پتہ نہیں جی کونسا نشہ کرتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔

آج کے موضوع کا آغاز افغانی تاریخ سے کرتے ہیں ،ایک ریسرچ کے مطابق افغانستان کے قدیم مقامات کی کھدائی سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی انسان کم از کم 50،000 سال پہلے افغانستان میں رہتے تھے۔ دوسری صدی قبل مسیح کے بعد سے ، اس خطے کے بہت سے شہر جو اب موجودہ افغانستان کا حصہ ہیں ، بہت سے خونخوار حملوں اور ہجرتوں سے متاثر رہے ہیں ۔جدید دور کی ایک اور ریسرچ کے مطابق پشتونوں کے پیش خیمے پرانے ایرانی قبائل ہو سکتے ہیں جو زیادہ ترمشرقی ایران میں پھیلے ہوئے ہیں۔

بہت سے پشتون قبیلے انڈیا، پاکستان، مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک میں سالوں سے آباد ہیں، پشتون قوم اپنی بہادری، وفاداری، جراءت اور حمیت کے باعث پوری دنیا میں مشہور ہے ناکہ طالبان سے انسیت اور محبت کے باعث۔ پچھلے چند دنوں سے پاکستان میں شغلِ اعظم اوہ معزرت کے ساتھ وزیرِ اعظم پاکستان کے اس بیان سے ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے جس میں وہ بڑے فخر سے تمام پشتون قوم کو طالبان سے جوڑ کر دنیا کو پتہ نہیں کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں۔ شاید اسی کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار کہا جاسکتا ہے، کبھی یہ منافقِ اعظم اپنے بیانات میں طالبان کی غلامی کی زنجیریں توڑنے کی بات کرتا ہے، اور کبھی ان کو تسلیم کرنے اور انکی مالی امداد جاری کرنے کی اور کبھی پاکستان میں بسنے والے لاکھوں پشتونوں کو ان سے جوڑ کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتا ہے۔

یہاں میں بہت احترام سے حضورِ والیٰ کو یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں، محترم ٧٠ ہزار پاکستانی آپ کے انہی ناسمجھ اور ناراض بھائیوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں، ان میں زیادہ تر بیچارے پشتون ہی تھے، اور تو اور ہزاروں فوجی جوان، حتیٰ کہ اے پی ایس کے سینکڑوں بچے بھی انہی درندوں کی حیوانیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ویسے تو آپکو اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا آپ کے تو تینوں بچے، بیچاری جمائما نے اپنے ذمے لے رکھے ہیں۔ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ وہ تو آپ کے کرموں کے پھل بھی کھا رہی ہے، آپ کو اے پی ایس حادثے میں شہید ان معصوم بچوں کا درد کیسے محسوس ہو سکتا ہے، اگر ہوتا تو احسان اللہ احسان آج کسی گوشہء عافیت میں بیٹھا گلچھرے نہ اڑا رہا ہوتا، احسان اللہ احسان سے یاد آیا حضور کے علم میں ہے کہ ایک سو پچاس بچوں کا قاتل جیل سے مفرور ہے۔ویسے تو حضور ریاستِ مدینہ کا بہت شور مچاتے ہیں، محترم اس بارے میں تو آج تک قوم حضور کے چند الفاظ سننے کی آرزو مند ہے کہ اس فرار میں ملوث عناصر کے خلاف کیا کاروائی کی گئی یہ قوم آپ سے ریاستِ مدینہ والا انصاف چاہتی ہے۔ حضور کچھ نہیں کر سکتے کم ازکم بیان ہی جاری کردیں۔۔۔ رہ گئ بات آپ کے خفا دوستوں کی، تو ان کے باعث آج ٩٠ فیصد افغان خطِ غربت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کیا حضور اب افغانستان ماڈل پاکستان میں اپنانے کا خواب تو نہیں دیکھ رہے، جیسا کہ ماضی میں حضور وقتاً فوقتاً دوسرے بہت سے ممالک کا نظام مملکتِ خداداد میں نافذ کرنے کے بارے میں دیکھتے رہے ہیں مگر ہوش آتے ہی نظام تبدیل۔

حضور آپ دنیا کو طالبان کی مالی امداد بحال کرنے کی نصحیتیں تو کر رہے ہیں، لیکن کیا آپ کو اس ملک میں رہنے والے لوگوں کی حالت کا اندازہ ہے جو آپ کی نا اہلی، نا لائقی کا خمیازہ تاریخی مہنگائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں جن کو اب خو د کشی کے لئے تیل بھی میسر نہیں، اس کا اجر اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو ضرور دیں گے۔ نہ زیادہ کھائیں گے نہ بیماریاں ہونگی، نہ مفت دوائیاں ہونگی نہ لوگ سرکاری ہسپتال جائیں گے، سو مرنے والے نئے پیدا ہونے والوں کی جگہ بناتے جائیں گے آبادی کا مسئلہ ہی نہیں، نوجوان غربت بے روزگاری سے تنگ آکر ملک چھوڑ کر بھاگیں گے نوکریوں کا مسئلہ حل، تیل مہنگا لوگ گاڑیوں سے اجتناب کریں گے ٹریفک، پالوشن جیسے مسائل کا خاتمہ۔ وہ شاید کچھ ایسے ہی کہتے ہیں

نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی

حضور کے کارناموں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس پر اگلے کچھ گھنٹے آرام سے قلم گویا ہوا جاسکتا ہے، مگر اس خاکسار کے کچھ روزی، روٹی کے مسائل بھی ہیں، اس لئے بس انہی کارناموں پر دونوں ہاتھ اٹھا کر حضور کو۔۔۔۔۔۔کرتے ہوئے اجازت چاہتا ہوں۔

شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔۔

پاکستان پائندہ باد

Qasim Naqvi
About the Author: Qasim Naqvi Read More Articles by Qasim Naqvi: 42 Articles with 49741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.