تسنیم جعفری صاحبہ کی آپ بیتی۔ایک جائزہ


تبصرہ نگار: ذوالفقار علی بخاری، پاکستان

برقی پتہ:[email protected]


خواتین نے ہر شعبہ زندگی میں خود کو منوایا اور مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ ادب اطفال میں بھی ایسی بہت سی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں کہ خواتین رائٹرز ہر ہر موضوع پر لکھ رہی ہیں اور خوب قلم کاریاں کررہی ہیں۔محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ نے کچھ الگ لکھا ہی نہیں، بلکہ ادیبوں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کے لیے تنِ تنہا”تسنیم جعفری ایوارڈ“ کا اجراء بھی کیا اور ایک الگ تھلک مثال قائم کر ڈالی، جو اُن کی ادب دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔




دورحاضر میں جس طرح سے تسنیم جعفری صاحبہ نوجوان ادیبوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں جس طرح کھلے دل سے اپنی سوچ کو بیان کیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ظاہر و باطن ایک ہے۔راقم السطور کو محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ہے اوران کی زندگی کی کہانی کوپڑھ کر محسوس ہوا ہے کہ ایک قلم کار جولکھتا ہے،وہ اگر دل سے نہ لکھے تو پھر اُس کے بارے میں یہ سب جان لیتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں کس قدر کھرا ہے۔




اس حوالے سے حال ہی میں نوجوان قلم کار عرفان حیدر نے بھی راقم السطور سے گفتگو کے دوران یہ انکشاف کر کے حیرت زدہ کر دیا تھا کہ لکھاری جب دل سے لکھتا اوربولتا ہے تواُسے شناخت کرنا مشکل نہیں ہے کہ اندر سے کیسا انسان ہے۔محترمہ تسنیم جعفری کی آپ بیتی آپ کو ان کے بارے میں مکمل معلومات دیتی ہے اورآپ بیتی ایک طرح سے سچ بیتی محسوس ہوتی ہے جو کہ پڑھنے والوں کو بھی حیرت زدہ کر تی ہے۔”آپ بیتیاں“ مجموعے میں شائع ہونے والی ان کی آپ بیتی برسوں قارئین اورقلمکاروں کے لئے ایک تاریخی دستاویز بن گئی ہے جو کہ مختلف حوالوں کے طورپر کام آتی رہے گی۔۔اس حوالے سے ذیل میں دیا جانے والا اقتباس آپ کو بہت کچھ آگاہ کرے گااوراگر چند مزید ادیب ان جیسے مزید ادب اطفال کو میسر آگئے تو ادب اطفال کا عروج ایک بار پھر سے ہمیں دکھائی دے سکتا ہے۔




”بہت سے لوگوں کی طرح میں نے بھی اپنی کتب اس ایوارڈ کے لئے بھیجی تھیں، مجھے ایوارڈ نہیں ملا تھا۔ باقی لوگوں کی طرح تھوڑی مایوسی تو ایک قدرتی امر ہے، لیکن میں ایسی باتوں کو ذہن پر سوار نہیں ہونے دیتی اور ہر ناکامی سے کچھ نہ کچھ سیکھتی ہوں۔میرے ذہن میں اُس وقت ایک آئیڈیا آیا اور میں نے سوچاکہ یہ کیا کہ اتنے تھوڑے سے ایوارڈز ہیں ہمارے ملک میں ادیبوں کے لئے....اوربچوں کے ادیبوں کے لئے تو خصوصاً گنے چُنے ایوارڈز ہیں وہ بھی کبھی دیئے جاتے ہیں کبھی نہیں! ہم سب کو اس کے لئے ذاتی طور بھی سوچنا چاہیے،کیوں نہ میں خود بھی ایک ایسے ہی ایوارڈ کا اجرا کروں! حالانکہ اس وقت کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ کیسے کروں گی اور پیسے کہاں سے جمع کروں گی،گھر والوں سمیت جس نے بھی سنا اسے بہت حیرت ہوئی کہ تم کہاں سے دوگی....تمہاری سیلری ہی کتنی ہے.وغیرہ۔ ان کی باتیں اپنی جگہ صحیح کہ ایک ٹیچر کی سیلری ہی کتنی ہوتی...لیکن دل بڑا ہونا چاہیے تو پھر سب کا م ہو جاتے ہیں۔سب اچھے کام پیسے سے نہیں نیت سے ہوتے ہیں، ورنہ ہمارے ملک میں تو ماشا ء اللہ کروڑ پتی اور ارب پتی لوگ بھی بہت زیادہ ہیں لیکن بات تو ترجیحات اور پھر نیت کی ہے، میں سوچتی ہوں کہ اگر ہمارے ملک کے سب کروڑ پتی خلوصِ نیت سے ملک کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں چاہے اپنا تھوڑا سا بھی پیسہ خرچ کرلیں تو ملک کہاں سے کہاں پہنچ جائے۔میں نے فوراً ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ میں نے بھی ایک ایسا ہی ایوارڈ دینا ہے ادیبوں کی حوصلہ افزائی کے لئے، اس طرح کی حوصلہ افزائی سے جو خوشی ملتی ہے اس کا کوئی مول ہی نہیں۔ اردو سائنس بورڈ میں ایک لاکھ روپے کے ایوارڈز دیئے جاتے تھے،پہلا ایوارڈ پچاس ہزار کا،دوسرا تیس ہزار کا اور تیسرا بیس ہزار کا، میرے ذہن میں بھی وہی تھا، اس لئے اس سے کم کا تو میرے ذہن میں ہی نہیں آیا کیونکہ میں اس ادارے کو بہت آئیڈیلائز کرتی ہوں اور اس کے کام کو سب سے بہتر سمجھتی ہوں۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ تو اتنا بڑا سرکاری ادارہ ہے میں اتنا کر پاؤں گی یا نہیں... بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ ایوارڈ تو پاکستان کے چند بڑے ایوارڈز میں سے ہے۔ میں نے اپنی ذاتی ضروریات اور بھی محدود کردیں اور سیونگ کرنے لگی۔میں نے سوچا کہ میں ایک ٹیچر ہوتے ہوئے یہ بڑا قدم اُٹھاؤں گی تو پھر اور لوگ بھی یقیناً انسپائرہو کر آگے آئیں گے اور یہ کام انشاء اللہ آگے بڑھے گا“۔



ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ ہر قلم کار کو اپنی ایک منفرد شناخت بنا نی چاہیے تاہم اس حوالے سے گنے چنے رہنما ہی ملتے ہیں جو کسی کو انفرادیت کا حامل بنانے کی راہیں دکھاتے ہیں۔


معروف ادیب نوشاد عادل کا بھی کہنا یہی ہے کہ”اگر سیاہ لباس والوں کے ہجوم میں آپ بھی سیاہ لباس زیب تن کرکے شامل ہو جائیں گے تو آپ کا پتا بھی نہیں چلے گا۔ سبھی ایک ہی طرح کے نظر آئیں گے، آپ اپنی الگ سے شناخت تب ہی بنا سکتے ہیں جب سیاہ لباس والوں کے ہجوم میں سفید لباس پہن کر داخل ہونگے۔کچھ نیالکھیں گے، کوئی نئی سوچ، نئے کردار، الگ آئیڈیاز سامنے لائیں گے تو تیزی سے شناخت بنائیں گے“۔




اسی طرح کی سوچ تسنیم جعفری صاحبہ بھی رکھتی ہیں،اپنی آپ بیتی میں وہ اس حوالے سے کچھ یوں فرماتی ہیں:
”مجھے ہر کام میں انفرادیت پسند ہے،جہاں سب لوگ ایک جیسا کام کر رہے ہوں وہاں آپ کو کچھ مختلف کام کرنا چاہئے تبھی تو پسند کیا جائے گا“۔




تسنیم جعفری صاحبہ کی آپ بیتی میں ایک اورواقعہ راقم السطور کو بے حد پسند آیا ہے اس میں بہت سی کڑوی باتیں بیان کی گئی ہیں جو ایک باشعور قلمکار اورانسان کو بہت کچھ سمجھاتی ہیں۔


