نوجوان رائٹرز اور سوشل میڈیا کی دنیا - مواقع اور مشکلات‎‎‎‎ - آن لائن سیمینار سے نوجوان اور تجربہ کار رائٹرز کا اظہارِ خیال

image
 
ہماری ویب رائیٹرز کلب کے زیر اہتمام آن لائب سیمینار بعنوان’ ’نوجوان رائٹرز اور سوشل میڈیا کی دنیا - مواقع اور مشکلات‎‎‎‎ ‘‘ بروز جمعہ 15 اکتوبر 2021 کو منعقد ہوا۔ صدارت پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے کی جب کہ میزبانی کے فرائض معروف لکھاری، شاعر ارشد قریشی صاحب نے سر انجام دیے۔ مقررین میں ابرار احمد، ڈاکٹر ثناء غوری، عطا محمد تبسم ، شیخ خالد زاہد، سلیم ﷲ شیخ، لاہور سے نسیم الحق زاہدی، سفیان علی فاروقی اور ہماری ویب کی لکھاری ٹیم نے جناب مصدق رفیق کے ہمراہ شرکت کی۔
 
ہماری ویب رائیٹرز کلب کے بنیادی مقاصد میں نئے لکھنے والوں کو آن لائن لکھنے کی ترغیب دینا، ان کی رہنمائی اور معاونت کرنا، سوشل میڈیا پر اپنی تحریر کا شامل کرنے کی فنی طریقوں سے آگاہ کرانا شامل ہے۔ اپنے ان مقاصد کے حصول کے لیے یہ سیمینار منعقد کیا گیا جس کا بنیادی مقصد نئے لکھنے والوں میں آن لائن لکھنے اور سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا تھا۔
 
سیمینار کا آغاز کرتے ہوئے میزبان ارشد قریشی صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور سیمینار کے مقاصد پر روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اس وقت سب سے زیادہ معروف اور پسندیدہ میڈیا کے طور پر سامنے آچکا ہے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج گھر کا ہرفرد سوشل میڈیا سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ منفی پہلو بھی ہیں۔
 
انہوں نے چند مثالیں دے کر واضح کیا کہ سوشل میڈیا کس طرح منفی رجحان کو پروان چڑھارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر کنٹرول کی ضرورت ہے تاکہ اس کے منفی پہلوں پر قابو پایا جاسکے۔
 
image
 
ہماری ویب کے صدر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے مقررین کی باتوں سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ مقررین سوشل میڈیا کی جو اچھائیاں بیان کی ہیں ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا، ساتھ سوشل میڈیا بالکل آزاد اور بے لگام گھوڑے کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے جس کا جو جی چاہتا ہے اس پر پوسٹ کردیتا ہے۔ یہاں تک کے بعض احباب مخالفین کے نفرت میں گالیاں تک لکھ دیتے ہیں۔ اس قسم کی زبان اور الفاظ سوشل میڈیا پر لکھے جارہے ہیں جو ہم اپنے گھر میں اپنی فیملی کے سامنے ادا نہیں کرسکتے لیکن سوشل میڈیا پر لکھنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔
 
جہاں تک اخلاقی حدود کا تعلق ہے تو سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے لیکن اس پر عمل کون کرے گا۔ اس کے لیے بنیادی ضابطہ اخلاق تو یہ ہے کہ ہر شخص اپنے طور پر سوشل میڈیا پر وہ باتیں ہرگز نہ لکھے جو وہ اپنے والدین، بہن بھائیوں، اپنے بچوں کے سامنے ادا نہیں کرسکتے۔ اگر ایسا ہر شخص سوچ لے اور اس پر عمل کر لے تو یہ سب سے بڑا اخلاقی ضابطہ ہوگا۔
 
انہوں نے مقررین میں ڈاکٹر ثناء غوری کی گفتگو کی تعریف کی جنہوں نے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔ اور سوشل میڈیا کے متعدد پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ انہوں نے جناب عطا محمد تبسم کی مختصر گفتگو، خالد زاہد کی مختصر گفتگو کی تعریف کرتے ہوئے موضوع پر عمدہ معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ قرار دیا۔
 
