#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالرُوم ، اٰیت 46 تا 53
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
من اٰیٰتهٖ
ان یرسل الریٰح
مبشرٰت ولیذیقکم من
رحمتهٖ ولتجری الفلک بامرهٖ
ولتبتغوامن فضلهٖ ولعلکم تشکرون
46 ولقد ارسلنا من قبلک رسلا الٰی قومھم
فجاءوھم بالبینٰت فانتقمنا من الذین اجرموا وکان
حقاعلینا نصرالمؤمنین 47 اللہ الذی یرسل الریٰح فتثیر
سحابا فیبسطه فی السماء کیف یشاء ویجعله کسفا فتری الودق
یخرج من خلٰلهٖ فاذااصاب بهٖ من یشاء من عبادهٖ اذاھم یستبشرون 48
وان کانوا من قبل ان ینزل علیھم من قبلهٖ لمبلسین 49 فانظر الٰی اٰثٰر رحمة
اللہ
کیف یحی الارض بعد موتھا ان ذٰلک لمحی الموتٰی وھو علٰی کل شیئی قدیر 50
ولئن
ارسلناریحا فراوه مصفرا لظلوا من بعدهٖ یکفرون 51 فانک لا تسمع الموتٰی
ولاتسمع الصم
الدعاء اذا ولوا مدبرین 52 وماانت بھٰدالعمی عن ضلٰلتہم ان تسمع الّا من
یؤمن باٰیٰتنا فھم
مسلمون 53
اے ھمارے رسُول ! اہلِ فکر و نظر کے لیۓ عالَمِ حیات میں خالقِ حیات کی جو
حیات پرور نشانیاں موجُود ہیں اُن نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی ھے کہ وہ
بارش برسانے سے پہلے بارش کی خوش خبری دینے والی ہوائیں بھی چلاتا ھے تاکہ
زمین اُس کی اِس رحمت سے زندہ اور اہلِ زمین اُس کی اِس رحمت سے لُطف اندوز
ہوں اور وہ سمندر میں اُس کی اجازت سے کشتیاں چلائیں اور سمندر و زمین سے
اُس کے فیضانِ حیات کو پائیں اور اُس کا شکر بجالائیں ، ھم نے آپ سے پہلے
بھی اپنی اِن ہی نشانیوں کے ساتھ اپنے بہت سے رسُول زمین کی بہت سی قوموں
کے پاس بہیجے تھے اور اُن قوموں میں سے جن قوموں نے اہلِ ایمان کے ساتھ ظلم
کیا تھا تو ھم نے اُن قوموں سے اُن کا بدلہ لیا تھا کیونکہ اہلِ ایمان کی
مدد ھماری ذمہ داری تھی اور یہ بھی تو اللہ کی رحمت و مہربانی کی نشانیوں
میں سے ایک نشانی ھے کہ وہ پہلے فضاۓ بسیط میں ہوائیں بناتا ھے ، پھر فضا
کے طول و عرض میں دُور دُور تک اُن ہواؤں کو چلاتا ھے اور پھر وہ اُن ہواؤں
کو اُس فضا میں پھیلاتا ھے جو اُس کے بناۓ ہوۓ بادلوں کو اُس کے حُکم کے
مطابق توڑ توڑ کر دُور دُور تک لے جاتی ہیں اور پھر اہلِ زمین کے دیکھتے ہی
دیکھتے وہ اپنی جس زمین کے اپنے جن بندوں پر چاہتا ھے اُن بادلوں کو قطروں
کی صورت میں فضا سے زمین پر اِس طرح برساتا ھے کہ اہلِ زمین یَک بیک ہی
اپنی نااُمیدی و ناخوشی کے بعد ایک مُسرت و خوشی سے نہال ہو جاتے ہو ، آپ
اُس کی رحمت کے اِن آثار کو دیکھیں کہ وہ صاحب قُدرت و اختیار ایک مُردہ
زمین کو کس طرح زندگی سے بھر دیتا ھے اور اگر اِس کے بعد وہ کبھی اہلِ زمین
