سراج زیبائی (شیموگہ، کرناٹک)
مشتاقؔ دربھنگوی ایک اعلیٰ پائے کے شاعر ہیں۔ موصوف ہماری معاشرتی زندگی سے
جڑے ہوئے وسیع معاملات اور واقعات کو اپنی شاعری میں موثر انداز میں قلم
بند کردیتے ہیں۔ اُن کے اکثر اشعار کے مطالعے سے فرد، زندگی اور سماج کے
تئیں اُن کے گہرے مشاہدے اور تجربے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اُن کی
شاعری کی زبان نہایت آسان اور سادہ ہے۔ کہیں بھی کسی قسم کی پیچیدگی کا
احساس نہیں ہوتا۔ اُن کی شاعری کے مطالعہ کے دوران ہمیں شاعر کے پُر خلوص
لہجے اور بنی نوع انسان سے یکساں محبت کا احساس ہوتا ہے۔ مشتاقؔ صاحب کا
انداز تو خالص روایتی ہے لیکن موزوں الفاظ کے چناؤ سے اُنہوں نے اپنی شاعری
میں ندرت پیدا کی ہے۔ شاعر موصوف اپنے ارد گرد کے ماحول سے کردار چن لیتے
ہیں اور اپنی شاعری میں اُنہیں اس طرح بیان کردیتے ہیں کہ پڑھنے والے ہر
قاری کو اُس کا اپنا کردار محسوس ہونے لگتا ہے۔ اخلاقی قدروں کی پامالی، بے
ضمیری اور خصوصیت کے ساتھ اُن کی شاعری کی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ اُن کے
اردو گرد کے مسائل و مشکلات اور کرب ناک صورتِ حال کی عکاسی بھرپور انداز
میں ملتی ہے:
ہیں مبتلائے جنگ و جدل اس جہاں کے لوگ
حیرت سے کیوں نہ دیکھیں انہیں آسماں کے لوگ
ہمیشہ خون کے چھینٹے پڑے مفلس کے داماں پر
سدا ظلم و ستم ڈھائے گئے کمزور انساں پر
ظالم کہیں نہ پھونک دے گھر جاگتے رہیں
ہم ہوکے آج سینہ سپر جاگتے رہیں
شاعر جو اس دنیا کا سب سے بڑا حساس فنکار مانا جاتا ہے، جب وہ کسی جاں سوز
حادثے سے گزرتا ہے تو جس کشمکش سے وہ دوچار ہوتا ہے اُس کو ہوبہو شعروں میں
پیش کردیتا ہے۔ کہتے ہیں انسان کا لب و لہجہ اُس کی اپنی شخصیت کا آئینہ
ہوتا ہے جسے وہ اپنے شعروں میں ڈھال دیتا ہے۔ مشتاقؔ صاحب کے کلام میں بعض
منفی رجحانات اور روایات کی نشاندہی بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ کہتے ہیں:
دولت کے لئے سرو و سمن بیج رہا ہے
وہ کون ہے جو حسنِ چمن بیچ رہا ہے
گزاریں گے ہم اپنی زندگی کانٹوں کے بستر پر
مگر گل چیں کے ہاتھوں پیار کا مرہم نہ بیچیں گے
مشتاقؔ صاحب نے انسانی زندگی کے بنیادی امور پر بڑی توجہ صرف کی ہے۔ اُن کی
شاعری میں متنوع موضوعات و اسالیب کی فراوانی ہے۔ اُنہوں نے زندگی کے عام
موضوعات کو فکری بصیرت عطا کرکے اپنی تخلیقات کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔
مشتاقؔ صاحب عشق و محبت کی وارداتیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس طرح بیان کرتے
ہیں:
وہ جب مسکرا کر مجھے دیکھتے ہیں
تو لگتا ہے سارا جہاں خوبصورت
چاندنی رات کے سائے میں فقط تیرے سوا
کون کرتا ہے مجھے یاد بھلا رات گئے
تھے جس کے سامنے گلشن کے پھول شرمندہ
وہ روئے ناز جو مثلِ گلاب تھا کیا تھا
نزاکت کی ہے چال اُس گلبدن کی
یہ گل ہائے نقشِ قدم بولتے ہیں
مشتاقؔ صاحب کے اکثر اشعار ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر رہبرؔ جونپوری کا یہ شعر
بے ساختہ ذہن میں ابھرتا ہے:
قلم خاموش ہے الفاظ کی تاثیر بولے ہے
ہماری صفحۂ قرطاس پہ تحریر بولے ہے
ایک ا چھی شاعری دراصل اپنے پڑھنے والوں کو جسمانی راحت اور روحانی غذا
فراہم کرتی ہے۔ جناب مشتاقؔ بھی اپنی شاعری کے ذریعہ زندگی کا صحیح عرفان
اور غور و فکر عطا کرتے ہیں، جس طرح ہمارے اکثر شاعروں اوروانشوروں نے اپنی
تخلیقات میں ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے اسی طرح مشتاقؔ صاحب نے
بھی سماج کے مختلف مسائل اور کرب کو اپنے فن کے کینوس پر بکھیر دیا ہے۔
پانی کے تعلق سے موصوف کا ایک شعر ہے:
کسی کے روکے سے رکتا ہے کب بھلا پانی
بنا ہی لیتا ہے خود اپنا راستہ پانی
اسے پڑھ کر ہمیں ڈاکٹر بشیر بدر کا یہ شعر یاد آتا ہے:
پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے
خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے
انہوں نے اپنی شاعری میں طبقاتی عدم مساوات کے شکار مظلوموں کے مسائل کو
بھی فنکارانہ مہارت سے پیش کیا ہے۔ جناب مشتاقؔ کی شاعری میں دل آویزی اور
دلکشی کا احساس ہوتا ہے کیونکہ اُن کے ہاں فکر کے ساتھ فن کا بھی بہت نکھرا
ہوا شعور ملتا ہے۔ اکثر شعر خوش آہنگ لفظوں سے مزین ہیں جس سے حسن و تاثیر
دوبالا ہوجاتی ہے۔مختلف موضوعات کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
قتل گاہیں جو یہ آباد نظر آتی ہیں
تیری خونریز سیاست کا اثر لگتا ہے
بے گناہی کی سزا دی جائے گی مظلوم کو
پھر کسی ظالم کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا
مشتاقؔ دربھنگوی شاعری کا فن، نظم و ضبط، تکنیک کی پابندیاں ان تمام
موضوعات کو ملحوظ رکھتے ہوئے شاعری کرتے ہیں جس سے شاعری کا رنگ دوبالا
ہوجاتا ہے۔ اُن کے تخلیقی وجدان اور ادبی شعور کے اعتراف میں بہت سے
اکابرینِ ادب نے اپنے گراں قدر تاثرات لکھے ہیں اور مختلف علمی و ادبی
اداروں نے اعزازات سے نوازا۔ اُن کی شاعری میں کہیں کہیں حسن و عشق، سراپا
پیکر اور فطرت نگاری کے علاوہ ترغیبی اشعار بھی مل جاتے ہیں جیسے:
آدمی کو آدمی سے پیار ہونا چاہئے
اور دل میں جذبۂ ایثار ہونا چاہئے
ہم مشتاقؔ دربھنگوی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اُن
کی شاعری میں تڑپ ہے۔ نرم اور خوبصورت الفاظ میں سجائے ہوئے لطیف پیرائے
میں پیش کی ہوئی شاعری ہے۔ کہیں کہیں جدائی کا کرب، ہجر کا نوحہ بھی در آیا
ہے۔ کہتے ہیں :
جو تیرے ساتھ تعلق کا سلسلہ ٹوٹا
پہاڑ غم کا مرے سر پہ جیسے آ ٹوٹا
مشتاقؔ صاحب کی شخصیت کئی رنگوں کے امتزاج سے بنی ہے۔ ایک اچھے صحافی ہونے
کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ طرز شاعر اور محقق و مبصّر بھی ہیں۔ ان دنوں مشہور
و معروف اخبار ’’اخبار مشرق‘‘ سے وابستہ ہیں۔
مختلف موضوعات پر اُن کی تصانیف کی تعداد 17 ہے۔ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ
شعراء و شاعرات کی عالمی ڈائرکٹری ’’گوش بر آواز‘‘ ہے جو 783 صفحات پر
مشتمل ہے اور اس میں شعراء و شاعرات کی تعداد 3704 ہے۔ غرض مشتاقؔ صاحب کی
ساری ہی شاعری پڑھنے کے قابل ہے اور داد و تحسین کی حقدار بھی۔
|