لکھنے لکھانے کی ویلیو

اس نے کہا
میرے والد گرامی نے اپنی بائیوگرافی لکھی ہے. مختلف نوٹس بک میں ان کے کچھ اور تحریری کام بھی ہے.
وہ ان سب کو چھاپنا چاہتا ہے. یعنی چند تحریریں نوٹس کی مدد سے ایک شاندار کتاب تیار کرنی ہے.
میں نے پورے کام کا جائزہ لیا اور اس کے ڈیمانڈ کو بھی سامنے رکھ کر دیکھا تو کام کافی صعب اور وقت طلب تھا.
عرض کیا:
400 سو صفحات کی کتاب تیار ہوگی. جس کے لیے مراجعت، انٹرویوز اور اہم شخصیات سے مرحوم پر لکھوانے سے لے کر کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور حتمی مسودے کی پرنٹ تک سب کام شامل ہیں.
ڈھائی لاکھ روپے پر کام مکمل ہوگا اور رقم ایڈوانس دینی ہوگی.
رہی بات کتاب کی ڈیزائنگ اور طباعت کے خرچے آپ کے ذمے ہونگے جس کے لیے ٹیکنکلی معاونت بھی فری میں دی جائے گی.
موصوف مجھے غور سے دیکھتا رہا پھر کہنے لگا کہ کافی زیادہ نہیں..؟
عرض کیا معیاری چار سو صفحات لکھنے کے لیے کم از کم چار ماہ چاہیے ہونگے. جب کہ آپ دو دن گاڑی کا ورکشاپ میں کام کروَانے کے لیے پندرہ ہزار پیمنٹ کررہے ہوتے ہیں. آپ کو علم وادب اور تحقیق و مراجعت جیسے محنت طلب اور فنی کام کا نہ اندازہ ہے نہ قدر ہے لہذا آپ باپ کی جائیداد سے گاڑیاں لیں اور انجوائی کریں. وہ ویسے بھی مرچکا ہے. کونسا تیر مارا ہے جو آپ ان کی بائیوگرافی مرتب کرنے کے لیے تین چار لاکھ ضائع کریں.یاد رہے ان کے والد نے کروڈوں کی جائیداد چھوڑی ہے. ایسی اولاد کا کیا کرنا جو باپ کی قلمی محنت اور شوق کے لیے چار پانچ لاکھ خرچ نہ کر سکیں.
ویسے یہ سچ ہے کہ آج کل لکھنے لکھانے کی کوئی ویلیو نہیں.برسوں کی خجل خواری کے بعد کوئی چار حرف جوڑنے کے قابل ہوجاتا ہے تو لوگ"پرائی جَنی" سمجھ کر ڈیمانڈ کرنے لگ جاتے ہیں.

احباب کیا کہتے ہیں؟

اس تحریر پر محترم یونس سروش صاحب کا عالمانہ تبصرہ بھی ملاحظہ ہو.وہ لکھتے ہیں. "سستی شہرت کا حصول ہر دوسرے بندے کا مطمحِ نظر ہے صاحب۔ کسی نامی گرامی شخصیت کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر کھنچوانا۔۔۔۔کسی عوامی تقریب میں پہلی نشست پر براجمان ہونا تاکہ میڈیا والوں کے کیمرے کی ذد میں آسکیں۔ "ہم بھی ہیں پانچوں سواروں میں" کا روگ کورونا کا روپ دھار چکا ہے۔ ایسے میں صاحبِ کتاب ہونے کا عارضہ بھی جڑ پکڑ رہا ہے جہاں تک معیار کا تعلق ہے تو اسے جانچنے کے لئے بھی معیاری نظر درکار ہے۔ جہاں ٹک ٹاکر کے پرستار لاکھوں میں ہوں اور دس معیاری و تحقیقی کتابوں کے خالق کے کام کو سو لائک موصول ہوتے ہوں وہاں آپ اڑھائ لاکھ کا مطالبہ کریں وہ بھی ایسے مواد کے لئے جس کے بارے میں موصوف کو بذاتِ خود شرح صدر بھی ہے کہ "ابا نے نہ تو ملک فتح کیا ہے نہ ہی ملک کا آئین ترتیب دیا ہے اور نہ ہی کارگل کے محاذ پر فتح کے علم گاڑے ہیں" وہ اپنے والدِ مرحوم کی ژولیدہ فکری پر اتنی خطیر رقم کیوں کر خرچ کر پائے گا؟
حرف کی حرمت اور قدر کو سمجھنے کے لئے پرسوز دل، منزہ فکر اور شفاف عمل کے خمیر میں گندھا ہوا وجود درکا ہوتا ہے۔ فنِ کتابت کو چند قلم فروشوں نے کوڑیوں کا بنا دیا ہے۔ ایسے میں آپ کی ہر بات سے اتفاق کے باوجود ذمینی حقائق اس بندے کی سوچ کو رد کرنے سے قاصر ہیں۔
سماج نام کے جس ہجوم میں ہمارا بسیرا ہے وہاں انسانی قدریں کب کی دم توڑ چکی ہیں۔ لفظ حرمت کی قدم قدم پر بے حرمتی ہو رہی ہے۔
" ہوا ہی ایسی چلی ہے ہر ایک سوچتا ہے۔
تمام شہر جلے ایک میرا گھر نہ جلے"
ایسے میں اچھے کی امید ہم تب رکھ سکتے ہیں جب ہم برے کو اچھا کہنا شروع کر دیں۔ سوچ اور فکر کے سافٹ ویر کو اپ ڈیٹ کئے بغیر وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا مشکل ہے۔ اب ہمیں ہر برائ کو اچھائ ، ہر غیر معیاری کام کو معیاری گرداننا پڑے گا۔ تب ہمارا سکہ چلے گا۔ بصورتِ دیگر دقیانوسیت کی بوری میں فالتو سامان کی طرح پڑے رہیں گے۔
قلم تھوڑا سا بہک گیا معذرت!"".




 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 434339 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More