ہمارے ویب کے روح رواں جناب ابرار احمد صاحب نے سوشل میڈیا کی ضرورت اور اہمیت پر مختصر اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پوری ایک دنیا ہے اور یہاں نئے اور پرانے سب لکھنے والوں کے لیے چیلنج ہے- ضرورت یہ دیکھنے کی ہے کہ ہم اس وقت دنیا میں اپنی تعلیم ترقی اخلاق اور معاشی اعتبار سے کہاں کھڑے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس وقت بہت پیچھے ہیں ہر درجہ بندی میں ہمارا نمبر 100 کے بعد ہی آتا ہے- سوشل میڈیا ایک ورچوئل دنیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دنیا میں بھی ہم حقیقی دنیا والے حالات کا شکار ہونے جارہے ہیں- ہم کم سے کم اپنے بہترین چہرے کو سامنے لا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضرورت ہے کہ اچھے لکھنے والوں اچھی بات کرنے والوں اور اچھی سوچ والوں کو سامنے لایا جائے اور انہیں فروغ دیا جائے- سب لکھنے والوں کو وسیع پیمانے پر ایسے پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہیے جس میں بتایا جائے کہ سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والا ہر شخص معاشرے کی ترقی میں کیسے اہم کردار ادا کرسکتا ہے- چاہے کوئی شخص تحریر کے ذریعے اپنی بات کرتا ہو یا کوئی ویڈیو بنا کر کرتا ہو وہ اچھی بات کرسکتا ہے-
 
image
 
ہماری ویب کی نائب صدر ڈاکٹر ثنا ء غوری کا کہنا تھا کہ سو شل میڈیا پر اگر بند نہیں باندھا گیا نہیں معلوم یہ سلسلہ کہا جاکر رکے۔ ضروری ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے آگاہ کیا جائے۔ کوئی بھی خبر بغیر تحقیق کے سوشل میڈیا پر شیئر کردی جاتی ہے بعد میں اس کے منفی اثرات سامنے آجاتے ہیں۔
 
یہاں تک کہ لوگوں کو عدالت میں جانا پڑتا ہے جہاں انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا اس وقت پرنٹ میڈیا اور جنرل میڈیا یعنی ٹی وی سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ساتھ ہی اس پر آنے والی خبر مصدقہ نہیں ہوتی، خبر ضرور پہلے آجاتی ہے لیکن اس پر شک و شبہ ہی ہوتا ہے کہ وہ درست بھی ہے یا نہیں۔
 
جناب عطا محمد تبسم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے اچھے اور منفی پہلوں پر روشنی ڈالی، خالد زاہد نے نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر لکھنے کا مشورہ دیا ۔ نسیم الحق زاہدی نے کہا کہ سوشل میدیا ایک مضبوط ابلاغ کے طور پر سامنے آیا ہے ، آنے والا دور سوشل میڈیا کا ہی ہوگا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر خبر شیئر کرنے یا کمنٹس کرنے سے قبل تحقیق ضرور کر لیا کریں ۔ بغیر تحقیق کے کوئی بات سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے معاشرہ میں منفی رجحانات جنم لیتے ہیں۔
 
سفیان علی فاروقی نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے اس بات پرزور دیا کہ سوشل میڈیا کے لیے رہنما اصول ضرور ہونے چاہیے۔ سلیم ﷲ شیخ نے کہا کہ اسلام میں کوئی بھی بات تحقیق کے بغیر آگے بڑھانے کی ممانعت ہے۔ چناجہ ہمیں چاہیے کہ سوشل میڈیا یا کسی بھی جگہ بات کو آگے بڑھانے سے قبل ہم تحقیق کر لیں کہ یہ درست بھی ہے یا نہیں۔
 
سیمینار میں شریک ہماری ویب کے لکھاریوں نے سوشل میڈیا کے حوالے سے سوالات بھی کیے جن کے جوابات مقررین نے احسن انداز سے دیے۔ طویل دورانیہ کا یہ سیمینار اپنے اختتام کو پہنچا۔
YOU MAY ALSO LIKE: