشغلہ Cruise( بحری تفریح) ہے ۔ہفتوں لباس ِ فطرت میں ملبوس عرشے پر پڑے تیرتے رہتے ہیں۔یہ وہ عمر ہوتی ہے جب پیکٹ میں سے سگریٹ نکالنے کے عمل کو بھی ’’ ورزش ‘‘کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور جب انسان کے سر سے زیادہ کانوں پر بال اُگتے ہیں ،چوں کہ ہم بھی اس کلب کی رکنیت حاصل کر چُکے ہیں ،لہاذا ،ہمیں بھی بحری تفریح کا بہت شوق ہے ،اس لیے بھی اس میں سمندر کے علاوہ ’’ اور بہت کچھ ‘‘دیکھنے کا موقع مِل جاتاہے اور بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے:
ہر جا تیری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہوں کہ دو آ نکھو ں سے کیا کیا دیکھوں ( میر ببر علی انیس ؔ ) (6)
اپنے اسلوب اور تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی ہے وہ سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو الیتی ہے ۔اُنھوں نے زندگی کے جملہ اسرار و رموز کی گر ہ کشائی کرتے ہوئے عیوب کی جس طرح جراحت کی ہے وہ زبان و بیان پر اُن کی خلاقانہ دسترس اوراُن کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔اُن کی شگفتہ بیانی کو محض ہنسی مذاق پر محمول نہیں کیا جا سکتا بل کہ اس کے پس پردہ قومی دردمندی اور معاشرتی اصلاح کے ارفع جذبات کار فرما ہیں ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی شگفتہ تحریروں میں قومی دردمندی اور اصلاح و مقصدیت کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے جس طرح ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی زلف گِرہ گیر کا اسیر ہونے کے بعد حُسنِ ِ بے پروا کے جلووں کے لیے بے تاب اور محبوب سے ہم کلام ہو کر اس کی گویائی کے دوران اس کے لبوں سے جھڑنے والے پُھولوں کی عطر بیزی سے قریہ ٔ جاں کو معطر کرنے کا آرزو مند رہتا ہے ۔سید محمد جعفر زٹلی سے لے کر ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی تک اردو ادب میں طنزو مزاح کی ایک مضبوط و مستحکم روایت پروان چڑھی ہے ۔ اس ہوائے بے اماں میں شگفتہ تحریریں انسان کو آلام ِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتی ہیں ۔ ایسا شخص جو سداستم کش ِ سفر رہتاہو مگر کسی ظریفانہ تحریرمیں دلچسپی نہ لیتا ہو اس کے قنوطی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے رجائیت اور مسرت کے عصا سے قنوطیت کے ناگ کچلنے کا عزم کر رکھاتھا۔بادی النظر میں اُردو ادب میں طنزو مزاح کی اس درخشاں روایت کو اردو شاعری کی فکری منہاج اور ذہنی استعداد کے معائر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔اردو ادب میں طنز و مزاح کی اس درخشاں روایت کو ہر دور میں قارئین ادب کی جانب سے جو شر ف پذیرائی ملا ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی ظریفانہ تحریروں میں اُن کے فکر و خیال کی دنیا کے بارے میں قاری کو ایک جہان تازہ کی نوید سنائی گئی ہے ۔یہ ظریفانہ تحریریں حبس کے مسموم ماحول میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے کے ما نند ہیں۔اِن پر لطف تحریروں کے مطالعہ سے قاری پر افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے متعدد نئے امکانات واضح ہوتے چلے جاتے ہیں ۔اِن تحریروں میں ایک پیغام عمل بھی ہے اور ایک فغاں بھی ،ایک درد بھی ہے اور ایک جراحت بھی ۔جامد و ساکت بتوں پر تیشہء حرف سے کاری ضرب لگائی گئی ہے اور در کسریٰ میں موجود حنوط شدہ لاشوں کی بے حسی اور مکر کا پردہ فاش کیا گیا ہے ۔ قلعۂ فراموشی کے اسیر وں اور عوج بن عنق ہونے کے داعی لوگوں کو آ ئینہ دکھایا گیا ہے ۔ایسی تحریروں میں خندہء زیر لب کی ہر کیفیت تخلیق کار کی بصیرت کی مظہر ہے ۔یہ شگفتہ تحریریں قاری کے فکر و خیال کو اس طرح مہمیز کرتی ہے کہ اس پر فکر و نظر اور خیال افروز بصیرتوں کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔سفاک ظلمتوں اور ہجوم غم میں دل کو سنبھال کر آگے بڑھنے کا جو پیغام قاری کو اِن راحت فزا تحریروں سے ملتا ہے وہ اسے مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیتا ہے ۔
ایک ظریف الطبع تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے ظرافت اور طنز کے حسین امتزاج سے اپنی تخلیقات کو دو آ تشہ بنا دیا ہے ۔اُنھوں نے بذلہ سنجی سے آگے بڑھ کر طنز کے ذریعے جراحتِ دِل کا جو اہتمام کیا ہے وہ اُن کے اسلوب کی تاثیر کو چار چاند لگا دیتا ہے ۔انسانیت کے سا تھ بے لوث محبت کرنے والے اس تخلیق کار نے جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظربنایا ہے وہ اُنھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کرتا ہے ۔دُکھی انسانیت کے ساتھ اُنھوں نے جو پیمان وفا اُستوار کیا ہے، اسے وہ علاج گردش لیل و نہا ر سمجھتے تھے ۔اُن کی ظریفانہ تحریروں میں ایک تخلیقی شان اور علمی وقار موجود ہے ۔ محبت کرنے والے چاند ،ستاروں اور خورشید جہا ں تاب کی تمنا کرتے ہیں مگر جب وہ سرابوں کے عذابوں میں پھنس جاتے ہیں تو سفاک ظلمتیں اور جا ن لیوا تنہائیاں اُنھیں زندہ در گو کر دیتی ہیں۔ اس میں کہیں بھی پھکڑ پن اور ابتذال کا شائبہ تک نہیں گزرتا ۔تخلیق کار کی علمی اور تخلیقی سطحِ فائقہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔دِلِ بینا رکھنے والے اس حقیقت سے آگا ہ ہیں کہ سچی محبت کے لیے بصیرت نا گزیر ہے ۔ نگاہوں کے تیر عاشق کو گھائل کرکے اپنے قلب و نظر کے تصورات کے قفس میں اس طرح اسیر کر لیتے ہیں کہ صبر و قرار کی دنیا ویران ہو جاتی ہے ۔مجازی محبت میں ناکامی کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ فلک بھی کسی دِل جلے کی آخر ی آرام گاہ ہے اور شکستہ دِلوں کی آہوں کے باعث یہ سارا عالم دھوا ں دھار دکھائی دیتاہے ۔محبت کو ایک یک طرفہ عمل اس لیے قرار دیا جاتاہے کہ محبت کوئی لین دین ہر گز نہیں بل کہ یہاں تو دینے ہی سے معاملہ رہتاہے ۔اگر محبت میں سر دمہری کا شائبہ ہونے لگے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ معاملہ ترکِ محبت تک پہنچ گیا ہے بل کہ یہاں سے مزید محبت اور زیادہ محبت کے مرحلے کا آغاز ہوتاہے ۔نو آبادیاتی دور کے تلخ تجربات نے محبت اور غلامی کی نفسیات کو بدل کر رکھ دیا ہے اور خزاں کے سیکڑوں مناظرکی طرح محبت کے بھی ہزاروں رُوپ ہیں جنھیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتاہے ۔
’’ صاحبو! غلامی میں بد ترین غلامی یا توگو رے کی غلامی ہے یا پھر گوری کی غلامی ۔فر ق یہ ہے کہ گوری دل پہ حکمرانی کرتی ہے اور گورا دماغ پر ۔‘‘ (7)
کارِ جہاں کے ہیچ ہونے کے موضوع پر ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے کئی مقامات پر اپنی بے لاگ رائے دی ہے ۔ انسان کی زندگی کے شب و روز عجیب سی کشمکش میں گزرتے ہیں کبھی تو سوز و سا زرومی کی کیفیت پیش نظر ہوتی ہے اور کبھی پیچ و تاب رازی کا قصہ اُس کے مزاج کا حصہ بن جاتاہے ۔ جذبات و احساسات کی انتہاانسان کو جنونِ دِل اور وارفتگی ٔ شوق کے عالم سے آ شنا کرتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ دشتِ جنوں میں موجود ہر خار نے اپنی نوک تیز کر رکھی ہے کہ شاید کسی آ بلہ پا کا اس جانب سے گزر ہو۔ رہروانِ دشت ِ وفااس بات سے آ گاہ ہیں کہ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گااور بہت جلد بنجارہ یہاں سے لاد کر چل دے گا۔ قلزم ہستی کے د و کنارے ہیں ایک طرف تومسرتوں کی سر زمین ہے اور دوسرے کنارے پر حسرتوں کا مدفن ہے ۔راحتوں اور مسرتوں کی جستجو میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ظریفانہ تحریروں میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے قدیم لطائف اور مبالغہ آمیز تحریروں کا حربہ بھی نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔
’’پرانا لطیفہ ہے مگر بر محل ہے اس لیے نوکِ قلم پر آگیا ۔ ایک نواب صاحب نے دوسرے نواب صاحب سے ڈینگ ماری ’’ دادا جان قبلہ کا اصطبل اتنا بڑا تھا کہ اچھا خاصا صحت مند گھوڑا بھی ایک طرف سے دوڑنا شروع کر تا تودرمیان تک پہنچتے پہنچتے ہانپ کر گر جاتاتھا۔‘‘دوسرے صاحب نے نہلے پہ دہلامارا ۔’’میرے دادا جان قبلہ کے پاس ایک لمبا نیزہ تھا کہ کبھی بہت حبس ہوتا تو وہ زمین پر کھڑے کھڑ ے اس کی نوک بادلوں میں چبھوتے اور با رش شروع ہو جاتی تھی۔‘‘میں نہیں مانتاپہلے نواب صاحب سے جھوٹ ہضم نہیں ہوا۔ انھو ں نے منطق بگھاری ’’ اتنا بڑا نیزاوہ بھلا کہاں رکھتے تھے ؟‘‘آپ کے دادا جان کے اصطبل میں‘‘دوسرے نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔‘‘ (8)
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی بلند پایہ تخلیقات کے مطالعہ کے بعد اُن کے تخلیقی اور لا شعوری محرکات کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا ۔اُ نھوں نے اپنے عہد کے حالات اور واقعات کو اپنے ظریفانہ اسلوب کا موضوع بنایا ہے ۔وہ اپنی مثبت سوچ کے اعجاز سے خوش گوار نتائج کے حصول کے آرزو مند تھے۔ اگرچہ عملی زندگی میں اُن کے کچھ تجربات اور مشاہدات اُمید افزا نہیں رہے مگر اس کے باوجود وہ حوصلے اور اُمید کی مشعل فروزاں رکھنے پر اصرار کرتے تھے ۔ ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا اُن کا شیوہ تھا اور کسی کی کج ادائی پر بھی وہ دِل بُرانہیں کرتے تھے۔پس نو آ بادیاتی دور میں اُنھوں نے ظالم و سفاک مُوذی و مکار استحصالی عناصر اور جابر قوتوں کو بر ملا ہدف تنقید بنایا ہے ۔اُنھیں صرف تعمیری انداز فکر سے دلچسپی تھی کسی کی تخریب کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا۔اُنھوں نے نہایت اخلاق اور اخلاص سے کام لیتے ہوئے طنزو مزاح کی وادی میں قدم رکھا ۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو تخلیق ادب میں بھی متعدد نئی جہات سامنے آئیں اُردو ادب میں طنزو مزاح پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔مجید لاہوری ،سید محمد جعفری ،سید ضمیر جعفری ، عنایت علی خان ، اسد ملتانی ،فیروز شاہ ،ارشادگرامی ،کرنل محمد خان ،دلاور فگار ،سید مظفر علی ظفر ،خضر تمیمی ،احمد تنویر ،رام ریاض اوراُ ن کے معاصرین نے اپنی شگفتہ تحریروں میں آزادی کے بعد رُو نُما ہانے والے واقعات کے بارے میں اپنی تشویش ۔