کی اِس حیات افروزی پر تُند و تیز ہوائیں چلا کر زمین کی ہریالی کو زردی
میں بدل دیتا ھے تو اہلِ زمین افسردہ و ملُول ہو جاتے ہیں لیکن یہ تو اُس
فاطر عالَم کی فطرت کے وہ اٰثار و اَحوال ہیں جو آپ مُردے اور بہرے انسانوں
کو نہیں سنا سکتے اور آپ اندھوں اور منظر گریز انسانوں کو بھی نہیں دکھا
سکتے ، آپ تو صرف اُن انسانوں کو سنا اور سمجھا سکتے ہیں جو اللہ کی اِن
اٰیات پر صدقِ دل سے ایمان لاتے ہیں اور جو اُس کے اِن اَحکامِ نازلہ کی
صدقِ دل سے اطاعت کرتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم جو اِس عالَمِ حیات کے لیۓ نازل ہونے والی ایک عالَمی و علمی
کتاب ھے اِس عالمی و علمی کتاب نے اِس علمی عالَم میں پھیلے ہوۓ اِس عالَم
اور اِس عالَم میں پھیلی ہوئی اِس علمی حیات کے حوالے سے خالقِ عالَم اور
خالقِ حیاتِ عالَم کو سمجھنے کے لیۓ انسان کے سامنے اِس کتاب کی کتابی
ترتیب میں جن 37 مقامات پر جو 37 عالمی نشانیاں پیش کی ہیں اُن 37 نشانیوں
میں سُورَةُالبقرة کی اٰیت 73 ، 87 ، 221 ، 224 ، سُورَہِ اٰلِ عمران کی
اٰیت 103 ، 164 ، سُورَةُالمائدة کی اٰیت 89 ، سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 21
، 92 ، 118 ، سُورَةُ الاَعراف کی اٰیت 37 ، سُورَةُالاَنفال کی اٰیت 2 ،
سُورَہِ توبة کی اٰیت 65 ، سُورَہِ یُونس کی اٰیت 17 ، سُورَہِ ھُود کی
اٰیت 1 ، سُورَةُالحج کی اٰیت 52 ، سُورَہِ نُور کی اٰیت 59 ، سُورَہِ نمل
کی اٰیت 93 اور سُورَہِ رُوم کی اٰیت 20 ، 21 اور اٰیت 23 کے بعد اِس سُورت
کی اٰیت 25 تک جو 24 نشانیاں بیان کی ہیں اُن نشانیوں کے ضمن میں بھی بہت
سی ضمنی نشانیاں موجُود ہیں جو اہلِ فکر و نظر کو اُس زندہِ جاوید ذات سے
مُتعارف کراتی ہیں جس نے عالَم و اہلِ عالَم کو تخلیق کیا ھے اور اِس عالَم
میں اُس نے جس سب سے بڑی حقیقت کو تخلیق کیا ھے وہ حیات ھے جس کو ہر چھوٹے
سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا زندہ وجُود اُس خلّاقِ عالَم کے حُکم کے مطابق
تخلیق دَر تخلیق کرتا ھے اور جب اُس کا عملِ تخلیق و تابعِ تخلیق مکمل ہو
جاتا ھے تو وہ عالَم میں اپنے تخلیق کیۓ ہوۓ یہ تخلیقی نمائندے چھوڑ کر
عالَم شہود سے نکل کر اُسی عالَمِ غیب میں چلاجاتا ھے جس عالَمِ غیب سے وہ
اِس عالَم شہود میں آیا ھے ، اِس عالَم کے اہلِ حیات کے بعد اِس عالَم کی
دُوسری سب سے بڑی حقیقت وہ قانُونِ عالَم ھے جس قانُون کے مطابق انسان نے
اِس دُنیا میں اپنی حیات بسر کرنی ہوتی ھے اور اِس قانُونِ عالَم کی سب سے
آخری کتاب قُرآنِ کریم ھے جس نے انسان کے سامنے تفہیمِ عالَم کی وہ نشانیاں
پیش کی ہیں جن کی مدد سے ہر انسان اپنی اپنی فکری بصیرت اور اپنی اپنی فطری
