کتاب “قید یاغستان“
(Munir Bin Bashir, Karachi)
|
یہ کتاب تو ایسی ہے کہ اسے حوالہ جاتی کتاب کا درجہ دیا جاسکتا ہے - اس میں لکھی گئیں معلومات مصدقہ حیثیت رکھتی ہیں - یہ تھی رائے میری اس کتاب کے بارے میں جو جو سب سے پہلے 1910 میں یعنی 110 برس قبل طباعت کے زیور سے آراستہ ہوئی تھی -اس درمیانی عرصے میں بھی چھپتی رہی ہے لیکن گزشتہ کئی عشروں سے ناپید تھی- اور ابھی حال ہی میں انجینیئر راشد اشرف صاحب کی توسط سے پھر مننظر عام پر آئی ہے - لیکن پھر ایک سوال یہ بھی ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا کتاب کا نام پڑھنے سے ایک دم اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کس موضوع پر ہے یا کس علاقے کے بارے میں ہے تو میرا جواب ہو گا نہیں کتاب کا نام ہے ' قید یاغستان' - یہ وہ علاقہ ہے جو ماضی میں برطانوی دور میں آج کل کے صوبہ پختون خوا اور افغانستان کے درمیان واقع ہے - اسے علاقہ غیر بھی کہتے تھے - - بعد میں اسے مرکزی حکومت کے زیر نظام علاقہ(فاٹا) کا نام دیا گیا - اب ایک دو سال قبل اسے براہ راست پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا ہے بچپن میں علاقہ غیر کا نام سنا کرتے تھے اور یہ بھی سنتے تھے کہ اس علاقے میں رہنے والے ، لوگوں کو پکڑ کر لے جاتے تھے - اس سے آگے پتہ نہیں چلتا تھا کہ کیوں لے جاتے ہیں ؟ کب رہا ہوتے ہیں ؟ ان سے کیا سلوک کیا جاتا تھا ؟بچپن میں ان سب باتوں کا کچھ علم نہیں تھا اور ایک پردہ سا پڑا ہوا تھا اور یہ بھی سنا تھا کہ کوئی بھی جرم کرو اور علاقہ غیر میں جا کر پناہ گزین ہو جاؤ تو حکومت پاکستان بھی لاچار ہو جاتی ہے - یعنی مجرم اپنی پناہ گاہ کے طور پر یہ علاقہ استعمال کرتے تھے -
اردو کتابوں سے شغف رکھنے والے افراد تو اب تک جناب راشد اشرف صاحب سے خوب آگاہ ہو چکے ہیں تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ایک بار پھر ان کا تعارف کرادوں - آپ پیشے کے لحاظ سے انجینیئر ہیں لیکن اس بات کے بھی شیدائی ہیں کہ لوگ کتابیں پڑھیں - اس مقصد کے لئے پہلے تو انہوں نے یہ کام شروع کیا کہ ایسی پرانی کتابیں جو نایاب ہو چکی ہیں اور ان کے لواحقیں کا اتہ پتہ نہیں نہ ہی وارثوں کی خبر ہے کے صفحات اسکیں کر کے بذریعہ انٹر نیٹ ( فیس بک وغٰٰٰٰٰٰٰٰیرہ) لوگوں تک پہنچائے - اس طرح ایک لاکھ سے زاہد صفحات اسکین کر کے لوگوں کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں - ہم جیسے لوگوں کی مطالعہ کی مطالعہ کی عادت کو تسکین پہنچاتے رہے ہیں - عوام الناس نے ان کی ان کوششوں کو بہت سراہا خصوصاً ایسے افراد جو مالی استطاعت نہ رکھنے کے سبب کتب خریدنے سے قاصر تھے - گھر بیٹھے بیٹھے لوگوں کی معلومات کا گراف حیرت انگیز طور پر عمود کی جانب گامزن ہونے لگا - اس جذبے کا حامل اور بھی دیگر افراد نے تعاوں کے ہاتھ بڑھائے اور ان کے کام کو مزید وسعت دی اور "زندہ کتابیں "کے تحت انہوں نے ایسی کتب کی اشاعت بھی شروع کردی لیکن یہ امر بحر حال ملحوظ رکھا کہ ایسی کتب کے وارثوں تک کتاب چھاپنے سے قبل رسائی حاصل کر کے اجازت حاصل کر نے کی پوری کوشش کر لی جائے -
