عقل و عمل کی آزمائش

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالرُوم ، اٰیت 54 تا 57جہاں ہم ہیں وہاں عقل و عمل کی آزمائش ھے !!اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اللہ
الذی خلقکم
من ضعف ثم جعل
من بعد ضعف قوة ثم
جعل من بعد قوة ضعفا و
شیبة یخلق مایشاء وھوالعلیم
القدیر 54 ویوم تقوم الساعة یقسم
المجرمین مالبثواغیر ساعة کذٰلک کانوا
یؤفکون 55 وقال الذین اوتواالعلم والایمان
لقد لبثتم فی کتٰب اللہ الٰی یوم البعث فھٰذا یوم
البعث ولٰکنکم کنتم لاتعلمون 56 فیومئذ لاینفع الذین
ظلموامعذرتھم ولا ھم یستعتبون 57
اے اَولادِ آدم ! اللہ ہی وہ خالقِ جان و جہان ھے جس نے تُم کو ناتوانی کی حالت میں پیدا کیا ھے ، اللہ ہی وہ مالکِ جان و جہان ھے جس نے تُم کو ناتوانی کی عُمر سے نکال کر توانائی کی عُمر تک پُہنچایا ھے اور اللہ ہی وہ عاملِ جان و جہان ھے جو تُم کو بچپن و جوانی کے اُن اَدوار سے گزار کر بڑھاپے کی اِس ناتوانی کے دور تک لے آیا ھے تاکہ تُم جان سکو کہ اللہ ہی اپنے علم و عمل کے تخلیقی پیمانوں کے مطابق تُم کو جس طرح چاہتا ھے اُس طرح بناتا ھے اور جس حال سے جس حال میں لے جانا چاہتا ھے اُس حال سے اُس حال میں لے جاتا ھے اور جس روز وہ تُم کو عقل و عمل کے اِس جہان سے نکال کر حسابِ جان و جہان کے نئے جہان میں لے جاتا ھے تو اُس روز اُس کے اُس جہان میں بڑے بڑے مُجرم بڑی بڑی قسمیں کھا کر اُس کو اِس اَمر کا یقین دلاتے ہیں کہ ھم تو دُنیا میں صرف ایک گھڑی رھے ہیں اور اُس ایک گھڑی میں بھی ھم راہِ حق سے اِس طرح کٹے ہوۓ اور ہٹے ہوۓ ہی رھے ہیں کہ ھم نے تیرے قانُونِ حیات کے بارے میں کُچھ سنا بھی نہیں ھے اور کُچھ جانا بھی نہیں ھے ، حسابِ جان و جہان کے ایسے ہی ایک موقعے پر علم و ایمان کے حامل لوگوں نے اُن مُجرموں کو بتایا ھے کہ یہ تو اَقوام کے قیام کا وہی دن ھے جس دن کا اللہ نے اپنی کتاب میں وعدہ کیا ھے اور تُم نے اپنی جہالت کی بنا پر اُس کتابِ حق کا بھی انکار کیا ھے اور اِس یومِ برحق کا بھی انکار کیا ھے ، یاد رکھو کہ اہلِ عالَم پر جب قیام کی یہ ساعت آتی ھے تو پھر مُجرموں کا کوئی بھی عذرِ لَنگ اُن کے کام نہیں آتا اور رجوعِ حق و عملِ رجوعِ حق کا بھی اُن کو کوئی موقع نہیں دیا جاتا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
آغازِ حیات و اَنجامِ حیات اور وسطِ حیات کا ہر ایک دَور ہر ایک جان دار پر آتا ھے لیکن اٰیتِ بالا کے اِس مقام پر انسانی حیات کا ذکر کیا گیا ھے جس کے بچپن کی عُمر جوانی کی عُمر کے مقابلے میں مُشکل اور بڑھاپے کی عُمر جوانی کی عُمر کے مقابلے میں ایک مُشکل تر عُمر ہوتی ھے ، آغازِ حیات میں جب وہ رحمِ مادر سے آغوشِ مادر میں آتا ھے تو ایک مُدت تک ہلنے جُلنے ، اُٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے اور چلنے پھرنے کے ہر ایک عمل کے لیۓ اپنے والدین کا محتاج ہوتا ھے مگر رفتہ رفتہ اُس کے کم زور بچپن کی بے قدر توانائی بڑھتے بڑھتے ایک قابلِ قدر توانائی میں ڈھل جاتی ھے یہاں تک کہ وہ جوانی میں قدم رکھتے ہی اپنی ہی جنس کے بہت سے بے زور اَفراد کو ہلنے جُلنے ، اُٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے اور چلنے پھرنے سے محروم کرنے کے قابل ہو جاتا ھے لیکن جوانی کے بعد جب وہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ھے تو اُس کی جوان توانائی ایک بے جان ناتوانی کی طرف بڑھتے بڑھتے ایک ایسے مقام پر پُہنچ جاتی ھے کہ وہ ایک بوسیدہ درخت کی طرح گر کر زمین بوس ہو جاتا ھے ، انسانی حیات میں زوال سے عروج اور عروج سے زوال میں جانے کے یہ تین زمانے جو اَفراد کی زندگی میں آتے ہیں یہی تین زمانے اَقوام کی زندگی میں بھی آتے ہیں اور اَقوام بھی اپنے اَفراد کی طرح زمان و مکان کی آغوش میں آنے کے بعد پہلے اپنے کم زور بچپن سے گزر کر جوانی میں داخل ہوتی ہیں اور پھر جوانی سے بڑھاپے میں جا کر پیوندِ خاک ہو جاتی ہیں جس کا مطلب یہ ھے کہ زمین کا ہر ایک فرد اور اہلِ زمین کے ہر ایک فرد کی ہر ایک جماعت اپنی تمہیدِ حیات سے لے کر اپنی تکمیلِ حیات تک اپنی حیات کے ہر ایک دور میں اپنے اُس خالق و مالک کی محتاج ہوتی ھے جس نے اُس کو یہ حیات دی ہوئی ہوتی ھے لیکن مُتذکرہ بالا انسانی حیات کی ابتدا سے لے کر انتہا تک حیات کا وہی ایک دائرہ مکمل ہوتا ھے جو دائرہ اِس زمین و آسمان کے اِس موجُودہ دائرے میں آتا ھے اِس لیۓ جہان کے اِس دائرے میں جیسے ہی موت و حیات کا ایک عملی دائرہ مکمل ہوتا ھے تو ویسے ہی ایک دُوسرے جہان کے اُس دُوسرے دائرے میں انسان کے عملِ حیات کے حسابِ حیات کا عمل شروع ہو جاتا ھے اور انسان اپنی عقل اور اپنے عمل کے دائروں سے نکل کر اپنے حسابِ جان و احتسابِ جہان کے اُس دائرے میں داخل ہوجاتا ھے جہاں سے واپس آنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ، قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم میں اُس حسابی و احتسابی دائرے کے لیۓ کہیں پر قیامة و ساعة کی دو نکرہ اور کہیں پر القیامة و الساعة کی دو معرفہ اصطلاحات استعمال کی ہیں ، قُرآنِ کریم میں جن چار نکرہ و معرفہ اصطلاحات کا استعمال ہوا ھے اُن میں سے جو دو نکرہ اصطلاحات ہیں اُن کا اطلاق قیامت اور قیامت سے پہلے انسانی قیام کے جُملہ واقعات پر ہوتا ھے اور اِن نکرہ اصطلاحات کے بعد جن دو معرفہ اصطلاحات کا استعمال ہوا ھے اُن کا اطلاق صرف قیامت اور قیامت قائم ہونے کے بعد کے واقعات کے ساتھ ھے ، یومِ قیامت سے پہلے انسانی جماعت کا جو قیام ہوتا ھے وہ اِس اَمر کی ایک مُشاھداتی دلیل ہوتا ھے کہ جس طرح دُنیا میں وہ بڑے بڑے انقلاب آتے ہیں جن میں حاکم و محکوم زیر و زبر ہو جاتے ہیں اسی طرح اِس دُنیا پر وہ ایک بڑا انقلاب بھی ضرور آۓ گا جس کے آنے کے بعد ظالم و مظلوم زیر و زبر ہو جائیں گے اور اُس انقلاب کے دن کسی مُجرم کا کوئی عذر قابل سماعت نہیں ہو گا اور کسی مُجرم کو رجوعِ حق اور عملِ رجوعِ حق کا موقع بھی نہیں دیا جاۓ گا ، اٰیاتِ بالا میں آنے والے اُسی دن کا ذکر کیا گیا ھے جس دن کا ماحصل یہ ھے کہ انسان اللہ تعالٰی کے جس جہان میں موجُود ھے وہ انسانی عقل و عمل کی آزمائش کا جہان ھے اور اور انسان نے عقل و عمل کے اِس آزمائشی جہان کے بعد جس جہان میں جانا ھے وہ عقل و عمل کے اعلٰی ستعمال کے اعلٰی نتائج کا جہان ھے جس میں جانے کے لیۓ انسان نے اپنی بہترین عقل کو عقل میں لاکر اور اپنے بہترین عمل کو عمل میں لاکر اُس جہان کے امتحان کو اپنے لیۓ آسان بنانا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 567068 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More