بصارت کے مطابق اُس حیات کو بھی سمجھ سکتا ھے جس کا وہ حامل و عامل ھے اور
اُس کتاب کو بھی سمجھ سکتا ھے جو اِس قانُونِ حیات کی مُعلّم و ترجمان ھے ،
قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں اُس خالقِ عالَم کی خلّاق ہستی کو سمجھنے
کے لیۓ جو ایک عام فہم مثال پیش کی ھے وہ یہ ھے کہ عالَم کا وہ خلق و مالک
جب زمین کے وجُود کو زندہ کرنے اور اہلِ عالَم کی خوابیدہ ہستی کو بیدار
کرنے کے لیۓ بارش برساتا ھے تو اُس بارش سے پہلے وہ انسانی رُوح کو اپنا
جلوہِ ذات دکھانے کے لیۓ مُسرت و خوشی کی وہ پیغام رساں ہوائیں بھی چلاتا
ھے جن کو محسوس کر کے زمین و اہلِ زمین اُس سے اُس کی رحمت و مہربانی کی
ایک اُمید لگالیتے ہیں ، پھر وہ اُن کی نظروں کے سامنے فضاۓ بسیط میں وہ
بادل بناتا ھے جن کو وہ ہوائیں ہانک کر ہر اُس جگہ پر پُہنچا دیتی ہیں جس
جگہ پر اُس نے اُس بارش کو برساکر زمین کو نئی زندگی اور اہلِ زمین کو نیئی
مُسرت و خوشی دینی ہوتی ھے ، اللہ تعالٰی نے اِس پہلی اٰیت کی پہلی عام
ھدایت کے بعد دُوسری اٰیت میں سیدنا محمد علیہ السلام کو یہ خاص ھدایت
فرمائی ھے کہ ھماری یہ چشم کشا نشانیاں آپ کے اسی زمانے کی اسی زمین و اہلِ
زمین کے لیۓ خاص نہیں ہیں بلکہ اِس سے پہلے زمانوں کی پہلی زمینوں میں بھی
ھم اپنی ان ہی چشم کشا نشانیوں کے ساتھ اپنے نمائندے بہیجتے رھے ہیں اور
اُن زمانوں کے جن انسانوں نے ھمارے پیغام کو قبول کیا ھے اُن کو ھم نے
انعام دیا ھے اور جنہوں نے ھمارے پیغام کو رَد کیا ھے اُن سے سے ھم نے
انتقام لیا ھے جس کا مقصد یہ ھے کہ اگر اِس آخری کتاب کے مُخاطب اِس کتاب
کے اَحکامِ نازلہ کا اتباع کریں گے تو ھم اُن کو بھی وہی انعام دیں گے جو
پہلی اَقوام کو دیتے رھے ہیں اور اگر اِس آخری کتاب کے مُخاطب اِس کتاب سے
اعراض کریں گے تو ھم اُن سے بھی وہی انتتقام لیں گے جو اِس سے پہلی اَقوام
سے لیتے رھے ہیں ، پھر اِن اٰیات کے اِس مضمون کو اللہ تعالٰی نے اِس کے
وسطی روابطِ مضامین سے گزارنے کے بعد سیدنا محمد علیہ السلام سے یہ ارشاد
فرمایا ھے کہ ھمارا یہ خطاب اُن زندہ انسانوں کے لیۓ ھے جو آپ سے یہ کلام
سُن سکتے ہیں اور سننے کے بعد اِس کے بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں اور سوچنے
کے بعد اِس کو قبول بھی کرسکتے اور قبول کرنے کے بعد اِس پر عمل بھی کر
سکتے ہیں ، رھے وہ مُردہ دل و محرومِ سماعت اور منظر گریز لوگ جو اللہ
تعالٰی کی نشانیوں اور اُس کے کلام کی ضو فشانیوں سے بھاگ رھے ہیں تو اُن
کا پیچھا کرنے کی ضروت نہیں ھے کیونکہ آپ کا کام اُن تک ھمارا پیغام
پُہنچانا ھے اِس پیغام کو اِن کے دلوں میں اُتارنا آپ کی ذمہ داری نہیں ھے
!!
|