میرے پاس یہ کتاب جناب میجر ریٹائرڈ صغیر احمد کے توسط سے آئی - وہ 1971 کی جنگ میں جسڑ کے محاذ پر تعینات تھے -اس سلسلے میں ان کا انٹرویو لینے گیا تو انہوں نے ضمننی باتوں میں اس علاقے کا تذکرہ بھی کیا تھا جہاں انہیں اپنے فرائض منصبی کے تحت جاناپڑا تھا - اس علاقے کے بارے میں باتیں سن کر میں حیران رہ گیا تھا - جب یہ کتاب شائع ہوئی تو ان کی کرم نوازی ہے کہ انہوں نے اس کی ایک جلد مجھے بھی بھجوائی -
یہ سب احوال ایک مغوی نے بیان کئے ہیں جو اس علاقے کے رہزنوں کی قید میں 45 دن رہے اور اس کے بعد فرار ہوئے - اپنے شہر پہنچنے کے بعد اپنے اغوا ہونے کے واقعے - قید میں ان پر جو گزری اس کی تفصیلات اور فرار ہونے کے دوران میں جو تکالیف اٹھائیں انہیں قلم و قرطاس کے حوالے کیا اور یوں ان کی کتاب ' قید یاغستان ' وجود میں آئی کتاب کو پڑھتے جائیں ' اوراق پلٹتے جائیں تو ایسے لگتا ہے کہ ابن صفی کی کتاب تاریک وادی کے پرتھ کھولتے ہوئے ماضی میں سفر کرتے جارہے ہیں اور قدم قدم پر تاریخ کے پوشیدہ ابواب وا ہوتے جا رہے ہیں کہ یہ علاقے کس طرح مجرموں کے گڑھ بنتے گئے - اغوا کی وارداتوں کو کیوں کر فروغ ملتا رہا -ان وارداتوں کیسے اسلامی لحاظ سے جائز قرار دیا جاتا رہا- اور اسلامی بلکہ جہاد قرار دینے کے بعد ظلم و ستم ڈھانے کے معاملے کیسے اسلام کی خود ساختہ غلط تشریح کی روشنی میں صحیح کے صیغے میں منطبق کئے گئے -
صیادی اور فرار کے دوران جو مشکلات پیش آئیں ان کے لئے میں اردو کی کسی ضخیم لغات کے سارے الفاظ بھی لکھ دوں تو ان مشکلات کا احاطہ نہیں کر سکتیں جو انہوں نے اپنی کتاب میں بیان کئے ہیں - میں تو کتاب کے مطالعہ کے دوران کئی مرتبہ کتاب بند کر کے سوچ میں پڑ جاتا تھا کہ کیا انسان ایسے حالات سے بھی گزر سکتا ہے ؟ مغوی کا نام ہے محمد اکرم صدیقی - وہ بنیادی طور پر انجینئیر تھے اور اغوا کے وقت اس وقت کی انگریز حکومت کے ملازم تھے اور ان کی تعیناتی بنوں میں واقع ٹوچی کی وادی میں ہوئی -
وہ کہتے ہیں کہ اس علاقے کا پٹھان فطرتاً بہادر ہونے کے سبب ایسے اڈونچر یا خطرناک مہم کو اختیار کر نا چاہتا ہے جس میں اس کی بہادری کی آزمائش بھی ہو جائے اور خزانہ بھی مل جائے - اگر کامیاب ہو گیا تو عیش ہے اور مارا جائے تو شہید - لیکن اس کے باوجود وہ بچوں عورتوں اور پر ہاتھ نہیں اٹھاتا اور ان کی عصمت پر حملہ نہیں کرتے سوائے اس کے کہ جب ایسی ہی کوئی واردات کوئی ان کے ساتھ کرے - البتہ بعد کے ایک آیڈیشن میں انہوں لکھا کہ وقت کے ساتھ ان راہزن اپنے ان اچھے اصولوں سے روگردانی کرتے پائے گئے -کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے - اسے پڑھ کر پاک و ہند کی تاریخ کے کئی پہلوؤں سے آگاہی ہوتی ہے اور پاکستان کے اہم علاقوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے جن سے ہم آگاہ ہی نہیں - مصنف نے کتاب تحریر کرتے وقت ایک اچھی ادبی تحریر کے تقاضوں کا خیال رکھا ہے - --------------------------------------------------
|