"بصیرت " ڈاکٹرصفدر محمود کی کتاب ہے وہ لکھتے ہیں کہ چند روز قبل مجھے
اوریامقبول جان کے ایک ٹی وی پروگرام کا کلپ ملا ۔ اوریامقبول جان نے یہ
پروگرام یوم اقبال ؒ کے حوالے سے 21نومبر کو کیا گیا تھا ۔اس پروگرام میں
علامہ اقبال کی بیٹی منیرہ اور ان کے دو صاحبزادے شریک تھے ۔شرکاء نے تصدیق
کی کہ انہوں نے یہ واقعات علی بخش سے سنے تھے ۔ پہلا واقعہ کچھ یوں تھا ایک
روز علامہ اقبال ؒ نے رات تین بجے علی بخش کوجگایا ۔علی بخش ان کے کمرے میں
گیا تو وہاں ایک نورانی ، مقناطیسی باریش شخصیت تشریف فرما تھی جو علامہؒ
سے گفتگو کررہی تھی ۔اس لمحے علامہؒ نے علی بخش سے دو گلاس لسی لانے کو کہا
تو علی بخش نے جواب دیا کہ اس وقت تو بازار اور دکانیں بند ہونگی۔ علامہ
اقبالؒ نے کہا تم بازار جاؤ کوئی نہ کوئی دوکان کھلی مل جائے گی۔علی بخش
تعمیل حکم کے لیے بازار گیاتو دور ایک دکان میں روشنی نظر آئی ۔وہ دودھ دہی
کی دکان تھی اور دوکاندار کا پرنور چہرہ بھی متاثر کن تھا ۔علی بخش نے دو
گلاس لسی لیکر ادائیگی کرنا چاہی تو جواب ملا ، ہمارا ڈاکٹر صاحب سے حساب
چلتا رہتا ہے ۔علی بخش نے لسی کے دونوں گلاس علامہ اقبالؒ کے کمرے میں رکھے
اور خود جا کر سو گیا ۔علی بخش کے بقول اس واقعے نے اس کے ذہن میں جستجو کی
آگ لگا دی اور وہ کئی برس تک علامہؒ سے پوچھتا رہا کہ وہ صاحب کون تھے جو
نصف شب آپؒ سے ملنے آئے تھے ؟علامہؒ کئی برس تک ٹالتے رہے ۔ایک دن انہوں نے
علی بخش سے کہا وعدہ کرو یہ راز میری زندگی میں کسی اور نہیں بتاؤ گے ۔پھر
فرمایا جو بزرگ میرے کمرے میں تشریف فرما تھے وہ حضرت خواجہ معین الدین
چشتی ؒ تھے اور جس ہستی سے تم لسی لے کر آئے تھے، وہ حضرت علی بن عثمان
ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ تھے ۔ علی بخش نے وعدہ نبھایا اور اس راز سے
علامہ اقبال ؒکی وفات کے بعد پردہ اٹھایا ۔ کتاب کے اسی باب میں ڈاکٹر صفدر
محمود نے ایک اور واقعے کا تذکرہ کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں اسی پروگرام کے شرکا
ء نے ایک کشمیری نوجوان کا ذکر بھی کیا جس نے خواب کی حالت میں دیکھا کہ
نماز کے لیے صف بندی ہو چکی ہے اور نبی کریم ﷺامامت کروانے والے ہیں ۔آپﷺ
پوچھتے ہیں "میرا اقبال نہیں آیا "۔اتنے میں ایک باریش جوان آتا ہے اور صف
میں شامل ہوجاتا ہے ۔کشمیر کا وہ زاہد و عابد نوجوان، علامہ محمداقبال ؒ کی
تلاش میں لاہور پہنچا اور انہیں دیکھتے ہی زارو قطار رونے لگا اور کہا یہی
وہ شخص ہے جسے میں نے خواب میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے
دیکھاتھا ۔ اس ٹی وی پروگرام میں خضر علیہ السلام کے حوالے سے بھی ذکر ہوا
اور یہ ڈاکٹرجاوید اقبال کی مستند کتاب "زندہ رود" کے صفحہ نمبر 317پر
موجود ہے۔نظم "خضرراہ"کے ضمن میں ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ جن دنوں
علامہ نے یہ نظم لکھنا شروع کی تھی،وہ نقرس کے مرض میں مبتلا تھے ۔کئی
راتیں انہوں نے بیداری کے عالم میں گزاریں ۔رات کو علی بخش ان کی دیکھ بھال
کرتا تھا ۔درد کی شدت کے سبب نیم بے ہوشی کی کیفیت میں علامہ اپنے پاس
بیٹھے ہوئے ایک بزرگ سے سوال پوچھتے جاتے تھے اور وہ جواب دیتے جاتے تھے
۔اس بزرگ کے رخصت ہونے کے بعد علامہؒ نے علی بخش کو آواز دے کر بلایا جو
بیٹھک کے فرش پر لیٹا ہوا علامہ اقبال ؒ کو تنہائی میں کسی کے ساتھ باتیں
کرتے سن رہا تھا۔ علامہ ؒ نے علی بخش کو اس بزرگ مرد کے پیچھے دوڑایا کہ وہ
انہیں واپس لیکر آئے، ابھی انہوں نے اس سے مزید کچھ پوچھنا ہے ۔رات کے تین
بجے تھے ۔ علی بخش پھرتی سے نیچے اترا تو دروازے کو اندر سے مقفل پایا
،دروازہ کھول کر باہر نکلا تو ہو کا عالم طاری تھا۔دور دور تک کسی انسان کا
نام و نشان نہ تھا۔ڈاکٹر صفدر محمود ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ مولانا جلال
الدین رومی ؒ مرشد اقبال ؒایک دن اپنے اپنے شاگردوں کو کچھ سمجھا رہے تھے
کہ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک فقیر وہاں سے گزرا۔ انہوں نے مولانا روم
کی کتابیں اٹھا کر تالاب میں پھینک دیں ۔ مولانا روم نے غصے سے کہا یہ آپ
نے کیا علم و حکمت کی نایاب کتابوں کو تالاب کی نذر کردیا ۔حضرت شمس تبریز
ؒ نے ایک نگا ہ مولانا روم پر ڈالی اور کہا تم کن کتابوں کے علم میں مگن ہو
؟ اصلی علم یہ نہیں ،اصلی علم فقیروں اور اﷲ کے برگزیدوں بندوں سے ملتا ہے
جن پر اﷲ سبحانہ و تعالی کی عطا ہوتی ہے ۔یہ کہہ کر حضرت شمس تبریز ؒ نے
تالاب میں ہاتھ ڈالا اور مولانا رومی کی کتابوں کو باہر نکال دیا ۔کتابیں
بالکل خشک تھیں ۔اس کے بعد حضرت شمس تبریز ؒ وہاں سے چل پڑے تو مولانا روم
بھی ان کے پیچھے ہو لیے ۔کچھ عرصہ غائب رہنے کے بعدجب لوٹے تو وہ روحانی
علم سے مالا مال تھے اور ان کی کائنات بدل چکی تھی ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اگر
مولانا روم، حضرت شمس تبریز کی نگاہ کے سمندر سے سیراب نہ ہوتے تو اپنی
وفات کے ساتھ ہی گمنام ہو گئے ہوتے ۔ روحانیت کی پر اثر واقعات اورباتیں
سنانے والے عظیم مصنف ، محقق اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ
ڈًاکٹر صفدر محمود14ستمبر2021 کو ہم سے جدا ہوچکے ہیں لیکن وہ اپنی کتابوں
کی وجہ سے اپنے قارئین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ان شا ء اﷲ
|