کو پیرایہء اظہار عطا کیاوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ وفا اور بے نوافقیروں کی صورت حال تو جو ں کی توں رہی مگر بے ضمیروں کے وارے نیارے ہو گئے ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشیکی پُر لطف شگفتہ تحریروں میں طنز کی نشتریت قاری کو تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔انھوں نے اپنی تخلیقات میں اس جانب توجہ مبذول کرا ئی ہے کہ زندگی کٹھن حالات کو دیکھ کر رونے اور بسورنے سے بسر نہیں ہو سکتی بل کہ حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے ہی سے سمے کے سم کے ثمر کے بارے میں کوئی ٹھوس لائحہء عمل مرتب کیا جا سکتا ہے اور اس مسموم ماحول سے بچنے کی کوئی صورت تلاش کی جا سکتی ہے ۔ جو طوفانوں میں پلتے ہیں وہی بالآخر اپنے مشکل حالات کو بدلتے ہیں ۔آج کا انسان مظلومیت کی تصویر بنا ،محرومیوں کے چیتھڑے اوڑھے نشیبِ زینہء ایام پر عصا رکھتے زینہء ہستی سے اُتر جاتا ہے مگر کوئی اُس کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا ۔اردو ادب میں کامیاب طنز و مزاح لکھنے والے صاحب اسلوب تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے ہر قسم کی نا انصافیوں کو خندہء استہزا میں اُڑانے کی کوشش کی ہے ۔معاشرتی زندگی کا انتشار ،تضادات ،مناقشات اور بے اعتدالیاں اُنھیں مایوس نہیں کرتیں بل کہ وہ قارئین کے دلوں کو اپنی شگفتہ تحریروں کے ذریعے ایک ولولہء تازہ عطا کرتے ہیں ۔اُن کی دلچسپ ادبی تخلیقات میں زہر خند اور طنز کی نشتریت قاری کو ایک انوکھے تجربے سے آشنا کرتی ہے ۔کتنے ہی آنسو قاری کی پلکوں تک آتے ہیں مگر وہ زیر لب مسکراتے ہوئے ان تخلیقات کا استحسان کرتے ہیں ۔اردو ادب میں طنزو مزاح کے یہ انداز کئی اعتبار سے پس نو آبادیاتی دور میں قومی کلچر کے بارے میں حقیقی شعور کو سامنے لاتے ہیں ۔یاد رکھنا چاہیے ظرافت کا قصر عالی شان زندگی کی بے اعتدالیوں ،نا ہمواریوں اور تضادات کے ہمدردانہ شعور کی اساس پر استوار ہوتا ہے اور اس کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ اس کے اظہار و ابلاغ میں فنی مہارت اوراسلوبیاتی نُدرت کو رو بہ عمل لایا جائے ۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلاہر ظالم،منافق اور کینہ پرور حاسد پہ تین حرف بھیجنا ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی جیسے مزاح نگاروں کا ادبی مسلک ہے ۔ہر شعبہء زندگی سے وابستہ قارئین ادب کے لیے اصلاح اور تفریح کے مواقع پیدا کرنے کی سعی کرنے والے اس تخلیق کار کی سدا بہار تخلیقات ہر عہد میں مسکراہٹیں بکھیرتی رہیں گی۔ادبی حلقوں نے اب انجمن ستائش باہمی کی صورت اختیار کر لی ہے ۔اب کسی با صلاحیت ادیب کے بارے میں حق و صداقت کا مظہر ایک جملہ کہنے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشینے تنقید اور تحقیق کی اس محرومی پر گرفت کی ہے ۔اُن کے موضوعات کا دائرہ وسیع اور مقبولیت لا محدود ہے ۔
طنز و مزاح لکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دردمندوں کے لیے دوا بن کر لکھے اس کے دل میں انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت کے فراواں جذبات موجزن ہوں ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کو اس بات کا قلق تھا کہ معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈلا رہاہے ۔کسی کو ایسے شکستہ دلوں کا خیال تک نہیں کہ غرقابِ غم اور نڈھال ہونے کے بعد جن کے دِل کی انجمن میں فکر و خیال کی شمع گل ہو گئی ہے ۔موجودہ دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ دُکھی انسانیت کا واسطہ سنگلاخ چٹانوں ،بے ستون مکانوں ،کوہساروں ،سر بہ فلک دیواروں اور موذیوں و مکاروں سے پڑا ہے ۔ وہ دکھی انسانیت کے ساتھ قلبی اور روحانی وابستگی رکھتا ہو ۔اس عالم آب و گِل میں زندگی بسر کرنے والی تمام انسانیت کے مسائل کے بارے میں ایک ہمدردانہ شعور رکھتا ہو ۔اس کے دل پر جو صدمے گزریں اور اس کا واسطہ جن متنوع تجربات و مشاہدات سے پڑے انھیں شگفتہ پیرایہ ء اظہار عطا کرکے قارئینِ ادب کے ساتھ اپنا معتبر ربط برقرار رکھے ۔ایک زیرک مزاح نگار اپنے شگفتہ اسلوب میں جہاں اپنی شگفتہ بیانی کا رنگ جماتا ہے وہاں حالات کی سفاکی اور بے اعتدالی کے بارے میں اپنی تشویش اور رنج و کرب کو بھی اس میں جگہ دے کر اپنی حساس طبع کے تزکیہ ٔ نفس کی ایک صورت تلاش کر لیتا ہے ۔اگرچہ وہ اپنے غم کا بھید کُھلنے نہیں دیتا لیکن قارئین سے اُس کی دلی کیفیت مخفی نہیں رہتی ۔وہ در اصل ایک دیرپا اور ہمہ گیر نوعیت کی مسرت اور شادمانی کا متلاشی ہوتا ہے جو انسانیت کے دکھ کی دوا اور زخموں کے اندمال کی ایک صورت بن جائے ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے اپنی شگفتہ تخلیقات میں کئی انداز اپنائے ہیں ۔وہ قارئین پر واضح کر دیتے ہیں کہ خزاں کے سیکڑوں مناظر کی موجودگی میں طلوع صبح بہاراں کا اعتبار کرنا خود فریبی ہے ۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتاہے کہ گجر بجنے سے دھوکا کھانے والے پھر بھیانک تیرگی میں پھنس جاتے ہیں اور ان جان لیوا اندھیروں میں ٹامک ٹوئیے مارتے مارتے عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشیکی ظریفانہ تحریریں پڑھنے کے بعد اُن کے جو رُوپ سامنے آتے ہیں اُن میں وہ ایک معلم ،ناصح ،مفکر ،فلسفی،سماجی کارکن ،شوہر ،عاشق ،تخلیق کار اور نقاد کی صورت میں خوب کُھل کر لکھتے دکھائی دیتے ہیں ۔ معمولات ِ زندگی کے بارے میں اُن کی تلخ باتیں ناگوار اس لیے نہیں گزرتیں کیوں کہ وہ پُر لطف اندا میں وہ سب کُچھ کہہ جاتے ہیں جو اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے ۔وہ خوابوں کی خیاباں سازیوں اور بے سروپا ملمع نگاری کے قائل نہیں۔اُن کا اسلوب قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر قاری پر تمام حقائق واضح کر دیتا ہے ۔اس طرح قاری آثار مصیبت کے اس ہمہ گیر احساس سے متمتع ہوتا ہے جو امروز کی شورش میں اندیشہء فردا عطا کرتا ہے ۔ صنائع بدائع اور مزاحیہ صورت واقعہ سے مزاح پیدا کرنے میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کو کمال حاصل ہے ۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشینے اپنی شاعری میں ہمیشہ حق و صداقت کی بات کی ہے ۔ انھوں نے مظلوم انسانوں کی مایوسی ،محرومی اور ناانصافی کے گھاؤ بھرنے کے لیے دردِ دِل ،خلوص اور وفا کا مرہم استعمال کیا ۔وہ حریت فکر و عمل کا ایسے مجاہد کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں جس نے زندگی بھر حرفِ صداقت لکھنا اپنا شعار بنا ئے رکھا ہے ۔اُ ن کا خیال تھا کہ ظلم کو سہنا اور اُس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا منافقت اور بے حسی کی علامت ہے ۔اس نوعیت کے اہانت آمیز رویے سے ظالم و سفاک درندوں کو کُھل کھیلنے اور مظلوموں پر کوہِ ستم توڑنے کا موقع مِل جاتا ہے ۔اُن کا خیال تھاکہ فقط عدل و انصاف ہی کی اساس پر سیرت و کردار اور اخلاقیات کی تعمیر ممکن ہے ۔فن کا ر کی انا اور عزت نفس کو دل و جان سے عزیز رکھنے والے اس تخلیق کار نے ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو اپنا شعار بنا رکھا تھا ۔اپنی شگفتہ تحریروں کے ذریعے معاشرتی زندگی میں رنگ ،خوشبو اور حُسن و خوبی کے تمام استعارے یک جا کرنے والے اس تخلیق کار نے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔اُردو زبان و ادب اور مشرقی تہذیب و ثقافت ے فروغ کے لیے اُن کی مساعی کا ایک عالم معترف ہے ۔ خالص مزاح ،طنز اور رمز کے امتزاج سے مسکراہٹیں بکھیرنے والے اس سدا بہار تخلیق کارکے منفرد اسلوب کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے واقعات ،مو ضوعات ،تکلم کے سلسوں ،تجربات اور مشاہدات سے مزاح کشیدکر نے کی جو سعی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔اختر شیرانی( 1905-1948) کی رومانی شاعری کو وہ قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ وہ اختر شیرانی کے رومان کے قدر دان تھے ۔وہ جانتے تھے کہ پری چہرہ حسیناؤں کو دیکھ کر اختر شیرانی اپنے دِل پر قابو نہ رکھ سکے ۔کاش ایساہوتاکہ وہ اپنے مزاج اورقوت ارادی پر اپنی گرفت مضبو ط رکھتے ۔اختر شیرانی نے جن خواتین سے پیمان وفا باندھ رکھاتھا اُن میں سلمیٰ ،ریحانہ ،عذرا ،شمسہ شامل ہیں ۔ اختر شیرانی نے مجازی محبت کو منافع بخش تجارت کبھی نہیں سمجھا بل کہ رومانی عہد وپیمان کو اُس نے سرا سر جی کے زیاں کی ایک صورت سے تعبیر کیا ۔ اختر شیرانی نے بالعموم مہ وشوں کی گفتار اور سوچ بچار پر انحصار کیا مگراُن کے طرز ِعمل اورکردار پر کبھی توجہ نہیں دی ۔اسی فروگزاشت نے اُسے مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ موقع پرست حسیناؤں کی خود غرضی ایسا زہر ہے جس کا کوئی تریاق ہی نہیں ۔اختر شیرانی کی حیران کُن رومانی زندگی کے آلام کی شام ہو گئی تو سب تتلیاں اپنی اپنی نئی منتخب کُھلی فضا ؤں میں پرواز کر گئیں ۔ وقت اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ وہ کیا عوامل تھے جن کے باعث مجید امجد کو شالاط اوراختر شیرانی کو حسیناؤں کے مکر کا جال دکھائی نہ دیا۔ اس کا ایک سبب تو شاید یہی ہو سکتاہے کہ یہ حساس تخلیق کار زندگی کی یکسانیت اور جمود سے ناخوش و بیزار تھے اور اپنے احباب کے بارے میں اُن کی رائے جب ایک مرتبہ متزلزل ہوئی تو پھر اُن کی کوئی اُمید بر نہ آئی اور نہ ہی ا س کی اصلاح کی کوئی صورت نظر آئی۔ محبت کے بے اختیار جذبے نے اِن کو ہوش و خرد سے محروم کر دیا تھا اور وہ دیوانہ وار اپنے محبوب کے منتظر رہتے تھے۔ وہ کبھی حرفِ شکایت لب پر نہ لاتے اس لیے بے حس محبوب ان کو روند کر آگے نکل جاتے تھے ۔ اس بے حس معاشرے میں کسی کو بھی دوسروں کی خوشیوں کا کوئی خیا ل تک نہیں۔ اختر شیرانی نے کئی بار سرِ گرداب سلمیٰ کو پکارا مگر اس کی آواز صدابہ صحرا ثابت ہوئی :
کسے خبر یہ گھٹائیں رہیں رہیں نہ رہیں
یہ نگہتیں ،یہ ہوائیں رہیں رہیں نہ رہیں
یہ مستیاں یہ فضائیں رہیں رہیں نہ رہیں
شرابِ وصل کا شربت پِلا بھی جا سلمیٰ
بہار بیتنے والی ہے آ بھی جا سلمیٰ
گنوا نہ سوگ میں اپنے شباب کی راتیں
نظر نہ آ ئیں گی پھر ماہتاب کی راتیں
یہ نکہتوں کاہجوم اور یہ خواب کی راتیں
فضا میں خوابِ حسیں بن کے چھا بھی جا سلمیٰ
بہار بیتنے والی ہے آ بھی جا سلمیٰ
اختر شیرانی کی رومانی شاعری کو موسیقیت کی بنا پر ساحری بھی کہا جاتاہے ۔اپنی نظم ’’ انتظار ‘‘ میں اختر شیرانی نے سلمیٰ کی آمد کے بارے میں خوب لکھا ہے :
بہار و کیف کی بدلی اُتر آئے گی وادی میں
سرور و نُور کاکوثر چھڑک جائے گی وادی میں
نسیم بادیہ ،منظر کو مہکائے گی وادی میں !
شباب و حُسن کی بجلی سی لہرائے گی وادی میں!
سُناہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں
ابھی سے جاؤں اور وادی کے نظروں سے کہہ آؤں
بچھا دیں فرشِ گُل وادی میں گلزارو ں سے کہہ آؤں
چھڑک دیں مستیاں پھولوں کی مہکاروں سے کہہ آؤں
کہ سلمیٰ میری سلمیٰ نُور برسائے گی وادی میں
سُناہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں
اختر شیرانی جو سلمیٰ کے لعلِ لب سے رنگت چُرانے اور یاسمیں پیکر کو گدگدانے کا تمنائی تھا۔پھولوں اور ستاروں سے شرمانے والی سلمیٰ نے اپنے عاشق کو تنہائی میں ملنے کاکوئی موقع ہی نہ دیا۔سلمیٰ غزال دشت بن کر آزادی کے ساتھ ناز و ادا کی بستی بسانے پھولوں کی آبادی میں پہنچی۔ اختر شیرانی کی یہی بے وفا محبوبہ سلمیٰ جب وادی میں اختر شیرانی سے ملنے آئی تو اپنی ضعیف دادی کو بھی ساتھ لائی۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے لکھاہے :
’’ سُنا ہے سلمیٰ وادی میں آ ئی تھی مگر اپنی دادی کے ساتھ۔اختر ؔ تو یہ دیکھ کر پھڑک اُٹھے لیکن اس سے قبل کہ یہ کچھ پیش دستی کرتے وہ ان کے ارادے بھانپ کر واپس لوٹنے کے لیے پلٹی ۔۔۔۔۔ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ اخترؔ کے انتقال کے بعد اُن کاجنازہ اُٹھنے ہی والا تھاکہ ایک برقع پوش خاتون خاموشی سے آ ئیں اور اختر ؔکا آخری دیدار کر کے چلی گئیں ۔اب یہ سلمیٰ تھیں،عذرا تھیں ،یاریحانہ ؟ راوی اس بارے میں خاموش ہے ۔‘‘ ( 9)
ایک صاحب بصیرت مزاح نگار کی حیثیت سے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشینے اپنی شگفتہ تحریروں میں نئے آہنگ اور نرالے ڈھنگ سے محفل کو زعفران زار بنا دیتے تھے ۔ وہ بولتے تو اُن کے منھ سے پھول جھڑتے تھے ۔اُن کے تخلیقی تجربے میں حرفِ صداقت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ تہذیبی ،ثقافتی ،سماجی ،معاشرتی اور سیاسی زندگی کے جملہ نشیب و فراز ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے اسلوب میں سمٹ آئے ہیں ۔یہ بات بلا خوف ترددید کہی جا سکتی ہے کہ بڑے بڑ ے ناصح اور مصلح جو کہ اپنے دبنگ لہجے اور غیر معمولی سنجیدہ اسلوب کے ذریعے جو مثبت نتائج حاصل نہ کر پائے ، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی جیسے مزاح نگاروں نے ان اہداف تک رسائی حاصل کر کے قارئین کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا ۔سنجیدہ اور ظریفانہ اسالیب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سنجیدہ تخلیقات پر کئی ممالک میں معاشرتی اور تعزیری قدغنیں عائد کر دی گئی ہیں جب کہ اپنی ظریفانہ تحریریں لکھنے والا ایک ذہین مزاح نگار جبر کا ہر انداز مستر دکرتے ہوئے اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چُھپا کرحریت ضمیر کو زادِ راہ بناتاہے ا ور حریت فکر کا علم بلند رکھتا ہے ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کا شگفتہ اسلوب استحصالی عناصر کو اپنی اوقات میں رہنے کا مشورہ دے کر نھیں آئینہ دکھاتا ہے کہ سیکڑوں دورِ فلک ابھی آنے والے ہیں ۔سکندراور دارا جیسے حاکم نہ رہے تو وقت کے یہ نیرو اور یہ فراعنہ کس زعم میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی یہ شگفتہ بیانی چربہ ساز ،سارق ،سفہا اور اجلا ف و ارذال کے لیے بلائے نا گہانی بن جاتی ہے اور تمام مرغانِ باد نما جگ ہنسائی سے عاجز آ کر منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشیکی تخلیقات میں زبان و بیان کے معیار اور معاشرتی زندگی کے وقار کو ملحوظ رکھا گیا ہے اس میں عام لطائف کا سہار انہیں لیا گیا بل کہ زندگی کے تلخ حقائق کو نرم دِلی سے نہایت پر لطف انداز میں زیب قرطاس کیا گیا ہے ۔مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشیکی سدا بہار تخلیقات کی بناپر اُن کا نام افقِ ادب پر تا ابد ضوفشاں رہے گا۔
مآخذ
(1) ۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی : تُو ہی نادان چند کووں پر قناعت کر گیا،مضمون مطبوعہ ،انشا کولکتہ ،جلد 36،شمارہ11-12، کوا شمارہ ،نومبر۔ دسمبر 2021ء ،صفحہ7 9
( 2)۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:’’ حیرتوں کا سفر ‘‘ مضمون مشمولہ ماہ نامہ نیرنگ خیال،راول پنڈی ،جلد 95،شمارہ 5،مئی 2020،صفحہ 39
(3)۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:زندۂ جاوید مزاح کاخالق ،مضمون مشمولہ ماہ نامہ نیرنگ خیال،راول پنڈی ،جلد 95،شمارہ10، اکتوبر 2019ء ،صفحہ 9
(4)۔ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:کلام اختر پہ ایک خوش ترنظر ،مضمون مشمولہ ماہ نامہ نیرنگ خیال،راول پنڈی ،جلد 95،شمارہ12،دسمبر2019ء ،صفحہ50
(5)۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی: ’’ جواب لیجے سوال کا ‘‘ مضمون مشمولہ ،سہ ماہی بیلاگ ،کراچی، جلد 16،شمارہ 3،جولائی تا ستمبر 2021ء ،صفحہ 61
(6)۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی: ’’ کیاکیا طلسم دفن ہیں ‘‘ مختصر سفر نامہ یونان ،مطبوعہ کتابی سلسلہ 12 ’’زیست ،کراچی،دسمبر 2018 ء صفحہ89

(7)۔ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی: ’’گھر کی مرغی بال برابر‘‘،مضمون مشمولہ ماہ نامہ نیرنگ خیال،راول پنڈی ،جلد94،شمارہ2،فروری،2018ء ،صفحہ49
(8)۔ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی: ’’ جو ہے نام والا ‘‘،مضمون مشمولہ ماہ نامہ نیرنگ خیال،راول پنڈی ،جلد95،شمارہ9،ستمبر،2020ء ،صفحہ52
(9)۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی:کلام اختر پہ ایک خوش ترنظر ،مضمون مشمولہ ماہ نامہ نیرنگ خیال،راول پنڈی ،جلد 95،شمارہ10، اکتوبر2020ء ،صفحہ 38


..............................................................................................................Dr.Ghulam Shabbir Rana ( Mustafa Abad ,Jhang City )




 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 607350 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.