”ایک بڑی نمائش کے لئے میں اپنی ایک پینٹنگ الحمرا لے گئی،جس میں رات کا وقت،گھر کی چھت، درختوں کے او پر مکمل چاند چمکتا ہوا دکھایاگیا تھا،وہ نمائش دراصل ڈگری یافتہ، یعنی کوالیفائیڈ آرٹسٹوں کی تھی،جو انچارج پینٹنگز وصول کر رہے تھے۔وہ بھی ایک سینئر آرٹسٹ تھے، انہوں نے پوچھا،آپ نے کہاں سے سیکھا ہے، سر ٹیفکیٹ یا ڈپلومہ بھی دکھائیں، میں نے کہا،کہیں سے بھی نہیں سیکھا،انہوں نے کہا پھر میں یہ نہیں رکھ سکتا، میں نے کہا، پہلے مجھے آپ یہ بتائیے کہ یہاں جتنی بھی ڈگری ہولڈرز کی پینٹنگز رآئی ہیں ان میں سے کوئی بھی پینٹنگ میری اس پینٹنگ سے زیادہ اچھی ہے؟ کیا فائدہ ایسی ڈگری کا جب آپ کا کام ہی ڈسپلے کرنے کے قابل نہ ہو؟ اس بات پر وہ بہت شرمندہ ہو ئے اور چپ کر کے میری پینٹنگ رکھ لی، نمائش میں وہ سب سے آگے آگے گراؤنڈ فلور پر لگی ہوئی تھی،وہاں کسی نے نہیں پوچھا کہ یہ پینٹنگ کس ادارے سے آئی ہے۔اسی طرح پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ شوق پروان چڑھتا رہا اور اس میں گہرائی اورمہارت آتی گئی۔ آس پاس کئی لڑکیاں فائن آرٹس پڑھ رہی تھیں،لیکن میں نے یہ بات نوٹ کی کہ وہ صرف سیکھنے کی حد تک کام کرتی ہیں ان میں کوئی جذبہ نہیں ہے اس کام کو کرنے کا،چار سال پڑھنے کے باوجود ان کے پاس اتنا کام بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنے کام کی نمائش کر سکیں، جب کہ کچھ ہی عرصہ میں میرے پاس اتنی پینٹنگز جمع ہو گئی تھیں کہ میں نے کئی سولو نمائشیں بھی کرلیں جس میں سیل بھی ہوئیں۔ وہ سب میرا کام دیکھ کر حیران ہوتی تھیں۔ دراصل ہر کام جو مجھے درپیش ہوتا ہے میں اسے پیشن بنا لیتی ہوں،اس میں غرق ہو جاتی ہوں تو نتیجہ خود بخود اچھا آتا ہے“۔




محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ سائنس فکشن لکھنے کے بارے میں کچھ یوں آپ بیتی میں تذکرہ کرتی ہیں:
”مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ میں سائنس فکشن ہی کیوں لکھتی ہوں....اس کا جواب یہی ہے کہ سائنس ایک مضمون نہیں کہ پڑھا نہ پڑھا کوئی فرق نہیں پڑے گا،بلکہ سائنس ایک رویہ ہے جسے اپنائے بغیر کوئی ملک ترقی کر ہی نہیں سکتا۔دنیا کی ترقی کا انحصار سائنسی علوم کو سمجھنے پر ہے اور اب تو خلائی سائنس کا دور ہے،دنیا ایک ”یونیورسل ویلیج“ بن چکی ہے، وہاں دنیا میں کہیں کوئی نیا سیارہ یاکہکشاں دریافت ہوتی ہے تو نیٹ اور کیبل کے ذریعے ہم یہاں اپنے گھر بیٹھے اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ دنیا کاکون سا علم ہے جس کے بارے میں آپ گوگل سے معلومات حاصل نہیں کر سکتے،جب آپ کے پاس ایک جادو کا ایسا آئینہ موجود ہے جو گھر بیٹھے آپ کو کہکشاؤں کی سیر کرا سکتا ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ انسان گھر بیٹھے کائنات بھی تسخیر کر سکتا ہے، اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق ہر موضوع پر دسترس حاصل کر سکتا ہے،ا س سب کے باوجود بد قسمتی سے پاکستان سائنسی ترقی میں بہت پیچھے ہے، آج جب دنیا چاند ستاروں کی تسخیر کرنے میں لگی ہے، چاند کی باتیں ہی نہیں کر رہی بلکہ حقیقت میں چاند پر پہنچ چکی ہے،وہاں رہائشی کالونیاں بنا رہی ہے۔لیکن پاکستانیوں کا آج بھی یہ حال ہے کہ اگر کوئی آسمان کی طرف دیکھ رہا ہو یا چاند کو تک رہا ہو تو کہا جاتا ہے کہ ”یہ بندہ تو گیا کام سے“۔




آج کے کئی قلم کار ایک اہم مسئلے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں اورراقم السطور کو تسنیم جعفری صاحبہ کی آپ بیتی میں اس حوالے سے تذکرہ نے یہ حوصلہ دیا ہے کہ کسی نے اس کا تذکرہ دل سے کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ اب حالات میں بہتری دکھائی دے،یعنی اُس مسئلے کا حل نکالا جائے جس کی انہوں نے نشاندہی کی ہے۔یہاں خوشی کی بات یہ ہے کہ ادب اطفال کے تمام قلمکاروں کو خوب سراہتے ہوئے جو داددی ہے وہ سب کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔




”پاکستان میں بچوں کے ادیبوں کا کوئی حال نہیں ہے،کوئی اہم ایوارڈ نہیں ہے ان کے لئے،کسی ماہنامے میں باقاعدہ کہانیاں شائع ہونے تک کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا کہ رسالے ہی خسارے میں جا رہے ہوتے ہیں، پھر بھی ادیب ادبِ اطفال کی خدت کیے جا رہے ہیں اور خلوص ِ نیت سے کیے جا رہے ہیں، رسالوں میں کہانیاں شائع ہو جانا ایک الگ بات ہے، لیکن اپنے ذاتی خرچ سے کتابیں بھی چھپوانا جن کی سیل ہونے کی بھی امید نہ ہو! میں تو خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں ایسے ادیبوں کو”۔


قارئین کی دل چسپی کے لئے ایک اورواقعہ بھی پیش کر رہا ہوں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ تسنیم جعفری صاحبہ کی آپ بیتی حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ آپ کو زندگی میں منزل کی جانب آگے بڑھنے اورخواہشات کو پورا کرنے کے لئے جہدوجہد کی جانب مائل بھی کرتی ہے۔
”میری وطن کی یہ بیٹیاں“لکھنے کا خیال بھی مجھے اسی لئے آیا کہ نسرین مہدی صاحبہ نے سارے اداروں میں خواتین کے عالمی دن پر 8مارچ کومنانے کی روایت ڈالی تھی اور ان تقریبات میں وہ خود بھی شریک ہوتی تھیں۔ میں چونکہ اس وقت سکول کی فنکشن کمیٹی کی انچارچ بھی تھی تو ہمیں 2016ء میں جب خواتین کا عالمی دن منانے کا کہا گیا تو ہم نے خواتین کے حوالے سے شاعری ڈھونڈنی شروع کی، لیکن کہیں کوئی ایک بھی نظم اس حوالے سے نہیں ملی کہ جس میں ملک کی نامور خواتین کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہو، لے دے کر بس ایک وہی ترانہ ذہن میں آتا تھا”ہم مائیں، ہم بہنیں،ہم بیٹیاں....قوموں کی عزت ہم سے ہے“، گو کہ بہترین کلام ہے لیکن کب تک اسی کو سنتے رہیں، کچھ اور بھی ہونا چاہیے،جب کہ ہماری ماضی اور حال کی خواتین نے بے شمار کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ لیکن بہر حال اس حوالے سے کہیں کچھ نہ ملا ہوتا تو ملتا“۔



”آپ بیتیاں“ کے اس مجموعے میں محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ کی ذاتی زندگی اورادبی دنیا کے حوالے سے دیگر واقعات بھی ہیں جو کہ آپ کی زندگی میں نہ صرف حوصلے وہمت کا سبب بن سکتے ہیں بلکہ آپ کو یہ بھی احساس دلوا تے ہیں کہ حقیقی قلمکار کیسا ہوتا ہے، وہی جس کا لکھا اُس کی ذات کی بھرپور عکاسی کرے۔ راقم السطور کی خواہش ہے کہ کم سے کم ہرخاتون قلمکار کو ضرور محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ کی آپ بیتی کو پڑھنا چاہیے، اُن کی زندگی کے حالات اورجہدوجہد اُن کے لئے ایک مثال کے ساتھ ساتھ رہنمائی کا سبب بھی بنتی رہے گی۔


تسنیم جعفری صاحبہ کے علاوہ دیگر مقبول و نامورادیبوں کی آپ بیتیاں بھی اسی مجموعے کا حصہ ہیں جو کہ پڑھنے کے لائق ہیں۔ آپ بیتیاں مجموعے کے مدیران میں نوشاد عادل، محبوب الہی مخمور اورمعاون مدیر راقم السطور (ذوالفقار علی بخاری) ہیں۔ہارڈ بائنڈنگ، بہترین لے آؤٹ، دیدہ زیب سرخیاں، دیدہ زیب پرنٹنگ، بہترین کاغذ اور شاندار سرورق کے ساتھ اصل قیمت 1200روپے ہے تاہم خصوصی رعایتی قیمت صرف 700 روپے مع رجسٹرڈ ڈاک خرچ ہے۔

کتاب منگوانے کے لیے ابھی رابطہ کریں۔
الہٰی پبلی کیشنز
واٹس ایپ نمبر: 0333.217237295۔
R. سیکٹرB۔ 15، بفرزون، نارتھ کراچی۔پاکستان
ای میل: [email protected]۔

ختم شد۔

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 523069 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More